رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی شہر پر گداگروں کی یلغار گداگری کا نظام ٹھیکے پر قائم ہے

اندرون ملک سے گداگرخاندا ن رمضان سے قبل کراچی منتقل ہوکرعید الاضحی تک یہاں رہائش پذیر رہتے ہیں


Staff Reporter July 01, 2014
شہر کی ایک مصروف شاہراہ پر سگنل پر کھڑے گداگر بھیک مانگ رہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی شہر پر گداگروں کی یلغار ہوگئی،شہر میں گدا گری کا نظام ٹھیکے پر قائم ہے۔

رمضان المبارک، عید الفطر اور عید الاضحی گدا گروں کی کمائی کا سیزن ہوتا ہے، اندرون ملک سے گداگرخاندان رمضان سے قبل کراچی منتقل ہوکر عید الاضحی تک یہاں رہائش پذیر رہتے ہیں، ایکسپریس سروے رپورٹ کے مطابق عروس البلاد کہلانے والے کراچی میں کی آبادی ایک اندازے کے مطابق2کروڑ کے لگ بھگ ہے، ان گنت مسائل کا شکار یہ شہر ہر سال گدا گروں کی یلغار بھی برداشت کرتا ہے ، گدا گر اس شہر کو مخصوص ایام میں روزگار کے لیے دبئی سمجھتے ہیں اور بڑی تعداد میں اس مخصوص ایام میں اپنے آبائی علاقوں آجاتے ہیں۔

سروے کے مطابق رمضان المبارک سے ایک ہفتہ قبل ہی اندرون سندھ کے اضلاع کوٹری ، بدین ، تھر ، ٹنڈو محمد خان ، ٹنڈو آدم ، ٹنڈو الہیار ، نواب شاہ ، مٹھی ، روہڑی ، گھوٹکی ، ڈھرکی شکار پور جبکہ پنجاب کے علاقے رحیم یار خان ، خان پور ، لیاقت پور ، ڈیرہ غازی خان ، بہاولپور ، ملتان ، میاں چنو سمیت دیگر مضافاتی اضلاع سے ہزاروں گداگر خاندان بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے کراچی آتے ہیں جبکہ متعدد خاندانوں کو ٹھیکیدار پرائیوٹ منی ٹرکوں کے ذریعے کراچی لاتے ہیں ، ان گدا گر خاندانوں میں مرد ، خواتین ، بچے ، بزرگ ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہوتے ہیں۔

گدا گر خاندان کراچی کے مختلف علاقوں مواچھ گوٹھ ، ماڑی پور ، بلدیہ ٹاؤن ، کیماڑی ، میٹھادر ، کھارادر ، رنچھوڑ لائن ، برنس روڈ ، تین ہٹی ، لیاقت آباد ، اورنگی ٹاؤن ، گڈاپ ٹاؤن ، ملیر ، سہراب گوٹھ سمیت دیگر علاقوں کے فٹ پاتھوں ، پارکوں ، میدانوں ، پلوں کے نیچے اپنی عارضی رہائش گاہ بناتے ہیں ، سروے میں یہ بات دیکھنے میں آئی کہ عارضی رہائش کے دوران فٹ پاتھوں اور پارکوں میں کھانے پینے کی تیاری کے علاوہ حاجات کے لیے ان ہی علاقوں میں کسی سنسان مقام پر عارضی بیت الخلا بھی بنا لیتے ہیں، چھوٹی آبادیوں کی مسجدوں کے بیت الخلا بھی گدا گر استعمال کرتے ہیں۔

سروے میں کئی سال سے کراچی میں رہائش پزیر ایک گدا گر فقیر محمد نے بتایا کہ کراچی میں گدا گری کا کاروبار مافیا کی صورت اختیار کر گیا ہے اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد گدا گر اس رمضان المبارک کے سیزن میں کراچی آتے ہیں، یہ گدا گر شہر کے مختلف علاقوں کلفٹن ، ٹاور ، بولٹن ، جوڑیا بازار ، صدر ، جامع کلاتھ مارکیٹ ، بوری بازار ، طارق روڈ ، گلستان جوہر ، گلشن اقبال ، سمیت دیگر علاقوں میں واقعے مارکیٹوں اور بازاروں میں پھیل جاتے ہیں، اس کے علاوہ گدا گر مساجد ، فوڈ اسٹریٹ اہم شاہراہوں اور دیگر عوامی مقامات اور قبرستانوں میں ٹولیوں کی شکل میں بھیک مانگتے ہیں۔

اندرون ملک سے آنے والے گدا گروں کو50 سے100افراد جس میں خواتین ، بچے اور بوڑھے شامل ہوتے ہیں گروپ بنا دیا جاتا ہے جن کو ایک سپروائزر کنٹرول کرتا ہے، ہر گروپ کو اس کا علاقہ بتا دیا جاتا ہے، ایک گدا گر کو دوسرے علاقے میں بھیک مانگنے کی اجازت نہیں ہوتی ، یہ گدا گر دوپہر12بجے اپنے اپنے مخصوص مقام پر پہنچ جاتے ہیں اور رات گئے تک وہاں بھیک مانگتے رہتے ہیں۔

رمضان المبارک کا آخری عشرہ ان کے لیے کمائی کے عروج کا وقت ہوتا ہے، ایک گدا گر نے بتایا کہ رمضان کے پہلے عشرے میں800 سے1000 ، دوسرے عشرے میں1500سے 2000 جبکہ آخری عشرے میں تین ہزار روپے تک کمالیتا ہے ، روزانہ کی کمائی کا30 فیصد حصہ ٹھیکیدار کو دینا پڑتا ہے، رمضان کے بعد عید الفطر کے تینوں ایام میں گدا گر شہر کے تمام رہائشی علاقوں ، فوڈ اسٹریٹس اور تفریح مقامات پر بھیک مانگتے ہیں ، سروے میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ ہے کہ کچھ گدا گر تو حقیقی معذور ہوتے ہیں جبکہ کچھ مخصوص طریقوں سے اپنا حلیہ تبدیل کرتے لیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں