امریکا کا الیکشن 2024
ستائیس جون کی شام دونوں صدارتی امیدوار بزرگ حضرات ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے
امریکا میں انتخابی جشن کا پنڈال سجنے کے قریب ہے کہ اچانک ایک فیصلہ سامنے آتا ہے اور لوگ تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکیاسی سالہ صدر جوبائیڈن اپنے عہدے سے پیچھے ہٹتے نظر آتے ہیں اور پھر انھوں نے باقاعدہ ڈیموکریٹ پارٹی کی نائب صدر کملا ہیرس کو مقابلے کے لیے لا کھڑا کیا۔ کملا ہیرس کی والدہ ہندو اور والد عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس سے پہلے اکیاسی سالہ جوبائیڈن اور 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے، یوں امریکا پہ بوڑھوں کی حکمرانی کا چانس دونوں صورتوں میں برقرار ہے۔ آخر ایسا کیا ہے جو امریکا میں پرانے منجھے ہوئے سیاستدان جو ہر لحاظ کے ساتھ عمر میں بھی خاصے پختہ ہیں جم کر سینہ تان کر میدان میں اترتے ہیں۔ کیا واقعی امریکا میں بوڑھوں کا اس قدر احترام کیا جا رہا ہے جو اعلیٰ صدارت کی کرسی کے لیے کوئی جوان یا ادھیڑ عمر بھی حوصلہ نہیں کر پا رہا۔ بارک اوباما کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور پھر جوبائیڈن نے ایسا کیا کر دکھایا جو امریکی عوام اپنی آخری عمرگزارنے والے امیدواران کو بااعتماد سمجھتے ہوئے ان کا خیر مقدم کر رہی ہے۔
ایسا چلتا ہی رہتا اور مستقبل میں ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان جیت ہار کا کھیل جم کر چلتا، لیکن جوبائیڈن کو اچانک بخار نے آ گھیرا، یہ کوئی عام سا بخار نہ تھا اور پھر نتائج ابھرتے گئے بیماری نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا، الیکشن کی کمپین میں بھاگ دوڑ اور بخار یہ اکیاسی سالہ بزرگ کے بس کی بات نہ تھی اور سنا گیا کہ انھیں کورونا نے آ گھیرا ہے یہ ایک بھیانک انکشاف تھا۔ اس سے پہلے ہی جوبائیڈن نے اپنے کمزور پڑتے وجود میں تلاش کر ہی لیا تھا کہ اب کی بار وہ جم کر نہیں کھیل سکتے گو اس سے پہلے ان کے دعوے بلند و بانگ تھے پر انھیں ہار ماننا پڑی اورگرتے گرتے انھوں نے کملا ہیرس کا ہاتھ تھام لیا۔
اگر ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے دورانیے کی بات کریں تو انھوں نے اس وقت جو مذہب کارڈ کھیلا تھا وہ امریکی عوام کو جھانسے میں لے آیا تھا لیکن بار بار چیٹنگ نہیں چلتی، لہٰذا دوسری بار وہ بھی منہ کے بل گر پڑے تھے لیکن اب وہ پھر سے کمرکس کر میدان میں اتر رہے ہیں، اس بار ان کے ہاتھ میں کارڈز ذرا مختلف ہیں۔ مثلاً ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اسکولوں میں اس قسم کی سرگرمیاں، تعلیم معطل کردیں گے جس سے نوجوانوں میں غلط قسم کی حرکات پیدا ہو رہی ہیں، اب ان حرکتوں کا ذکرکیا کرنا کہ اس کے اثرات تو دور دور سے قریب قریب آگئے ہیں۔ اب اس کا تعلق درس گاہوں سے ہے، کلبوں سے ہے یا سوشل میڈیا اس کا مجرم ہے۔ ایک بات طے ہے کہ دادا، نانا کی عمروں سے بھی آگے کے دونوں حضرات نے ہی اپنے اپنے دور حکومت میں ایک بھی ایسا قابل ذکر کام نہ کیا کہ جس کے لیے ان بوڑھوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دیتی۔
