مائیکل فیلپس اور یوسین بولٹ ریکارڈز میں نمایاں
2024 پیرس سمر اولمپکس میں ایتھلیٹس کے لیے کئی ریکارڈز چیلنج بنے ہوئے ہیں
اولمپکس گیمز میں امریکی سوئمر مائیکل فیلپس اور جمیکن اسپرنٹر یوسین بولٹ ریکارڈز میں نمایاں ہیں، ریکارڈز بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں اور 2024 پیرس سمر اولمپکس میں ایتھلیٹس کے لیے کئی ریکارڈز چیلنج بنے ہوئے ہیں ، ان میں سے بہت سے ریکارڈز ٹوٹ بھی سکتے ہیں ، نئے ایتھلیٹس تاریخ رقم کرپائیں گے۔
سردست امریکی سوئمر مائیکل فیلپس 23 گولڈ میڈلز سمیت 28 تمغے جیت کر اولمپکس کی تاریخ کے کامیاب ترین ایتھلیٹ بنے ہوئے ہیں، مائیکل فیلپس نے 2016 کے ریو گیمز میں اپنے کیریئر کا 23 واں اولمپکس طلائی تمغہ جیتا تھا۔ امریکی کے غیرمعمولی تیراک نے 2008 کے بیجنگ گیمز میں سنگل اولمپک ریکارڈ 8 گولڈ نام کیے تھے، فیلپس نے اپنے اولمپک کیریئر میں 80 فیصد سے زیادہ ایونٹس جیتے ہیں۔ ان کے 28 تمغے اس سے بھی زیادہ ہیں۔کیریئر کے سب سے زیادہ تمغوں کا پچھلا ریکارڈ ہولڈر سابق سوویت یونین کی جمناسٹ لاریسا لیٹینینا کا تھا، جنھوں نے 1956 سے 1964 تک 18 تمغے (9 طلائی) جیتے تھے۔ فیلپس کا غلبہ بدستور بے مثال ہے۔
جمیکن اسپرنٹر یوسین بولٹ کے 100 میٹر میں کیریئر کے تین اولمپک طلائی تمغے اب تک کے سب سے زیادہ ہیں، ان کا 2012 کے لندن گیمز میں 9.63 سیکنڈز کا اولمپک ریکارڈ اب بھی دیگر ایتھلیٹس کیلئے چیلنج بنا ہوا ہے، بولٹ نے 2008 کے بیجنگ گیمز میں قائم کردہ 9.69 سیکنڈز کا اپنا سابقہ ریکارڈ وقت بہتر کیا۔ جمیکا کے اسپرنٹر نے 100 میٹر میں عالمی ریکارڈ بھی اپنے نام کیا، انھوں نے اسے برلن میں 2009 کی ورلڈ چیمپئن شپ میں 9.58 سیکنڈ میں مکمل کیا، بولٹ اولمپک کی تاریخ میں سرفہرست 2 بار اور 100 میٹر ڈیش میں عالمی ریکارڈ کے مالک ہیں، وہ 200 میٹر ڈیش کے اولمپک اور عالمی ریکارڈ کے بھی مالک ہیں۔
رومانیہ کی جمناسٹ نادیہ کومانیکی 5 بار اولمپک طلائی تمغے جیت چکی ہیں،بین الاقوامی جمناسٹکس فیڈریشن نے 2006 میں اپنے 10 پر مبنی اسکورنگ سسٹم کو تبدیل کیا جس سے پرفیکٹ 10 کے امکان کو ختم کر دیا گیا،امریکی جمناسٹ میری لو ریٹن نے 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں فلور ایکسرسائز اور والٹ پر پرفیکٹ 10 ریکارڈ کیے، کومانیکی ہمیشہ پہلے نمبر پر رہیں گی۔
جنوبی کوریا کی کم یون می گولڈ جیتنے والی سب سے کم عمر ایتھلیٹ ہیں، 1994 کے للی ہیمر سرمائی اولمپکس میں جنوبی کوریا کی اسپیڈ اسکیٹر کم یون می نے خواتین کے 3,000 میٹر ریلے میں طلائی تمغہ جیتا، اس وقت وہ صرف 13 سال اور 86 دن کی تھیں۔ یون می تاریخ کی سب سے کم عمر اولمپک گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ انٹرنیشنل اسکیٹنگ یونین نے نوجوان کھلاڑیوں کی ترقی کے تحفظ کے لیے اس کی کم از کم کوالیفائنگ عمر کو بڑھا کر 15 کر دیا ہے۔
