اشوک کا نوحہ اور فلسطین کا گریہ

یہ ایک ایسا المیہ ہے جوکہ جنگ کے بعد کسی بھی متاثرہ علاقے میں پھیل جاتا ہے

zahedahina@gmail.com

یہ دنیا کی ریت ہے کہ ہر لڑائی اور جنگ کے بعد صلح کی میز بچھتی ہے۔ غزہ کے غم خواروں کے لیے یہ کسی حد تک سکون کی خبر تھی کہ بیجنگ میں چین نے تمام متحارب گروہوں کو ایک میز پر بٹھایا ہے۔کہا جاتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے تصادم کے نتیجے میں 9 مہینے کے درمیان 39 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔ مئی کے مہینے میں اسرائیل نے یہ بات ایک اندازے کے مطابق بتائی کہ 16 ہزار شہری اور 14 ہزار لڑاکے مارے گئے ہیں۔ اسی مہینے میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ 13 ہزار عورتیں اور بچے قتل ہوئے جب کہ 10 ہزار مرد ہلاک ہوئے اسی زمانے میں 10 ہزار عام شہری بھی مارے گئے۔

دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جنگ زدہ خطے میں قحط کے خدشے کا اظہار کیا۔ امریکی کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجی ذرایع کے مطابق جنوری سے اپریل کے درمیان 40 ہزار امدادی ٹرک آفت زدہ علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔ ادھر آکسفام امریکا کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پال اسکاٹ کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں ہونے والی لوٹ مار اور امداد کی تقسیم میں بدانتظامی کی بنا پر بہت سے لوگ قحط جیسی صورت حال کا شکار ہو رہے ہیں۔

یہ ایک ایسا المیہ ہے جوکہ جنگ کے بعد کسی بھی متاثرہ علاقے میں پھیل جاتا ہے۔ یہ تمام دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ غزہ میں پیدا ہونے والی صورت حال دوسری جگہوں سے مختلف نہیں ہے۔ جس وقت اسرائیلی وزیر اعظم اپنی دبنگ تقریر میں اپنی حکومت کو ہر بات سے بری الذمہ قرار دے رہے تھے، اسی وقت ہزاروں امریکی شہری ان کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور جس میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ ''تم قاتل ہو'' کانگریس کے بہت اہم اراکین ان کی تقریر سننے کے لیے نہیں آئے اور اس طرح انھوں نے اسرائیلی اقدامات پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

بہت اہم ڈیموکریٹ نمایندوں نے اس تقریب میں نہ آنے سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان میں الیگزینڈریا، اوکاسیوکورٹیز، ایمی بیرا، جیوکوئن کاسٹرو بھی تھے اور ایک ری پبلکن ممبر تھامس میسی بھی غیر حاضر رہے۔ اس تقریر کا پوری دنیا میں بہت چرچا ہے۔ ایسے موقع پر مگدھ (بہار) کے موریہ خاندان کا تیسرا بادشاہ اشوک یاد آجاتا ہے۔

''بندوبسار کا یہ بیٹا اور چندر گپت موریا کا پوتا 273 ق م میں برسر اقتدار آیا۔ اپنے دادا چندر گپت موریا اور باپ بندوبسار نے اس کے لیے ایک عظیم سلطنت چھوڑی تھی۔ وہ اپنا وقت عیش اور شکار میں گزارتا تھا۔ تاج شاہی سر پر سجانے کے آٹھ برس بعد وہ اپنے عظیم لشکر کے ساتھ پڑوس کی طاقتور اور دولت مند ریاست کالنگا (جنوبی اڑیسہ) پر حملہ آور ہوا، اور اسے تہس نہس کر دیا۔

یہ اس کا پہلا حملہ اور پہلی فتح تھی۔ کہا جاتا ہے کہ طاقت کے نشے میں سرشار اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگاہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے۔ بہت سے نیم مردہ تھے۔ کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے۔ قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھونڈتی تھیں اور آہ و بکا کرتی تھیں۔ کالنگا کے میدان میں اس نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس کے ساتھ چلنے والا شاہی دستہ بھی گھوڑوں سے اتر گیا۔ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا۔ اس کا گریہ تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔

یہ میں نے کیا کردیا؟ اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں؟

یہ فتح ہے یا شکست؟


یہ انصاف ہے یا ناانصافی؟

یہ شجاعت ہے یا بزدلی؟

کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے؟

کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غور کرنے کے لیے؟

کسی نے اپنا شوہر کھو دیا، کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ۔ اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبار کیا ہیں؟

یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے؟

اشوک کا یہ نوحہ اور کالنگا کے میدان سے لوٹ کر آنے کے بعد اس کے لکھوائے گئے وہ فرامین جو پتھروں پر کندہ کیے گئے اور اشوک کی وسیع و عریض سلطنت کی حدوں کے اندر نصب کیے گئے، انھیں پڑھیے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم عدم تشدد پر راسخ یقین رکھنے والے ایک ایسے امن پسند اور انسان پرست فلسفی کے خیالات سے ملاقات کر رہے ہیں جو رواداری کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ وہ بدھ مت اختیار کر چکا تھا لیکن دوسرے تمام مذاہب کا اور اپنی رعایا کی مذہبی روایات اور ثقافت کا احترام لازمی سمجھتا تھا۔

کالنگا کی فتح کے بعد اشوک اعظم نے کبھی گوشت نہیں چکھا، کسی فوجی مہم پر نہیں گیا۔ اس کے سپاہیوں کی تلواروں کو زنگ لگتا رہا اور اس کی سلطنت میں چوکڑیاں بھرتے ہوئے جانوروں اور اڑتے ہوئے پرندوں کو بھی جان کی امان ملی۔

جی چاہتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اشوک اعظم کا یہ گریہ پڑھا ہوتا اور ان کے دل پر بھی اس گریے کا کوئی اثر ہوتا۔
Load Next Story