ستائیس جون کی شام دونوں صدارتی امیدوار بزرگ حضرات ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ جوبائیڈن کچھ مضمحل اور ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے، انھوں نے وہ باتیں جو اس سے پہلے انھوں نے بڑے جوش و خروش سے کی تھیں اب کچا پکا بس بھگار رہے تھے۔ ان کی آواز بھی بجھی اور زکام زدہ سی تھی، حیرت کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاز بھر بھر دوائیاں پہنچانے والے دو صحت بخش، بخارکش ٹکیاں نہ دے سکے کہ ایک طے شدہ دن کو اتنے بڑے ملک کا بوڑھا ہی سہی صدارتی امیدوار فٹ نہ کرسکے، اس سلسلے میں ان کا ایک بیان بڑا دلچسپ ہے۔
'' اگر خدا خود نیچے (زمین پر) آئے اور کہے کہ اس دوڑ سے باہر ہو جاؤ، تو ہی میں دوڑ سے باہر ہوں گا اور خدا یہ کہنے نیچے نہیں آیا۔''
مطلب موصوف نے خود کو ایسا اعلیٰ درجے کا انسان سمجھ رکھا تھا کہ انھیں سوائے خدا کے اورکوئی اس دوڑ سے باہر نہیں کر سکتا، ظاہر ہے کہ جو خدا انھیں عین سامنے کے وقت ہچکچاہٹ و اضطراب میں مبتلا کر سکتا ہے اورکیا کچھ نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کے نیتن یاہو کے ساتھ ہاتھ ملاتے، معصوم و مظلوم فلسطینیوں کے کھلے عام قتل و غارت گری پر مسکراتے یہودیوں کو ''اوکے'' کہتے انھیں کچھ محسوس نہیں ہوا تھا۔ عمر کے اس دور میں جب انسان صرف اچھے کام کر کے خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایسے میں صدارتی کرسی کے حریف جوبائیڈن نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کا کیا خیال ہے کہ اس ہولناکی اور بربادی انسانیت کے لیے آج کا پڑھا لکھا، باشعور اور انسانیت کا علم بردار ایک اکیاسی سالہ بوڑھے کو معاف کر سکتا۔ آج ہی کیا، مستقبل میں بھی ان کا نام کس طرح یاد رکھا جائے گا وہ ساری ہمدردی جو انھوں نے اپنے جواں سال بیٹے کو ہمیشہ کے لیے کھو کر حاصل کی تھی۔ ان بے شمار والدین کے دلوں سے ان کا سکھ چین، آنکھوں کا نور چھیننے پر انھیں معاف کرنے پر مجبورکر سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کی عمروں میں لگ بھگ چار برسوں کا ہی فرق ہے لیکن اب جب کہ ایک بزرگ امیدوار نے جوان امیدوارکے لیے جگہ خالی کر دی ہے مقابلہ اب بھی بظاہر ٹرمپ کی جانب جھکتا نظر آرہا ہے۔ ویسے تو ٹرمپ کو لفظوں کی سحرگری خوب آتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ 78 اور 55 سالہ حضرت و خاتون کے درمیان کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہیں، سیاست ان کا شوق ہے، ان کا شوق تو اداکاری بھی تھی، ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب انتخابی ریلی میں فائرنگ ہوئی اور تاک کر ایسا نشانہ لگا جو خطا ہوگیا اور کان ہی گولی زدہ ہوا، وہ بھی شاید ایک شاندار فلم کے سین کی مانند تھا کہ ایک نہایت ایمان دار عوام کی محبت میں چور چور بوڑھا ہیرو چیخ چیخ کر تقریرکر رہا ہے کہ اچانک اور کٹ کی آواز کے ساتھ ایک بیس سالہ نوجوان اپنی زندگی سے گیا۔
خدا جانے وہاں کیا کچھ ہوا، بھئی ہمارے ہاں تو ایسا ہی کئی بار ہوا ہے، لہٰذا ہم تو ایسے مناظرکے عادی ہیں، بہرحال ہمیں کیا امریکا میں کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے۔ ہم تو اپنی ہی فلم میں مست ہیں۔ کئی بار تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے عوام ایک ہی جیسی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے تماشائی بن جاتے ہیں ۔ بے چارے عوام۔۔۔۔ بہرحال سوال اب بھی برقرار ہے کہ امریکا میں بوڑھوں کی حکمرانی کو کیوں پسند کیا جا رہا ہے، کیا امریکی قوم واقعی اتنی قدامت پسند ہے اور اپنے بزرگ شہریوں کا بہت ادب کرتی ہے؟
