پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی
منظور وٹو پیپلزپارٹی کو تخت لاہور واپس دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ اگلے الیکشن میں ہوگا
پیپلز پارٹی کی پنجاب میں گرتی ہوئی ساکھ اور کم ہوتی ہوئی مقبولیت کے حوالے سے چار جون کو جو آرٹیکل لکھا گیا تھا اس میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تنہائی کے بارے میں چند وجوہات کی نشاندہی کی تھی۔
اس میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدرمیاں منظور احمد وٹو کی صدارت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ یہ سب ذاتی تجزیے اور مشاہدے پر مبنی تھا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بڑھتی ہوئی تنہائی کا باعث میاں منظور وٹو بھی ہیں۔ اس آرٹیکل کی اشاعت کے بعد کافی ردعمل موصول ہوا ان میں میاں منظور احمد وٹو کے حق میں بھی رائے سامنے آئی۔ رائے دینے والوں میں جو شخصیات شامل ہیں ان میں غلام محی الدین دیوان اور راجہ عامر خان نمایاں ہیں۔ راجہ عامر خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ نے وٹو صاحب کے ساتھ زیادتی کی اورمیں ناراض ہوں۔
غلام محی الدین دیوان کا موقف تھا کہ میاں منظور احمد وٹو بطور صدر بڑی محنت کر رہے ہیں اوران کا پورا خاندان پارٹی کیلئے کام کر رہا ہے۔ اس ردعمل کے بعد یہ ضروری ہوگیا تھا کہ میں پیپلزپارٹی پنجاب کی تنظیم کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کروں ۔ پھر میاں منظور احمد وٹو سے بھی بالمشافہ ملاقات ہوئی اور بہت سی چیزیں سامنے آئیں۔ سب سے امید افزاء پہلو یہ تھا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تمام تر تنہائی کے باوجود میاں منظور احمد وٹو انتہائی پرامید نظر آئے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی آج بھی مسلم لیگ (ن) کے بعد پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ مئی 2013ء کے الیکشن کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھیں تو حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ پہلی بات تو ذہن میں رہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو الیکشن مہم نہیں چلانے دی گئی۔ طالبان نے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر پیپلزپارٹی نے انتخابی مہم چلائی تو اس کے جلسوں اور امیدواروں پر حملے کئے جائیں گے۔
خیبر پختونخوا میں اے این پی کو دھمکی دی گئی تھی ۔ یہ کوئی خالی خولی دھمکیاں نہیں تھیں بلکہ پوری قوم آگاہ ہے کہ طالبان نے کس طرح خون ریزی کا بازار گرم کئے رکھا۔ تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ (ن) کو انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی تھی۔ ہم نے بطور پارٹی یہ فیصلہ کیا کہ اپنی پارٹی لیڈر اور کیڈر کی جان بچانی ہے تو وقتی طور پر پسپائی اختیار کرنی چاہیے، الیکشن تو آگے بھی آنے ہیں۔ یوں پنجاب میں انتخابی مہم نہ چلانے کا فیصلہ کیا ۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی شکست کی بڑی وجہ یہی تھی ۔ یہ ہماری پالیسی تھی ،کوتاہی نہیں تھی ۔
اب جبکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہو رہا ہے، طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، آپ دیکھیں گے کہ اگلے الیکشن کے دوران پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی روایتی نشستیں دوبارہ جیتے گی ۔ میاں منظور احمد وٹو کی باتیں سن کر لگا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں بڑی حکمت اور دانش سے کام کر رہی ہے۔
وہ تنظیمی امور میں مصروف ہے، پارٹی کیڈر کومضبوط کیا جارہا ہے۔ دوبارہ انتخابی ماحول پیدا ہوا تو پیپلزپارٹی پوری قوت سے سامنے آئے گی ۔ میاں منظور وٹو کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلزپارٹی سیاست نہیں کر رہی ، ہم اس وقت پارٹی کی تنظیم سازی میں مصروف ہیں۔ اضلاع کی سطح پر ہماری تنظیمیں بن چکی ہیں ۔تنظیم سازی بھی سیاست ہی ہے اگر تنظیم مضبوط ہوگی تو پارٹی الیکشن میں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو ستمبر اکتوبر2014 میں پنجاب بھر میں اضلاع کی سطح پر ہونیوالے ورکرز کنونشن سے خطاب کرینگے۔