ٹیبل ٹینس نے 1988 کے سیول گیمز میں اولمپک میں قدم رکھا، چین نے اس عرصے کے دوران دستیاب 37 میں سے 32 طلائی تمغے جیت کر بالادستی قائم کررکھی ہے، ایونٹ میں چین کے قریب ترین حریف جنوبی کوریا نے تین گولڈ میڈل جیتے۔
امریکا نے 2016 کے ریو اولمپکس میں تاریخ رقم کی، 1896 میں شروع ہونے والے پہلے جدید اولمپکس کے بعد سے 1,000 طلائی تمغے جمع کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ 2024 کے پیرس گیمز میں 1,183 طلائی تمغے (2,985) کے ساتھ امریکا سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد سب سے قریب سوویت یونین اور روسی فیڈریشن کے پاس 473 گولڈ (1,204) ہیں۔ امریکیوں نے 1904 کے سینٹ لوئس اولمپکس میں 239 تمغے (78 طلائی، 82 چاندی اور 79 کانسی) حاصل کیے۔
776 قبل مسیح میں تماشائیوں نے یونان کے شہر اولمپیا میں ایک سادہ دوڑ کا مشاہدہ کیا تھا، اس طرح قدیم اولمپک کھیلوں کا آغاز ہوا، کلاسیکی کھیلوں کے مقابلے ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک جاری رہے، ان میں بحیرہ روم بھر سے ایتھلیٹس اور تماشائی شامل ہوتے تھے۔ پھر چند صدیوں میں اولمپکس ایک دوڑ سے کہیں زیادہ بڑھ گئے، مزید کھیل شامل ہوئے اور اولمپیا نے سخت قوانین اور ضوابط وضع کیے، ہر 4 برس بعد قدیم اولمپک کھیلوں کے ایتھلیٹس کو 10 تربیت یافتہ ججز کے ذریعے جانچا جاتا تھا اور وہ یونان کے جنوبی حصے کی شدید گرمی میں مقابلہ کرتے تھے۔ آج کے ایتھلیٹس کی طرح وہ بھی کشتی، بھالا پھینکنے، باکسنگ اور لانگ جمپنگ میں مقابلے کرتے تھے۔ البتہ، قدیم ایتھلیٹس گھوڑا گاڑیوں کی دوڑ میں بھی مقابلہ کرتے تھے۔ اگرچہ قدیم کھیلوں کا مرکزی مقصد کھیل تھا، مگر ان میں انصاف، امن، ترقی اور تعلیم کے فلسفے بھی شامل تھے جو موجودہ اولمپک دور کے اقدار ہیں۔
جدید اولمپک کھیلوں کا موجودہ سلسلہ 1896 میں ایتھنز میں شروع ہوا تھا، جس کا سہرا ایک فرانسیسی بارون پیئرڈی کوبرٹن کو جاتا ہے جنھوں نے کثیر القومی کھیلوں کے مقابلے کی قدر دیکھی۔
مشعل کی ریلے قدیم اولمپک کھیلوں کا حصہ نہیں تھی جبکہ آج اولمپک مشعل کی روشنی کھیلوں کی افتتاحی تقریب کا مرکز ہے، اسے گیمز سے چند ماہ قبل اولمپیا میں روایتی تقریب میں روشن کیا جاتا ہے، شعلے کو ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاتا ہے اور پھرگیمز سے قبل میزبان ملک پہنچادیا جاتا ہے ،اس بار پیرس اولمپکس گیمز میں بھی یہی ہوا۔n