سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھتے شہری
سرکاری محکموں میں کرپشن عروج پر، حکومتی کارکردگی اجلاسوں تک محدود
شکارپور سے تعلق رکھنے والے مختلف سیاست دانوں کے درمیان اختلافات نے انہیں عوامی مسائل کے حل پر توجہ دینے سے دور رکھا ہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد سیاست داں اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور سیاسی انتقام لینے کی غرض سے مختلف محکموں میں من پسند افسران تعینات کرواتے ہیں، جس کا نقصان عوام کو ہوتا ہے۔ ترقیاتی کاموں میں مخالف امیدوار کے حلقۂ انتخاب کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہر سال ترقیاتی کاموں کی مد میں اربوں روپے جاری کیے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی شکارپور میں لوگ بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں اور شہر کی حالت بدتر ہے۔
یہاں مختلف سرکاری محکموں میں کرپشن عروج پر ہے اور افسران من مانی کررہے ہیں، لیکن کوئی ان کا احتساب کرنے والا نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج خان درانی اپنے ایک اجلاس میں ترقیاتی کاموں میں کرپشن کا انکشاف کرچکے ہیں، لیکن اس کے خاتمے کے لیے مقامی سیاست دانوں نے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ ایف آئی اے نے عوامی شکایات پر مختلف سرکاری محکموں کے افسران اور ٹھیکے داروں کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے۔ دوران تفتیش انکشاف ہوا ہے کہ فنڈز جاری کروانے کے باوجود ترقیاتی کام نہیں کیے گئے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے (سکھر) کی جانب سے ڈپٹی کمشنر شکارپور کو بھی خط ارسال کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سینیٹر اور ایم این اے کو حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے لیے جاری کردہ فنڈز کی تفصیلات بھیجی جائیں۔
سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہر یار خان مہر نے ٹی ایم ایز میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ آغا سراج خان درانی نے بھی ڈی سی آفس میں افسران کے اجلاس کے دوران ٹی ایم اے میں کرپشن کے ساتھ جعلی بھرتیوں کا بھی انکشاف کیا ہے، جس پر کارروائی عمل میں لانا چاہیے اور ذمہ داروں کو تحقیقات کے بعد سزا دی جانی ضروری ہے۔
11 مئی کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو شکارپور کی پی ایس 11 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نشست پر فنکشنل لیگ کے امیدوار امتیاز احمد شیخ کام یاب ہوئے تھے۔ مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں امتیاز احمد شیخ کے اپوزیشن میں رہنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت نے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے سلسلے میں انھیں نظرانداز کیا۔
حالیہ بجٹ اجلاس میں ایم پی اے امتیاز احمد شیخ نے اسمبلی میں کہا کہ حکومت سندھ نے اپنے سالانہ ترقیاتی کاموں میں شکارپور کو نظرانداز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی اختلافات کی سزا شکارپور کے عوام کو کیوں دی جارہی ہے۔ عوام نے مجھے بھاری اکثریت سے کام یاب کرایا ہے اور اپنے لیے نمائندے کا چناؤ ان کا جمہوری حق ہے۔
ایک جانب سرکاری محکموں میں بے تحاشا کرپشن ہے تو دوسری جانب امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے سینیٹر ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو کو ہدایت کی کہ وہ شکارپور میں اجلاس بلاکر امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کوشش کریں۔ سینیٹر عبدالقیوم سومرو نے ایک اجلاس کے دوران واضح کیا کہ آصف علی زرداری نے امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے ڈی سی شکارپور ہادی بخش زرداری اور ایس ایس پی جاوید جسکانی کو تعینات کیا ہے۔
شکارپور ضلع سے مولانا بخت اللہ پہوڑ سمیت 9 افراد اغوا ہوچکے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں جاوید جسکانی نے بتایا کہ مولانا بخت اللہ پہوڑ ہمارے ضلع سے اغوا نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی مولانا بخت اللہ پہوڑ کا پتا چلا ہے، جب کہ دیگر چھے افراد کو اغوا کیا گیا جنہیں جلد بازیاب کرایا جائے گا۔ ان مغویوں میں قاری عبدالمنان، قاری رفیع اللہ پٹھان، عبدالرحمن چنہ، آفتاب مہر، دانش قریشی، نوید بھیو، شاہد جونیجو اور فہیم حیدر سومرو شامل ہیں۔ سینیٹر عبدالقیوم سومرو کی جانب سے اجلاس کے انعقاد کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، لیکن امن و امان کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
دوسری جانب سول اسپتال شکارپور عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اکثر وارڈز کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ سول اسپتال میں جنرل سرجن، گائنا کولوجسٹ، سونولوجسٹ، آرتھو پیڈک سرجن، نیورولوجسٹ، ریڈیولوجسٹ، فزیشن، چائلڈ اسپیشلسٹ اور دیگر شعبوں کے ماہر معالج موجود نہیں ہیں، حالاں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سول اسپتال کے لیے کروڑوں روپے کا بجٹ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر ڈاکٹر بیرون ملک کمانے کی غرض سے مقیم ہیں جب کہ بعض نے نجی کلینک کھول رکھے ہیں۔