اب منظور وٹو کا ٹیسٹ اگلے عام انتخابات میں ہوگا ۔ وہ پیپلزپارٹی کو تخت لاہور واپس دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ اگلے الیکشن میں ہوگا، ان پر قبل ازوقت تنقید مناسب نہیں ہے ۔ میاں منظور احمد وٹو نے ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بھی بیان کیں اور کہا کہ ہم نے بطور پارٹی سانحہ لاہور کی مزمت کی ہے، جمہوری حکومت کے دور میں ایسے واقعات نہیں ہوا کرتے لیکن ہماری پارٹی کا یہ موقف ہے کہ ہم کسی ایسی تحریک ، دھرنے یا لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوں گے جس کا مقصد جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہو اور جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے، وہ یقیناً جمہوریت کا خاتمہ نہیں چاہتے، ان کا ٹارگٹ نواز شریف حکومت کو ناکام ثابت کرکے مڈٹرم الیکشن کی راہ ہموار کرنا ہے ۔
میاں منظور وٹو یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان وزیر ستان آپریشن کے باعث لانگ مارچ ملتوی کر دیں گے ۔ ان کا یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ پیپلزپارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری نے سب سے پہلے دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھائی اور مذاکرات کے بجائے ان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا۔ آج سب سیاسی جماعتیں آپریشن پر متفق ہیں اس کا کریڈٹ بلاول بھٹو کو جاتا ہے۔ بہرحال پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کرے ۔ نواز شریف کو بھی تدبر اور فہم کا ثبوت دینا چاہیے اور شخصی آمریت کے تاثر کو ختم کرنا چاہیے ۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی اور جمہوریت کو بھی نقصان ہوگا ۔
منظور احمد وٹو اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے دیگر اہم پارٹی رہنما ذاتی طور پر اے پی سی میں شرکت کے حق میں تھے۔ وٹو صاحب دو تین بار منہاج القرآن سیکرٹریٹ گئے اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی شریک ہوئے ۔ چودھری اعتزاز احسن، سردار لطیف کھوسہ ،مخدوم شہاب الدین ، راجہ ریاض احمد اور شوکت بسرا بھی تعزیت کے لئے گئے۔ میاں منظور احمد وٹو نے ڈاکٹر طاہر القادری پر واضح کردیا تھا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ پارٹی کی مرکزی قیادت کرے گی اور وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ دراصل پیپلزپارٹی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کا حصہ بننا نہیں چاہتی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پیپلزپارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر مخدوم امین فہیم کے خلاف مقدمات بنائے ہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرنے والی جماعتوں سے فاصلے پر کھڑی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نواز شریف کے خلاف کسی سازش کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیںہیں۔ حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن اور عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان پر شدید دباؤ کا شکار ہے ۔
شریف برادران نے اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطے اور تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ نواز شریف مشکل وقت میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف میمو گیٹ میں فریق بننے کے لئے سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے ۔ میمو گیٹ دراصل اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا تھا اور اس کے خالق سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا تھے۔ اسی طرح وزیراعلی شہباز شریف نے سابق دور میں کئی جلسوں میں اعلان کیا تھا کہ اگر میں نے انتخابات کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کو لاہور،لاڑکانہ ، کراچی اور پشاور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔
شریف برادران کے اس سخت اور اشتعال انگیز رویے کے باوجود آصف زرداری نے مفاہمتی پالیسی کا دامن نہیں چھوڑا۔ وہ اگر چاہیں تو عمران خان کے لانگ مارچ کی حمایت کرکے موجودہ سیٹ اپ کا دھڑن تختہ کرسکتے ہیں لیکن ان کی کمٹمنٹ واضح ہے۔ وہ جمہوریت کو خطرے میں ڈال کرآمریت کو موقع نہیں دینا چاہتے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو عمران اور قادری طوفان سے نکالنے کا فیصلہ کرلیاتو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحبان کے اقتدار کو کچھ نہیں ہوگا ۔
