ڈیفنس میں بگٹی قبیلے کے درمیان خونی تصادم کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہوسکی

زیرحراست افراد سے تحقیقات میں معلوم ہوا کہ دونوں گروپس کے درمیان جائیداد اور کراچی میں فلیٹس کا تنازع تھا، ڈی آئی جی

پولیس نے 17 افراد کو کریک ڈاؤن کے دوران حراست میں لے لیا ہے—فوٹو: فائل

ڈیفنس میں رواں ہفتے بگٹی قبیلے کے دو گروپس کے درمیان ہونے والے مسلح خونی تصادم کے حوالے سے شروع کی گئی تحقیقات میں تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوسکی تاہم زیر علاج زخمی ملزمان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

کراچی پولیس کے ڈی آئی جی ساوتھ اسد رضا کا کہنا تھا کہ مسلح تصادم اور ہلاکتوں کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے اور پولیس نے گزشتہ دو روز میں کریک ڈاؤن کرکے 17 افراد کو حراست میں لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زیر حراست افراد سے مسلح تصادم کے حوالے سے تفصیلات اکٹھی کی جارہی ہیں اور پولیس نے چند ایک ملزمان سے قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد کر لیا ہے۔

ڈی آئی جی جنوبی نے بتایا کہ پولیس نے مسلح تصادم کے نتیجے میں زخمی ہونے والے میر علی حیدر بگٹی اور قائم علی کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی ہے، جو تصادم میں زخمی ہوئے تھے اور اس وقت نجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔


اسد رضا کے مطابق میر علی حیدر بگٹی نے ابتدائی بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ وہ اپنے قریبی دوست سے ملنے جارہا تھا کہ فائرنگ کا واقعہ رونما ہوگیا، اس حوالے سے ان کے پاس مزید معلومات موجود نہیں ہیں لیکن پولیس میر علی حیدر بگٹی کے بیان سے مطمئن نہیں ہے۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پولیس نے زیر حراست افراد کے بیان بھی قلم بند کیے ہیں، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ مسلح تصادم جائیداد کے تنازع پر ہوا ہے اور کراچی میں متعدد فلیٹس کے معاملات پر بھی بگٹی قبیلے کے دونوں افراد کے درمیان کشیدگی جاری تھی۔

خیال رہے کہ ڈیفنس کے علاقے درخشاں تھانے کی حدود میں بگٹی قبیلے کے دو گروپس کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں فہد بگٹی، نصیب اللہ، میر مہسم بگٹی، میر عیسیٰ بگٹی اور علی جاں بحق اور میر علی حیدر بگٹی اور قائم علی زخمی ہوگئے تھے۔

کراچی پولیس نے مذکورہ واقعے کے بعد کریک ڈاؤن کرتے ہوئے اب تک 17 افراد کو حراست میں لیا ہے اور قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی برآمد کرلیا ہے۔
Load Next Story