مٹی سے مٹی تک
طویل راستوں پر پیدل چلیں کہ عمرکے آخری حصے میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئیں
انسان کی سچائی بس اتنی ہی ہے کہ وہ مٹی سے بنا ہے، مٹی ہونے کے لیے اور مٹی کی خاصیت کھنکنا ہے جو نہ صرف بجتا ہے بلکہ اکھڑنا بھی اس کی فطرت میں شامل ہے لیکن ان میں کچھ رب کی نصیحتوں پر عمل کرنے والے بھی ہوتے ہیں جوکھنکنے کے بجائے صبر برداشت، خاموشی کی صفات اپناتے ہیں اور اکھڑنے کی بجائے رب کے آگے جھکنے کو فوقیت دیتے ہیں بلکہ خلق خدا سے بھی خاکساری برتتے ہیں اور اپنے پیچھے اپنی اچھائیوں نیکیوں سے مخلوق خدا کے دلوں میں انمٹ نقوش چھوڑے جاتے ہیں جن سے ابد تک دعاؤں کے پھول کھلتے رہتے ہیں اور وہ اچھائی یا نیکی جو انھوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں کی ان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔
راقم الحروف کے نزدیک زندگی کا سفر ایک مومن کے لیے اذان سے نماز جتنا ہے یا آکر غسل کروایا عارضی مسکن کے لیے اور پھر غسل لے کر ابدی جہاں کی طرف روانہ کردیا گیا، یعنی جب بندے میں اتنی طاقت نہیں کہ نہ تو وہ آکر خود غسل کرسکتا ہے اور نہ جاتے ہوئے تو پھر اس کا بجنا شور مچانا یا اکھڑنا غرورکرنا کی کیا اہمیت وحیثیت۔ خدائے بزرگ نے انسان کو زندگی کے ان اہم محرکات پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے، دنیا میں آنا اورجانا زندگی کی حقیقت ہے موت برحق ہے جو ہر ذی روح کو آنی ہی آنی ہے لیکن بشر زندگی کی عارضی لذتوں میں کھو کر زندگی کے اختتام اور موت یعنی ابدی و دائمی زندگی کی ابتداء کوکیوں کر فراموش کر دیتا ہے جبکہ وہ اشرف المخلوقات ہونے کے شرف کے ساتھ اس فانی دنیا میں آیا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں میرے بہت اپنے وقتا فوقتا اس عارضی دنیا کو چھوڑ ابدی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ رب العزت نے انھیں قابل تقلید زندگی گزارنے کا شرف بخشا اور وہ اپنی اچھائیوں سچائیوں کی شمعیں تا ابد روشن کرگئے۔ عظیم مائیں جوگزشتہ دنوں میں ہم سے بچھڑگئیں ان میں مسز قیصرمعین، مسز مریم علوی میریڈین اسکول کی لائق استانیاں جو ایک تہذیب اورایک خاص کلچرکی نمائندہ تھیں۔ ''ماں''کی طرح شفقت رکھنے والی استانیاں جو آج کے اس پرفتن دور میں ناپید ہیں۔ مسز قیصر انگریزی اور سائنس پڑھاتیں اور مسز علوی ریاضی کے مضمون سے متعلق تھیں۔ قیصرصاحبہ کے شوہر ڈی جے کالج شعبہ طبیعات کے پروفیسر تھے اور انتہائی قابل احترام صحافی محمد علی صدیقی جوکہ ہمارے حسیب ماموں کے ہم جماعت بھی تھے کی ہمشیرہ بھی تھیں۔
آپ کے شوہر زندگی کے آخری حصے میںفالج ( برین ہیمرج) کے عارضے کا شکار ہوئے اور ایک طویل عرصے وہ اس مشکل کو جھلتے رہے، انھوں نے اپنے شوہرکی بھر پور دیکھ بھال کی اور جس طرح اس عظیم ماں نے تن تنہا اپنی نوکری جاری رکھی، تدریس کے حوالے سے کوئی کوتاہی نہ برتتے ہوئے بچوں کو اور خصوصا لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، ان کے گھر بسائے وہ لائق تحسین ہے اور دورحاضرکی خواتین کے لیے ایک مثال کہ کس طرح ایک خاتون بے مثال استاد اور ماں الغرض ہر رشتہ عمدگی سے نبھا کر دنیا کے لیے انمٹ نقوش چھوڑگئیں۔
طویل راستوں پر پیدل چلیں کہ عمرکے آخری حصے میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئیں، اس کے باوجود ان کے حوصلے بہت بلند رہے۔ بہترین ادبی ذوق رکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ اپنے اسکول کے بیشتر ثقافتی پروگرامزکی انچارج مقررکی جاتیں۔ آپ نے بہادر یار جنگ اسکول سے میٹرک، اسلامیہ کالج سے گریجویشن اور جامعہ کراچی سے ماسٹرزکی سند حاصل کی، بعد ازاں گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن سے بی ایڈ کیا۔1968ء میں تدریسی سفرکا آغازکیا جوکہ 1999ء میں آپ کی ریٹائرمنٹ پر ختم ہوا۔ رب کریم نے آپ کی محنتوں کا صلہ کچھ اس طرح دیا کہ بڑی بیٹی عالیہ اپنے والد کی طرح بحیثیت استاد شعبہ طبیعات پی ای سی ایچ ایس گرلزکالج سے منسلک ہوئیں اور بعد میں اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کرکے آج جامعہ کراچی سے وابستہ ہیں، دوسری بیٹی عظمی اور چھوٹی بیٹی مہ جبین ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں جبکہ آپ کے بڑے بیٹے بطور اکاؤنٹ آفیسر ایک معروف اسکول سے وابستہ ہیں اور چھوٹے بیٹے منہاج کمپیوٹرکے شعبے میں ہیں۔