اس میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدرمیاں منظور احمد وٹو کی صدارت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ یہ سب ذاتی تجزیے اور مشاہدے پر مبنی تھا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بڑھتی ہوئی تنہائی کا باعث میاں منظور وٹو بھی ہیں۔ اس آرٹیکل کی اشاعت کے بعد کافی ردعمل موصول ہوا ان میں میاں منظور احمد وٹو کے حق میں بھی رائے سامنے آئی۔ رائے دینے والوں میں جو شخصیات شامل ہیں ان میں غلام محی الدین دیوان اور راجہ عامر خان نمایاں ہیں۔ راجہ عامر خان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ نے وٹو صاحب کے ساتھ زیادتی کی اورمیں ناراض ہوں۔
غلام محی الدین دیوان کا موقف تھا کہ میاں منظور احمد وٹو بطور صدر بڑی محنت کر رہے ہیں اوران کا پورا خاندان پارٹی کیلئے کام کر رہا ہے۔ اس ردعمل کے بعد یہ ضروری ہوگیا تھا کہ میں پیپلزپارٹی پنجاب کی تنظیم کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کروں ۔ پھر میاں منظور احمد وٹو سے بھی بالمشافہ ملاقات ہوئی اور بہت سی چیزیں سامنے آئیں۔ سب سے امید افزاء پہلو یہ تھا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تمام تر تنہائی کے باوجود میاں منظور احمد وٹو انتہائی پرامید نظر آئے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی آج بھی مسلم لیگ (ن) کے بعد پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ مئی 2013ء کے الیکشن کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھیں تو حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ پہلی بات تو ذہن میں رہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو الیکشن مہم نہیں چلانے دی گئی۔ طالبان نے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر پیپلزپارٹی نے انتخابی مہم چلائی تو اس کے جلسوں اور امیدواروں پر حملے کئے جائیں گے۔
خیبر پختونخوا میں اے این پی کو دھمکی دی گئی تھی ۔ یہ کوئی خالی خولی دھمکیاں نہیں تھیں بلکہ پوری قوم آگاہ ہے کہ طالبان نے کس طرح خون ریزی کا بازار گرم کئے رکھا۔ تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ (ن) کو انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی تھی۔ ہم نے بطور پارٹی یہ فیصلہ کیا کہ اپنی پارٹی لیڈر اور کیڈر کی جان بچانی ہے تو وقتی طور پر پسپائی اختیار کرنی چاہیے، الیکشن تو آگے بھی آنے ہیں۔ یوں پنجاب میں انتخابی مہم نہ چلانے کا فیصلہ کیا ۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی شکست کی بڑی وجہ یہی تھی ۔ یہ ہماری پالیسی تھی ،کوتاہی نہیں تھی ۔
اب جبکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہو رہا ہے، طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، آپ دیکھیں گے کہ اگلے الیکشن کے دوران پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی روایتی نشستیں دوبارہ جیتے گی ۔ میاں منظور احمد وٹو کی باتیں سن کر لگا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں بڑی حکمت اور دانش سے کام کر رہی ہے۔
وہ تنظیمی امور میں مصروف ہے، پارٹی کیڈر کومضبوط کیا جارہا ہے۔ دوبارہ انتخابی ماحول پیدا ہوا تو پیپلزپارٹی پوری قوت سے سامنے آئے گی ۔ میاں منظور وٹو کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلزپارٹی سیاست نہیں کر رہی ، ہم اس وقت پارٹی کی تنظیم سازی میں مصروف ہیں۔ اضلاع کی سطح پر ہماری تنظیمیں بن چکی ہیں ۔تنظیم سازی بھی سیاست ہی ہے اگر تنظیم مضبوط ہوگی تو پارٹی الیکشن میں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو ستمبر اکتوبر2014 میں پنجاب بھر میں اضلاع کی سطح پر ہونیوالے ورکرز کنونشن سے خطاب کرینگے۔
