یمن سے تل ابیب تک

یافا کے ریڈ زون میں امریکی سفارتخانہ سمیت غاصب صیہونی حکومت کے اہم فوجی دفاتر موجود ہیں

گزشتہ دنوں یمن کی انصار اللہ نے غاصب صیہونی حکومت کے قلب یعنی تل ابیب فلسطینی نام یافا میں ایک ڈرون سے حملہ کیا۔ یہ ڈرون یمن سے نکل کر تقریبا دو ہزار پانچ سوکلومیٹرکا سفر طے کرتے ہوئے یافا کے ریڈ زون یعنی تل ابیب کے ریڈ زون پر ایک ایسی عمارت پر نشانہ پر لگا جو امریکی سفارتخانہ سے صرف ایک سو میٹرکی دوری پر تھی۔

یافا کے ریڈ زون میں امریکی سفارتخانہ سمیت غاصب صیہونی حکومت کے اہم فوجی دفاتر موجود ہیں جن میں سے ایک فوجی اہم مرکز پر یمن کی انصار اللہ کا بھیجا گیا ڈرون کامیابی سے پہنچنے اور نشانہ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس حملے کے بعد پہلے پہل تو غاصب صیہونی حکومت کے ذرائع نے یہ بات ماننے سے انکارکیا کہ یہ ڈرون یمن سے نہیں بلکہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔

اس کی دو اہم وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ دنیا کو یہ بتانا کہ یمن جیسا غریب ملک ڈرون کی اس بہترین صلاحیت سے محروم ہے اور اتنی دور سے اتنا کامیاب حملہ نہیں کیا جاسکتا، تاہم وہ یمن کی انصار اللہ اور مسلح افواج کی صلاحیت کا اعتراف کرنے سے کترا رہے تھے۔ اس حملہ کو حزب اللہ لبنان سے منسلک کرنے کا دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ گزشتہ چند ماہ سے غاصب اسرائیلی دشمن لبنان کو دھمکیاں دیتا آیا ہے کہ لبنان کے خلاف بڑی جنگ کا آغازکرے گا لیکن تمام ترکوشش کے باوجود ابھی تک ناکام ہے، کیونکہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کا مطلب امریکا اور اسرائیل کے لیے بڑے نقصانات کا سامنا ہوگا۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اس ڈرون حملہ کا جواز بنا کر عالمی برادری کے سامنے خود کو مظلوم بنانے کی کوشش کرنا چاہتی تھی اور حزب اللہ کے ساتھ بڑی جنگ کے آغاز میں جانا چاہتی تھی، تاہم زمینی حقائق نے غاصب اسرائیلی دشمن کے تمام تر جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول دی اور پوری دنیا نے یہ بات اچھی طرح جان لی کہ دو ہزار پانچ سو کلومیٹر سفرکر کے آنے والا ڈرون یمن کی انصار اللہ نے بھیجا تھا جس کا بعد میں یمن کی مسلح افواج کے ترجمان جنرل یحییٰ سریع نے اعلان بھی کیا۔

بہرحال یمن کے اس ڈرون نے کہ جس کا نام بھی '' یافا ڈرون '' رکھا گیا تھا غاصب صیہونی دشمن کی نیند حرام کردی ہے۔ فلسطین پر قابض صیہونی دشمن کی ایجنسیوں اور خفیہ اداروں میں ایک اور دراڑ پیدا کردی ہے کہ جہاں اب بحث چھڑچکی ہے کہ جب سیکڑوں کلومیٹر دور سے ایک ڈرون آ کر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے تو پھر اسرائیل کا آئرن ڈوم نامی دفاعی نظام کس کام کا ہے۔ حقیقت میں یمن کے ڈرون نے غاصب صیہونی حکومت کے دفاعی نظام اور صلاحیتوں پر سوال اٹھا دیا ہے۔ یعنی ایک تو انٹیلی جنس ناکامی ہے اور ساتھ ساتھ دفاعی نظام کی ناکامی بھی آشکار ہوچکی ہے۔