ان بچوں کی بہترین تربیت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنی ماں کو زندگی کے آخری حصے میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دی اور ڈاکٹر بیٹیوں نے ان کا تمام علاج گھر پر ہی کیا، اسپتالوں کے چکر لگانے اور آج کل کے پیسوں کے ہوس اور لالچ میں مبتلا معالجوں کی اکثریت سے اپنی ماں کو بچائے رکھا اور ان کی سخت محنت کا بھرپور محنتانہ دینے کی سعی کرتی رہیں۔
مسزعلوی بھی بطور بہترین استاد اپنا ایک مقام رکھتی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتیں اور جس طرح ایک ماں کا دوسرا نام ایثار اور قربانی ہے وہ اسی طرح کی ثمر آور زندگی گزارکر ایک طویل عرصے گردوں کے عارضے میں رہ کر اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔ ماں کی طرح بلکہ شاید ماں سے کچھ بڑھ کر باپ کی قربانیاں اپنی اولاد کی بڑھوتی کے لیے کچھ کم نہیں ہوتیں، بس صرف فرق اس بات کا ہے کہ وہ اپنی حساسیت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اپنے رعب سے اپنے لخت جگروں کو آنے والے وقت کی سرد وگرم سے بچانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں، یہ شجر سایہ دار ہوتے ہیں،
یہ چلے جائیں تو اولاد سخت دھوپ کی تمازت میں آجاتی ہے جب ہی تو باپ کی رضاء میں رب نے اپنی رضاء رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب والد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ جائے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے کیا کچھ تھے۔ ڈاکٹر عمران جو آج کل انگلینڈ کے شہر پیٹر بوروکے ایک معروف شفاخانے میںGeneral Practitioner(GP) بطور معالج فرائض انجام دے رہے ہیں،گزشتہ دنوں وہ اپنے والد بزرگوارکے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کے والد ڈاکٹر حمید 1934ء میں کرشنا پلی مدراس ( تامل ناڈو) انڈیا میں پیدا ہوئے، ان کے والد جان محمد صاحب ریلوے میںانجینئر تھے۔ حمید صاحب نے ابتدائی تعلیم (میٹرک)اسلامیہ اسکول سے حاصل کی ۔1948ء میں کراچی آگئے اور سندھ مدرستہ الاسلام سے انٹرکیا، بعد ازاں ڈاؤ میڈیکل کالج کا رخ کیا اور وہاں سے ایم بی بی ایس کی سند حاصل کر کے بحیثیت ڈیمانسٹریٹر اپنی مادر علمی سے منسلک ہوگئے۔
ایم بی بی ایس کے بعد آپ نے اسی ادارے سے فارما کولوجی میں ایم ایس سی اور ایم فل کیا اور پھر روڈز اسکالرشپ کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی لاس اینجلس سے فارما کولوجی میں ہی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور واپس آکر بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اپنی مادر علمی کو دوبارہ جوائن کر لیا اور اس ادارے کی ایک طویل سرکاری خدمت کے بعد بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر آپ 1994ء میں یہاں سے سبکدوش ہوئے۔ آپ کی درس و تدریس کی چاہ یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ نے اس سفرکو جاری رکھا اور سرسید میڈیکل کالج، فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں بھی اپنے مضمون میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور یوں ہزاروں لائق فکر شاگرد وطن عزیز کو طب کے شعبے میں دیکر اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔
انتہائی نرم گفتار شخصیت تھے۔ اولاد کے بہتر مستقبل کو اپنی تدریسی مصروفیات کے باعث کبھی پس پشت نہ ڈالا بلکہ انہیں اپنی زندگی کا بہترین وقت ان کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کیا۔ ڈاکٹر عمران حمید فرزند ڈاکٹر حمید اسکول کے زمانے سے ہی لائق طالبعلم تھے یہی وجہ ہے کہ وہ وطن عزیز سے باہر رہ کر بھی پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں اور اپنے والد کی دی گئی تعلیم و تربیت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اللہ دور حاضر کے اساتذہ کو ان کے نقش قدم پر چلنے اور تعلیمی ماحول کی بہتری میں قرار واقعی کردار ادا کرنے کی عظیم توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)