ملک کے اندر ملک
مردم شماری کے ان اعداد و شمار کی تفصیل مزید پریشان کن ہے۔
بہبود آبادی کے سلسلے میں ایک سیمینار جاری تھا۔ مقرر نے آبادی میں بے تحاشہ اضافے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتے ہوئے کہا کہ آبادی میں اضافے کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اعداد و شمار کے مطابق ایک عورت ہر ایک سیکنڈ بعد بچہ پیدا کرتی ہے۔
اس لیے ہمیں اس مسئلے پر فوراً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سنتے ہی حاضرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور انتہائی پریشانی میں بولا : ہمیں فوری اس ایک عورت کے پاس چلنا چاہیے اور اسے منع کرنا چاہیے جو ہر ایک سیکنڈ میں بچہ پیدا کر رہی ہے۔یہ واقعہ مدتوں پہلے آبادی کے سینسز (Census) اور آبادی میں مسلسل بے تحاشا اضافے پر کہیں سنا تھا۔
چند روز قبل پاکستان ادارہ شماریات نے کونسل آف کامن انٹرسٹ کی جانب سے گزشتہ سال منظور کیے گئے 2023 کے آبادی اور ہاؤسنگ کے ساتویں سینسز کے تفصیلی اعداد و شمار جاری کیے۔ ان اعداد و شمار کی تفصیل دیکھتے ہوئے ہمیں یہ پرانا واقعہ یاد آیا ،لیکن کیا کیجیے کہ ملک میں سیاست کی مارا ماری اور تمام میڈیا پر سیاست ہی کی ہاہا کار کے سبب آبادی میں خوفناک اضافے کے ان اعداد و شمار اور ممکنہ نتائج پر کسی کے کان پر جوں رینگی نہ کسی نے مڑ کر ان اعداد و شمار کو در خور اعتنا سمجھا۔
2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 207.68 ملین تھی جو 2023 میں بڑھ کر 241.49 ملین ہو گئی، یعنی اوسطاً 2.55 فیصد سالانہ اضافہ۔ آبادی میں اضافے کی اگر یہی رفتار جاری رہی تو 2050 تک ملک کی آبادی دو گنا ہو جائے گی یعنی لگ بھگ 50 کروڑ نفوس! وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے بقول آبادی میں اس قدر انتہائی اضافے کی شرح صرف دنیا کے 30 ممالک ہی میں ہے جن میں بیشتر کا تعلق افریقہ سے ہے۔
مردم شماری کے ان اعداد و شمار کی تفصیل مزید پریشان کن ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مردوں اور عورتوں کے تناسب میں مزید بگاڑ آیا ہے۔ یعنی اس وقت مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت زائد ہے۔ موجودہ صنفی تناسب 1.06 ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 30 سال سے کم عمر کی آبادی کا تناسب 67 فیصد تھا۔ عمر کی حد اگر40 سال تک دیکھیں تو چالیس سال تک کی آبادی کا تناسب کل آبادی کا تناسب80 فیصد ہے۔
ان اعداد و شمار سے ایک تلخ حقیقت مزید واضح ہوتی ہے کہ دیہی اور شہری آبادیوں میں کس انداز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مردم شماری کے مطابق دیہی آبادیوں میں اضافہ 1.88 فیصد جب کہ شہری آبادیوں میں 3.88 فیصد کے حساب سے ہوا۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں 5 لاکھ نفوس سے زائد شہروں کی تعداد 14 تھی جب کہ چھ سال بعد پانچ لاکھ سے زائد آبادی کے شہروں کی تعداد بڑھ کر 22 ہو گئی ہے نئے شامل ہونے والے شہروں میں قصور، رحیم یار خان، اوکاڑہ، ساہیوال ،لاڑکانہ ،گجرات، شیخوپورہ اور جھنگ شامل ہیں۔
مردم شماری کے اعداد و شمار سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک میں اڑھائی کروڑ ( پانچ سے 16 سال کی عمروں کے درمیان) بچے اسکول نہیں جاتے یا اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہو چکے ہیں۔مزید تفصیل میں جائیں تو پنجاب میں 27 فیصد ،کے پی میں 37 فیصد، سندھ میں 46 فیصد اور بلوچستان میں 58 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے یا ڈراپ آؤٹ ہو چکے ہیں۔یہ انتہائی خوفناک رجحان ہے۔1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی ساڑھے 14 کروڑ تھی جو لگ بھگ 25 سال بعد 24 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔
اس کا سادہ سا مطلب ہے اس دوران پاکستان میں آبادی کا اضافہ لگ بھگ ایک نئے ملک کے برابر ہے۔ جب کہ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ اس دوران ان میں سے بیشتر ممالک کے جی ڈی پی اضافہ اور سماجی ترقی کہیں سے کہیں پہنچ گئی جب کہ ہماری معاشی ترقی سیاسی عدم استحکام کے ساتھ اٹھک بیٹھک میں ہانپ رہی ہے۔پاکستان کی آبادی میں اضافے کی رفتار خطے کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔
1971 میں پاکستان کی تقسیم کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ تاہم پچھلی چند دہائیوں میں بنگلہ دیش نے آبادی میں اضافے پر مثبت انداز میں کنٹرول کیا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ کے لگ بھگ ہے، جب کہ پاکستان کی آبادی اس سے سات کروڑ زائد ہے یعنی 24 کروڑ سے بھی زائد۔اضافہ شدہ سات کروڑ کی آبادی کے برابر دنیا میں کئی ممالک ہیں۔ پاکستان میں آبادی میں ہونے والا یہ اضافہ انتہائی زیادہ ہے اور یہ اضافہ کسی بھی صورت مستقبل کے لیے اچھی نوید نہیں بلکہ پریشان کن ہے۔آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہمارے شہر مسلسل اور بے محابہ پھیلتے جا رہے ہیں۔ آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے وسائل پر بے تحاشہ بوجھ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔تعلیم ،صحت ٹرانسپورٹ، ملازمتوں اور دیگر سماجی خدمات پر بوجھ ہے کہ ناقابل برداشت ہو رہا ہے ۔
شہری اور دیہی آبادیوں میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ،جس تیزی سے آبادیوں میں اضافہ ہوا ہے اس تناسب سے صنعتی ترقی اور معاشی ترقی نہیں ہوئی ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ عمومی معاشی اور سماجی زندگی کے معیارات میں تنزلی ہے عوام میں پریشانی ہے، بے چینی ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب شہروں میں ہاؤسنگ کے مسائل شدید تر ہو گئے ہیں۔ تعلیم جو کہ ایک بنیادی حق ہے ،حکومتی تعلیمی اداروں کی مایوس کن کارکردگی کے سبب ملک بھر میں نجی سیکٹر کا تعلیم کے نام پر دھندہ عروج پر ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت اور عام سماجی سہولیات کے لیے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
40سال کی عمر تک ملکی آبادی کا 80 فیصد تناسب بجائے خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان اور مستقبل کی خوفناک صورتحال کا عکاس ہے۔ لیکن کیا کیجیے ملک بھر میں سیاسی مارا ماری اور ہاہا کار نے سب کو اس قدر مصروف کر رکھا ہے کہ آبادی میں خوفناک اضافے کے محرکات اور نتائج پر توجہ دینے کی کسی کو فرصت ہی نہیں۔