اس صورتِ حال میں عوام منتخب نمائندوں اور موجودہ حکومت سے نالاں ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ شہر اور شہریوں کی حالت بہتر بنانے پر فوری توجہ دی جائے۔ شہریوں نے اپوزیشن جماعتوں کے راہ نماؤں سے کہا ہے کہ وہ ان کے حق میں آواز بلند کریں اور حکومت کو اس جانب توجہ دینے پر مجبور کریں۔
اقتدار میں آنے کے بعد سیاست داں اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور سیاسی انتقام لینے کی غرض سے مختلف محکموں میں من پسند افسران تعینات کرواتے ہیں، جس کا نقصان عوام کو ہوتا ہے۔ ترقیاتی کاموں میں مخالف امیدوار کے حلقۂ انتخاب کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہر سال ترقیاتی کاموں کی مد میں اربوں روپے جاری کیے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی شکارپور میں لوگ بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں اور شہر کی حالت بدتر ہے۔
یہاں مختلف سرکاری محکموں میں کرپشن عروج پر ہے اور افسران من مانی کررہے ہیں، لیکن کوئی ان کا احتساب کرنے والا نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج خان درانی اپنے ایک اجلاس میں ترقیاتی کاموں میں کرپشن کا انکشاف کرچکے ہیں، لیکن اس کے خاتمے کے لیے مقامی سیاست دانوں نے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ ایف آئی اے نے عوامی شکایات پر مختلف سرکاری محکموں کے افسران اور ٹھیکے داروں کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر رکھا ہے۔ دوران تفتیش انکشاف ہوا ہے کہ فنڈز جاری کروانے کے باوجود ترقیاتی کام نہیں کیے گئے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے (سکھر) کی جانب سے ڈپٹی کمشنر شکارپور کو بھی خط ارسال کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سینیٹر اور ایم این اے کو حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے لیے جاری کردہ فنڈز کی تفصیلات بھیجی جائیں۔
سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہر یار خان مہر نے ٹی ایم ایز میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ آغا سراج خان درانی نے بھی ڈی سی آفس میں افسران کے اجلاس کے دوران ٹی ایم اے میں کرپشن کے ساتھ جعلی بھرتیوں کا بھی انکشاف کیا ہے، جس پر کارروائی عمل میں لانا چاہیے اور ذمہ داروں کو تحقیقات کے بعد سزا دی جانی ضروری ہے۔
11 مئی کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو شکارپور کی پی ایس 11 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نشست پر فنکشنل لیگ کے امیدوار امتیاز احمد شیخ کام یاب ہوئے تھے۔ مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں امتیاز احمد شیخ کے اپوزیشن میں رہنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت نے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے سلسلے میں انھیں نظرانداز کیا۔
حالیہ بجٹ اجلاس میں ایم پی اے امتیاز احمد شیخ نے اسمبلی میں کہا کہ حکومت سندھ نے اپنے سالانہ ترقیاتی کاموں میں شکارپور کو نظرانداز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی اختلافات کی سزا شکارپور کے عوام کو کیوں دی جارہی ہے۔ عوام نے مجھے بھاری اکثریت سے کام یاب کرایا ہے اور اپنے لیے نمائندے کا چناؤ ان کا جمہوری حق ہے۔
ایک جانب سرکاری محکموں میں بے تحاشا کرپشن ہے تو دوسری جانب امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے سینیٹر ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو کو ہدایت کی کہ وہ شکارپور میں اجلاس بلاکر امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کوشش کریں۔ سینیٹر عبدالقیوم سومرو نے ایک اجلاس کے دوران واضح کیا کہ آصف علی زرداری نے امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے ڈی سی شکارپور ہادی بخش زرداری اور ایس ایس پی جاوید جسکانی کو تعینات کیا ہے۔
شکارپور ضلع سے مولانا بخت اللہ پہوڑ سمیت 9 افراد اغوا ہوچکے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں جاوید جسکانی نے بتایا کہ مولانا بخت اللہ پہوڑ ہمارے ضلع سے اغوا نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی مولانا بخت اللہ پہوڑ کا پتا چلا ہے، جب کہ دیگر چھے افراد کو اغوا کیا گیا جنہیں جلد بازیاب کرایا جائے گا۔ ان مغویوں میں قاری عبدالمنان، قاری رفیع اللہ پٹھان، عبدالرحمن چنہ، آفتاب مہر، دانش قریشی، نوید بھیو، شاہد جونیجو اور فہیم حیدر سومرو شامل ہیں۔ سینیٹر عبدالقیوم سومرو کی جانب سے اجلاس کے انعقاد کو ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، لیکن امن و امان کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
دوسری جانب سول اسپتال شکارپور عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اکثر وارڈز کو تالے لگے ہوئے ہیں۔ سول اسپتال میں جنرل سرجن، گائنا کولوجسٹ، سونولوجسٹ، آرتھو پیڈک سرجن، نیورولوجسٹ، ریڈیولوجسٹ، فزیشن، چائلڈ اسپیشلسٹ اور دیگر شعبوں کے ماہر معالج موجود نہیں ہیں، حالاں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سول اسپتال کے لیے کروڑوں روپے کا بجٹ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر ڈاکٹر بیرون ملک کمانے کی غرض سے مقیم ہیں جب کہ بعض نے نجی کلینک کھول رکھے ہیں۔
اس صورتِ حال میں عوام منتخب نمائندوں اور موجودہ حکومت سے نالاں ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ شہر اور شہریوں کی حالت بہتر بنانے پر فوری توجہ دی جائے۔ شہریوں نے اپوزیشن جماعتوں کے راہ نماؤں سے کہا ہے کہ وہ ان کے حق میں آواز بلند کریں اور حکومت کو اس جانب توجہ دینے پر مجبور کریں۔