اس سے پہلے اکیاسی سالہ جوبائیڈن اور 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کے مدمقابل تھے، یوں امریکا پہ بوڑھوں کی حکمرانی کا چانس دونوں صورتوں میں برقرار ہے۔ آخر ایسا کیا ہے جو امریکا میں پرانے منجھے ہوئے سیاستدان جو ہر لحاظ کے ساتھ عمر میں بھی خاصے پختہ ہیں جم کر سینہ تان کر میدان میں اترتے ہیں۔ کیا واقعی امریکا میں بوڑھوں کا اس قدر احترام کیا جا رہا ہے جو اعلیٰ صدارت کی کرسی کے لیے کوئی جوان یا ادھیڑ عمر بھی حوصلہ نہیں کر پا رہا۔ بارک اوباما کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اور پھر جوبائیڈن نے ایسا کیا کر دکھایا جو امریکی عوام اپنی آخری عمرگزارنے والے امیدواران کو بااعتماد سمجھتے ہوئے ان کا خیر مقدم کر رہی ہے۔
ایسا چلتا ہی رہتا اور مستقبل میں ٹرمپ اور جوبائیڈن کے درمیان جیت ہار کا کھیل جم کر چلتا، لیکن جوبائیڈن کو اچانک بخار نے آ گھیرا، یہ کوئی عام سا بخار نہ تھا اور پھر نتائج ابھرتے گئے بیماری نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا، الیکشن کی کمپین میں بھاگ دوڑ اور بخار یہ اکیاسی سالہ بزرگ کے بس کی بات نہ تھی اور سنا گیا کہ انھیں کورونا نے آ گھیرا ہے یہ ایک بھیانک انکشاف تھا۔ اس سے پہلے ہی جوبائیڈن نے اپنے کمزور پڑتے وجود میں تلاش کر ہی لیا تھا کہ اب کی بار وہ جم کر نہیں کھیل سکتے گو اس سے پہلے ان کے دعوے بلند و بانگ تھے پر انھیں ہار ماننا پڑی اورگرتے گرتے انھوں نے کملا ہیرس کا ہاتھ تھام لیا۔
اگر ہم ڈونلڈ ٹرمپ کے دورانیے کی بات کریں تو انھوں نے اس وقت جو مذہب کارڈ کھیلا تھا وہ امریکی عوام کو جھانسے میں لے آیا تھا لیکن بار بار چیٹنگ نہیں چلتی، لہٰذا دوسری بار وہ بھی منہ کے بل گر پڑے تھے لیکن اب وہ پھر سے کمرکس کر میدان میں اتر رہے ہیں، اس بار ان کے ہاتھ میں کارڈز ذرا مختلف ہیں۔ مثلاً ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اسکولوں میں اس قسم کی سرگرمیاں، تعلیم معطل کردیں گے جس سے نوجوانوں میں غلط قسم کی حرکات پیدا ہو رہی ہیں، اب ان حرکتوں کا ذکرکیا کرنا کہ اس کے اثرات تو دور دور سے قریب قریب آگئے ہیں۔ اب اس کا تعلق درس گاہوں سے ہے، کلبوں سے ہے یا سوشل میڈیا اس کا مجرم ہے۔ ایک بات طے ہے کہ دادا، نانا کی عمروں سے بھی آگے کے دونوں حضرات نے ہی اپنے اپنے دور حکومت میں ایک بھی ایسا قابل ذکر کام نہ کیا کہ جس کے لیے ان بوڑھوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دیتی۔
ستائیس جون کی شام دونوں صدارتی امیدوار بزرگ حضرات ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ جوبائیڈن کچھ مضمحل اور ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے، انھوں نے وہ باتیں جو اس سے پہلے انھوں نے بڑے جوش و خروش سے کی تھیں اب کچا پکا بس بھگار رہے تھے۔ ان کی آواز بھی بجھی اور زکام زدہ سی تھی، حیرت کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاز بھر بھر دوائیاں پہنچانے والے دو صحت بخش، بخارکش ٹکیاں نہ دے سکے کہ ایک طے شدہ دن کو اتنے بڑے ملک کا بوڑھا ہی سہی صدارتی امیدوار فٹ نہ کرسکے، اس سلسلے میں ان کا ایک بیان بڑا دلچسپ ہے۔
