بنوں

منگولیا اور وسط ایشیاء سے جن لشکروں کی جنوبی ایشیاء کے مختلف رجواڑا سے مڈبھیڑ ہوئی

Jvqazi@gmail.com

ڈیورنڈ لائن، جو سرحدی لائن ہے، جہاں 1890 کی دہائی میں افغانستان کی حکومت سے ہندوستان کی انگریز حکومت نے معاہدہ کیا کہ شمالی مغربی ہند کے جو علاقے رنجیت سنگھ دور تک لاہور دربار کے زیر کنٹرول ہیں، وہاں تک ہندوستان کی ریاست ہے اور آگے افغانستان ہے۔ یہ سرحدی لکیرسر ہنری موٹیمرڈیورنڈ نے کھنچوائی تھی۔ پہاڑوں کے بیچ، کبھی راستے ادھر نکل جاتے توکبھی راستہ ادھر۔ درے، پگڈنڈیاں، تنگ گھاٹیاں ہیں، کتنا مشکل تھا اس سرحدی لکیرکوکھنچوانا۔

سرڈیورنڈ نے اپنے گھوڑے پر چڑھ کر خود نگہبانی کی اور اس سرحدی لکیرکوکھنچوایا، اس دوران گھوڑے سے گرے، زخمی ہوئے اور آخرِکار ان زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کرگئے۔ انگریز نے اس علاقے کو نارتھ ویسٹ فرنٹیئر پراوینس یعنی شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام دے دیا۔ انگریز سرکار نے افغانستان میں کئی جنگیں لڑیں۔ ان راستوں کے ذریعے کیا کیا معرکے نہ ہوئے۔

منگولیا اور وسط ایشیاء سے جن لشکروں کی جنوبی ایشیاء کے مختلف رجواڑا سے مڈبھیڑ ہوئی ، وہ افغانستان کو تاراج کرتے ہوئے درہ خیبر کے راستے پشاور فتح کرکے دریا سندھ تک پہنچتے ۔ یہاں سے لاہور کو تاراج کیا جاتا اور پانی پت میں دہلی دربار کی فوج سے حتمی جنگ ہوتی ۔ ان تمام جنگوں میں حملہ آور فوجوں کو جنوبی اشیاء کے کئی مقامی حکمرانوں کی مدد حاصل ہوا کرتی تھی۔

افغانستان ایران سے بھی جڑا ہوا تھا، اس بڑے حصے کا نام خراسان تھا۔ یہی وہ راستے ہیں جہاں سے منگول اور تاتاری فوجیوں کے لشکر نے ہلاکو خان کی سربراہی میں مسلمانوں کی عظیم تہذیب کے مرکز اور دارالخلافہ بغداد کو مسمارکیا۔ بغداد کی عظیم لائبریری کو نذرِ آتش کیا۔ دجلہ اور فرات کے دریا خون سے بھرگئے۔ بنوعباس کی سلطنت کا سقوط ہوا۔ یہی وہ راستے تھے جہاں غزنوی، غوری، تغلق آئے،کچھ تو سومنات کا مندر لوٹ کر چلے گئے۔


افغانستان کو فتح کرکے درہ خیبر کے سے ترک و مغل ہندوستان میں داخل ہوئے، پانی پت کے میدان میں آمنے سامنے ہوئے اور جس کی جیت ہوئی دلی کا تخت اسی نے پایا۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ لشکر چاہیے ترکوں و مغلوں کا ہو، غزنوی یا غوری کا ہو، انھیں منقسم ، منتشر اور باہم دست و گریباں ہندوستان ملا ۔ جنوبی ایشاء میں نسلی، مذہبی اور طبقاتی نفرت ہمیشہ سے موجود چلی آرہی ہے۔

انگریزکو یہ بات سمجھ آگئی، ہندوستان کے شمال او مغرب میں سخت دفاع انتظامات اور فوج کی ضرورت ہے۔ اسی لیے پورے ہندوستان کی فوج کا جنرل ہیڈکوارٹر راول پنڈی کو بنایا گیا،کیونکہ باقی سرحدوں سے خطرہ کم تھا۔ پھر روس میں انقلاب آیا، افغانستان کی سرحدوں پرکمیونسٹ کا غلبہ ہونے لگا۔ یہ تنازعہ افغانستان کو سرد جنگ کے آخری روانڈ کا میدان بن گیا۔ ہم بنے، فرنٹ لائن اسٹیٹ جنھوں نے سوویت یونین اور کمیونزم کو ڈیورنڈ لائن سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اسی لیے ایٹم بم ہمارا اثاثہ بھی تھا لائیبلٹی بھی۔ ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ہم سے یہ تقاضہ کر رہا تھا کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہوں اور ایک ذمے دار ریاست کی ساکھ قائم رکھیں لیکن پاکستان کی حکمران لابی سرد جنگ کی نفسیات میں پھنس گئی ۔ ہماری افغان پالیسی ایک سرطان کی طرح ہمارے وجود سے چمٹ چکی ہے۔ کچھ کا یہ کاروبار بن گیا ہے ، ڈیورنڈ لائن سے آنا اور جانا بغیر پاسپورٹ کے،کھلے عام اسمگلنگ،کوئی رکاوٹ نہیں۔

قیام پاکستان کے بعد فاٹا یا علاقہ غیر کو قانون سے آزاد کردیا گیا۔ انگریز حکومت نے ان علاقوں میں جو رٹ قائم کی تھی ، قیام پاکستان کے بعد وہ کمزور ہونا شروع ہوئی ۔ کہنے کو ایف سی آر موجود تھا لیکن اس پر عمل درآمد بند ہوگیا تھا۔فاٹا سیکریٹریٹ مرکز سے وصول ہونے والے فنڈز اور امداد ہڑپ کرنے والوں کا اڈا بن گیا ۔ اربوں روپے کے فنڈز کہاں گئے ، سب کو پتہ ہے ۔ وہاں عام لوگ انتہائی غریب ہیں، ان کی ذہن سازی کی گئی ہے کہ ان کی غربت کا ذمے دار پاکستان ہے۔

جناح صاحب سے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں چھاؤنیاں ختم کرکے جس نفیسات کو جنم دیا، وہ ستتر سال بعد پوری آب تاب کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ اب جب ہم نے ان کو قانون کے تابع کرنے کی کوشش کی تو معاملات سنگین ہوگئے۔بنوں کا واقعہ بھی اسی پسِ منظرکا عکس ہے، جب چمن بارڈرکو بندکیا گیا ہے۔ ایرانی سرحد پر کنٹرول سخت کیا گیا،تو اسمگلنگ کا کاروبار رک گیا ہے، اربوں روپے کا کالا دھن برباد ہونا شروع ہوگیا، بلیک اکانومی پر قابض وائٹ کالرز کریمنلز کے لیے سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ بلیک اکانونی نے سسٹم میں موجود اپنے لوگوں کو حرکت دی، سیاست کو متحرک کیا،دہشت گردوں اور کرائمز مافیا کو حرکت میں لایا گیا۔اس تمام پسِ منظر میں ہماری داخلی سیاست بھی کارفرما ہے۔

یقینا اس مشکل گھڑی سے پاکستان نکل جائے گا، لیکن ضروری ہے کہ ہمارے تمام ادارے عدلیہ، پارلیمان اور فوج ایک صفحے پر ہوں۔
Load Next Story