اب منظور وٹو کا ٹیسٹ اگلے عام انتخابات میں ہوگا ۔ وہ پیپلزپارٹی کو تخت لاہور واپس دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ اگلے الیکشن میں ہوگا، ان پر قبل ازوقت تنقید مناسب نہیں ہے ۔ میاں منظور احمد وٹو نے ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بھی بیان کیں اور کہا کہ ہم نے بطور پارٹی سانحہ لاہور کی مزمت کی ہے، جمہوری حکومت کے دور میں ایسے واقعات نہیں ہوا کرتے لیکن ہماری پارٹی کا یہ موقف ہے کہ ہم کسی ایسی تحریک ، دھرنے یا لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوں گے جس کا مقصد جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہو اور جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے، وہ یقیناً جمہوریت کا خاتمہ نہیں چاہتے، ان کا ٹارگٹ نواز شریف حکومت کو ناکام ثابت کرکے مڈٹرم الیکشن کی راہ ہموار کرنا ہے ۔
میاں منظور وٹو یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان وزیر ستان آپریشن کے باعث لانگ مارچ ملتوی کر دیں گے ۔ ان کا یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ پیپلزپارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری نے سب سے پہلے دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھائی اور مذاکرات کے بجائے ان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کیا۔ آج سب سیاسی جماعتیں آپریشن پر متفق ہیں اس کا کریڈٹ بلاول بھٹو کو جاتا ہے۔ بہرحال پیپلزپارٹی کی خواہش ہے کہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کرے ۔ نواز شریف کو بھی تدبر اور فہم کا ثبوت دینا چاہیے اور شخصی آمریت کے تاثر کو ختم کرنا چاہیے ۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی اور جمہوریت کو بھی نقصان ہوگا ۔
منظور احمد وٹو اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے دیگر اہم پارٹی رہنما ذاتی طور پر اے پی سی میں شرکت کے حق میں تھے۔ وٹو صاحب دو تین بار منہاج القرآن سیکرٹریٹ گئے اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی شریک ہوئے ۔ چودھری اعتزاز احسن، سردار لطیف کھوسہ ،مخدوم شہاب الدین ، راجہ ریاض احمد اور شوکت بسرا بھی تعزیت کے لئے گئے۔ میاں منظور احمد وٹو نے ڈاکٹر طاہر القادری پر واضح کردیا تھا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ پارٹی کی مرکزی قیادت کرے گی اور وہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ دراصل پیپلزپارٹی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کا حصہ بننا نہیں چاہتی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پیپلزپارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر مخدوم امین فہیم کے خلاف مقدمات بنائے ہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرنے والی جماعتوں سے فاصلے پر کھڑی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نواز شریف کے خلاف کسی سازش کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیںہیں۔ حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن اور عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان پر شدید دباؤ کا شکار ہے ۔
شریف برادران نے اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطے اور تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ نواز شریف مشکل وقت میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف میمو گیٹ میں فریق بننے کے لئے سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے ۔ میمو گیٹ دراصل اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا تھا اور اس کے خالق سابق ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا تھے۔ اسی طرح وزیراعلی شہباز شریف نے سابق دور میں کئی جلسوں میں اعلان کیا تھا کہ اگر میں نے انتخابات کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کو لاہور،لاڑکانہ ، کراچی اور پشاور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔
شریف برادران کے اس سخت اور اشتعال انگیز رویے کے باوجود آصف زرداری نے مفاہمتی پالیسی کا دامن نہیں چھوڑا۔ وہ اگر چاہیں تو عمران خان کے لانگ مارچ کی حمایت کرکے موجودہ سیٹ اپ کا دھڑن تختہ کرسکتے ہیں لیکن ان کی کمٹمنٹ واضح ہے۔ وہ جمہوریت کو خطرے میں ڈال کرآمریت کو موقع نہیں دینا چاہتے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو عمران اور قادری طوفان سے نکالنے کا فیصلہ کرلیاتو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحبان کے اقتدار کو کچھ نہیں ہوگا ۔