ڈیجیٹل محبت اور اس کی تباہ کاریاں

’مجھ پر اعتبار نہیں‘ جیسے جملے بول کر ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ ہوتا ہے

آن لائن ہراسانی نے کئی زندگیاں اور گھر برباد کردیے۔ (فوٹو: فائل)

ایک اجنبی نمبر سے کال آئی اور میرے ہیلو کرتے ہی آگے سے نسوانی سسکیوں کی آواز نے مجھے پریشان کردیا۔ بہرحال کچھ دیر تسلی دیتے گزر گئی اور آخر لڑکی نے اپنا مسئلہ بتایا جسے سن کے مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی۔ کیونکہ جو بات وہ بتا رہی تھی وہ آج کل بہت عام ہے اور اس کا شکار صرف نوجوان لڑکے لڑکیاں نہیں بلکہ بڑی عمر کے خواتین و حضرات بھی ہورہے ہیں۔


میں بات کر رہی ہوں ''ڈیجیٹل محبت'' کی، اور اس کے بعد پیدا ہونے والے مسائل اور پیچیدگیوں کی۔ جن کا احساس تب ہوتا ہے جب وقت ہاتھ سے اور ذاتی ڈیٹا موبائل سے نکل کر کسی دوسرے کی فوٹو گیلری میں چلا جاتا ہے۔


یہ دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں، اس میں دو دنیائیں بن چکی ہیں، ایک آف لائن اور دوسری آن لائن دنیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انٹرنیٹ نے ہماری زندگیوں میں بہت آسانیاں پیدا کی ہیں، بالخصوص کورونا وائرس کی وبا کے دوران تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ دنیا کے کام کاج حتیٰ کہ خریداری کے امور بھی انٹرنیٹ کے ذریعے باآسانی سر انجام دیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے منفی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں اس ڈیجیٹل دور نے اتنی آسانیاں پیدا کیں وہاں اس نے کچھ ایسے اَن دیکھے نقصان بھی کرنا شروع کیے جن کا اندازہ ہمیں آہستہ آہستہ ہورہا ہے۔


انٹرنیٹ و سوشل میڈیا نے بے یقینی کی فضا بنا ڈالی ہے۔ ہم اس کی بدولت کسی کے بھی بارے میں اچھی یا بری رائے قائم کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ ہمارے پاس کوئی فلٹر نہیں کہ ہم غلط اور صحیح یا سچ اور جھوٹ کی پہچان کرسکیں۔ اب ہماری دوستیاں، رشتے یا محبتیں سب آن لائن بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ جب دو لوگوں کے بیچ تعلق بنتا ہے اور محبت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے اس وقت چونکہ زندگی کا محور ایک ہی انسان بن جاتا ہے اس لیے اپنا سب کچھ اس انسان پر لٹانے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچتے اور کچھ ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جو بعد میں اپنے ساتھ خاندان کی بربادی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ 'مجھ پر اعتبار نہیں' جیسے جملے بول کر ذاتی تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ ہوتا ہے جو بہت ہی معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے مگر جب وہ تعلق ٹوٹتا ہے تو وہی تصاویر اور ویڈیوز وبال جان بن جاتی ہیں۔ اور ایسا ہی ہوا تھا اس لڑکی کے ساتھ جس کی کال کا ذکر میں نے شروع میں کیا۔


لڑکا اسے بلیک میل کر رہا تھا اور پیسوں کا تقاضا کرتے ہوئے ملنے کےلیے مجبور کررہا تھا۔ مگر اس لڑکی نے بلیک میل ہونے کے بجائے کسی سے مدد مانگنا زیادہ بہتر سمجھا۔ خیر میں نے بھی اس کی مدد کی اور اسے لے کر ایف آئی اے کے سائبر کرائم سینٹر چلی گئی اور پورے دن کی تگ ودو کے بعد شام میں وہ لڑکا گرفتار ہوا اور اس سے ساری تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں۔ لڑکی کا سارا زور صرف اس بات پر تھا کہ کچھ بھی ہوجائے میرے گھر والوں کو پتا نہ چلے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لڑکیاں ایسے درندہ صفت لوگوں کا نشانہ بنتی ہیں اور ان کی بلیک میلنگ کا شکار ہوکر اپنی عزت اور پیسہ دونو ں گنوا دیتی ہیں، کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ اگر گھر میں باپ یا بھائی کو پتا چل گیا تو اسے قصوروار ٹھہراتے ہوئے سزا سنادی جائے گی۔


بلیک میلنگ کا شکار زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ لڑکے اس سے محفوظ ہیں۔ وہ بھی اپنے جیسے دوسرے لڑکوں سے یا لڑکیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بظاہر بہت اچھا نظر آنے والا انسان اصل میں کیسا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جعلی اکاؤنٹ بنا کر لوگوں کو بے وقوف بنانا، فراڈ کرنا یا محبت کا جھانسہ دے کر عزتوں سے کھیلنا سوشل میڈیا کا پسندیدہ کھیل ہے۔ حال ہی میں جو پاکستان کے معروف ڈرامہ نگار کے ساتھ ہوا وہ بھی اسی کھیل کی ایک کڑی ہے۔



یاد رکھیے انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اگر کوئی ہراساں، فراڈ یا بلیک میل کرتا ہے تو اسے آن لائن ہراسمنٹ اور سائبر کرائم کہتے ہیں اور ایسے معاملات کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو رپورٹ کیا جاسکتا ہے۔ ایف آئی اے نے مختلف شہروں میں اپنے سائبر کرائم سینٹر بنائے ہوئے ہیں جو سائبر کرائمز کو ڈیل کرتے ہیں۔ اگر کبھی ان سینٹرز میں جانے کا اتفاق ہو تو ایسا لگے گا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے، چاہے وہ کوئی مالی فراڈ ہو یا ہراساں کرنے کا معاملہ ہو۔


ان سب چکروں سے بچنے کےلیے بہتر ہے کہ ہم پہلے ہی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی پرائیویسی سیٹنگ کا خیال رکھیں۔ اپنی ذاتی معلومات، تصاویر، ویڈیوز، فون نمبر، گھر کا یا کام کرنے کا پتہ کسی بھی ایسے شخص سے شیئر نہ کریں جسے آپ صرف آن لائن جانتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اگر کوئی آپ کو ملنے کےلیے بلائے تو کبھی بھی مت جائیں۔ کوئی پریشان یا ہراساں کرنے کی کوشش کرے تو اس سے بلیک میل ہونے کے بجائے کسی اپنے کے ساتھ شیئر کریں اور رپورٹ کریں۔ والدین، بہن بھائیوں اور بڑے بزرگوں سے گزارش ہے کہ اگر کسی بہن بیٹی سے غلطی ہوجائے تو بھی اسے کسی درندے کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہونے دیں۔ ان کا ساتھ دیں اور یہ یقین دلائیں کہ وہ آپ پر بھروسہ کرسکتی ہیں اور آپ ہر مشکل میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story