'' اگر خدا خود نیچے (زمین پر) آئے اور کہے کہ اس دوڑ سے باہر ہو جاؤ، تو ہی میں دوڑ سے باہر ہوں گا اور خدا یہ کہنے نیچے نہیں آیا۔''
مطلب موصوف نے خود کو ایسا اعلیٰ درجے کا انسان سمجھ رکھا تھا کہ انھیں سوائے خدا کے اورکوئی اس دوڑ سے باہر نہیں کر سکتا، ظاہر ہے کہ جو خدا انھیں عین سامنے کے وقت ہچکچاہٹ و اضطراب میں مبتلا کر سکتا ہے اورکیا کچھ نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کے نیتن یاہو کے ساتھ ہاتھ ملاتے، معصوم و مظلوم فلسطینیوں کے کھلے عام قتل و غارت گری پر مسکراتے یہودیوں کو ''اوکے'' کہتے انھیں کچھ محسوس نہیں ہوا تھا۔ عمر کے اس دور میں جب انسان صرف اچھے کام کر کے خدا کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایسے میں صدارتی کرسی کے حریف جوبائیڈن نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کا کیا خیال ہے کہ اس ہولناکی اور بربادی انسانیت کے لیے آج کا پڑھا لکھا، باشعور اور انسانیت کا علم بردار ایک اکیاسی سالہ بوڑھے کو معاف کر سکتا۔ آج ہی کیا، مستقبل میں بھی ان کا نام کس طرح یاد رکھا جائے گا وہ ساری ہمدردی جو انھوں نے اپنے جواں سال بیٹے کو ہمیشہ کے لیے کھو کر حاصل کی تھی۔ ان بے شمار والدین کے دلوں سے ان کا سکھ چین، آنکھوں کا نور چھیننے پر انھیں معاف کرنے پر مجبورکر سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کی عمروں میں لگ بھگ چار برسوں کا ہی فرق ہے لیکن اب جب کہ ایک بزرگ امیدوار نے جوان امیدوارکے لیے جگہ خالی کر دی ہے مقابلہ اب بھی بظاہر ٹرمپ کی جانب جھکتا نظر آرہا ہے۔ ویسے تو ٹرمپ کو لفظوں کی سحرگری خوب آتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ 78 اور 55 سالہ حضرت و خاتون کے درمیان کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہیں، سیاست ان کا شوق ہے، ان کا شوق تو اداکاری بھی تھی، ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب انتخابی ریلی میں فائرنگ ہوئی اور تاک کر ایسا نشانہ لگا جو خطا ہوگیا اور کان ہی گولی زدہ ہوا، وہ بھی شاید ایک شاندار فلم کے سین کی مانند تھا کہ ایک نہایت ایمان دار عوام کی محبت میں چور چور بوڑھا ہیرو چیخ چیخ کر تقریرکر رہا ہے کہ اچانک اور کٹ کی آواز کے ساتھ ایک بیس سالہ نوجوان اپنی زندگی سے گیا۔
خدا جانے وہاں کیا کچھ ہوا، بھئی ہمارے ہاں تو ایسا ہی کئی بار ہوا ہے، لہٰذا ہم تو ایسے مناظرکے عادی ہیں، بہرحال ہمیں کیا امریکا میں کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے۔ ہم تو اپنی ہی فلم میں مست ہیں۔ کئی بار تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے عوام ایک ہی جیسی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے تماشائی بن جاتے ہیں ۔ بے چارے عوام۔۔۔۔ بہرحال سوال اب بھی برقرار ہے کہ امریکا میں بوڑھوں کی حکمرانی کو کیوں پسند کیا جا رہا ہے، کیا امریکی قوم واقعی اتنی قدامت پسند ہے اور اپنے بزرگ شہریوں کا بہت ادب کرتی ہے؟