تل ابیب پر یمن کے ڈرون کے کامیاب حملہ سے ایک اور اہم نقطہ جو پیدا ہوا ہے وہ امریکی حکومت کو پیغام دیا گیا ہے۔ امریکی حکومت جو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں براہ راست غاصب صیہونی حکومت کی مدد اور سرپرستی کررہی ہے۔ امریکی حکومت کو یمن نے پیغام دیا ہے کہ اگر غزہ میں جارحیت کا خاتمہ یقینی نہ بنایا گیا تو پھر تل ابیب میں اگر امریکی سفارتخانے سے ایک سو میٹرکے فاصلے پر اہداف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو خطے میں موجود امریکی اہداف بھی ہمارے نشانے پر ہیں۔


تیسری اہم بات جو یافا ڈرون کی کامیاب کارروائی سے سامنے آئی ہے وہ خود غاصب صیہونی حکومت کے اندر بسنے والے صیہونی آباد کاروں سے متعلق ہے۔ صیہونی آباد کار جو اب تک تل ابیب کو ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھتے آئے ہیں، یمن کے ڈرون حملہ کے بعد تمام صیہونی آباد کاروں میں ایک بے چینی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ فلسطین پر قابض صیہونی آبادکاروں کے درمیان سوشل میڈیا پر یہ بحث شدت اختیارکرتی چلی جا رہی ہے کہ تل ابیب اب محفوظ مقام نہیں ہے۔ یہی بات یمن کے انصار اللہ اور مسلح افواج نے بھی بیان کی ہے کہ تل ابیب محفوظ نہیں ہے اور تمام اہداف یمن کی انصار اللہ کے نشانے پر ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یمن کی مسلح افواج کے ترجمان نے ڈرون حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ یمن کا یافا ڈرون ایسی صلاحیت رکھتا ہے کہ جدید سے جدید راڈار سسٹم کو چکمہ دے سکتا ہے اور اس کا ایک عملی نمونہ تل ابیب پر یافا ڈرون کی کامیاب کارروائی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

چوتھی اہم بات یہ ہے کہ یمن کے ڈرون نے یہ بات ثابت کی ہے کہ غزہ میں نسل کشی کا انتقام لینے کے لیے مسافت معنی نہیں رکھتی بلکہ دو ہزار پانچ سو کلومیٹر دور سے بھی غزہ کے معصوم انسانوں کے قتل کا انتقام لیا جا سکتا ہے۔ اس کامیاب کارروائی نے جہاں دشمن کے کئی ایک کمزور نقاط کو اجاگرکیا ہے وہاں ساتھ ساتھ خطے میں موجود حکومتوں کے لیے بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وہ حکومتیں کہ جن کے پاس وسائل اور ذخائر موجود ہیں، جن کے پاس فوجی قوت بھی موجود ہے۔ یہ حکومتیں مسافت کے اعتبار سے بھی فلسطین سے نزدیک ہیں اور موثرکردار ادا کرسکتی ہیں لیکن نہیں کر رہی ہیں، ایسی تمام حکومتوں کے لیے سوال اٹھا دیا ہے کہ جب دو ہزار پانچ سو کلومیٹر دوری سے غزہ کی نسل کشی کا انتقام لیا جاسکتا ہے تو پھر نزدیک رہنے والی یہ حکومتیں کیوں خاموش ہیں؟

یمن کی انصار اللہ کا یہ کامیاب ڈرون حملہ اس اعتبار سے بھی کامیابی رکھتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کا وزیر اعظم نیتن یاہو رفح کا دورہ کرکے اپنی فتح کا اعلان کرنا چاہتا تھا، عین اسی وقت فلسطین کے قلب یعنی مقبوضہ یافا میں اہداف کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دیا گیا کہ جنگ کے فاتح غاصب صیہونی نہیں بلکہ مظلوم فلسطینی ہیں۔

یمن کے اس کامیاب ڈرون حملے کا وقت اس قدر مناسب تھا کہ جب ایک طرف غاصب صیہونی حکومت غزہ اور رفح میں بھوک کو ہتھیار بنا کر غزہ کو زیرکرنا چاہتی ہے، تاہم یمن کے انصار اللہ نے یافا پرکامیاب کارروائی سے جنگ کے قوانین کو تبدیل کردیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے ایک ایسا راستہ اختیارکر لیا ہے جس میں ہر طرف غاصب صیہونیوں کے لیے شکست ہی شکست ہے اور رفتہ رفتہ یا تیزی سے غاصب صیہونی حکومت ڈوب رہی ہے۔
Load Next Story