بلوچ راجی مچی
سینیٹر عرفان صدیقی کی خبر ہے کہ کل تک گریباں پر ہاتھ ڈالنے والے اب پاؤں پر جھکے ہوئے ہیں
بلوچستان کے ذکر پر عبد المحسن شاہین نے ایک اصطلاح استعمال کی، ' بلوچ راجی مچی'۔ اس پرمیں چونکا اور سوال کیا کہ یہ بلوچ راجی مچی کیا ہے؟ پھر گویا دبستاں کھل گیا۔ بات یہ ہے کہ ان دنوں راولپنڈی میں جماعت اسلامی نے دھرنا دے رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے دور میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی تجدید نے جو ظلم ڈھایا ہے، اس کا خمیازہ قوم آج ایسے بھگت رہی ہے کہ بجلی کا بل ادا کرتے کرتے اس کی کمر دوہری ہو چکی ہے۔
جماعت اسلامی اسی عوامی مسئلے کی وجہ سے سڑکوں پر ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ لاہور سے جیسے ہی حافظ نعیم الرحمن کا قافلہ روانہ ہوا، حکومت نے انھیں انگیج کرلیا اور انھوںنے بھی اس کا ہاتھ جھٹکا نہیں۔ ایک آدھ دن میں فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔ دوسرے روز وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور ڈاکٹر طارق فضل چودہری دھرنے میں پہنچ گئے جہاں امیر جماعت اسلامی نے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا۔سنجیدہ اور جمہوری سیاسی رویے ایسے ہی ہوتے ہیں۔یہ واقعہ تقاضا کرتا ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ جناب سہیل وڑائچ نے اپنی اطلاع اورقومی زندگی کے مشاہدے کے زور پر بتایا ہے کہ ہمارے چند اہم اسٹیک ہولڈرز جس طرح مورچہ بند ہو کر مصروف پیکار ہیں، اس کا نتیجہ کتنا ہول ناک اور تباہ کن ہو گا۔
سینیٹر عرفان صدیقی کی خبر ہے کہ کل تک گریباں پر ہاتھ ڈالنے والے اب پاؤں پر جھکے ہوئے ہیں لیکن اُدھر صرف انکار ہے اور اُنھیں بتا دیا گیا ہے کہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کیے جائیں۔ عرفان صدیقی صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ اب اگر خان صاحب نے جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کے منصوبے کا اعتراف کر ہی لیا ہے تو وہ اپنے دیگر جرائم کا اعتراف بھی کرلیں تاکہ ضمیر پر بوجھ کچھ کم ہو جائے اور بات آگے بڑھے۔ یہ تمام موضوعات دلچسپ ہیں اور اہم بھی لیکن جو کہانی جناب عبد المحسن شاہین نے بیان کی ہے، اس کی اہمیت میری نگاہ میں تمام واقعات سے بڑھ کر ہے کہ یہ بلوچستان کا معاملہ ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔
اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، پاکستان ہی نہیں نئی دنیا کے مستقبل گوادر میں بلوچ عوام کے قافلے بلوچ راجی مچی میں شرکت کے لیے جوق در جوق پہنچ رہے ہیں۔ یہ بلوچ راجی مچی کیا ہے؟ یوں سمجھ لیجئے کہ بلوچ جرگہ ہے، عوامی اسمبلی کہہ لیں۔ ہمارے پشتون علاقوں میں کسی مسئلے پر غور کے لیے جس طرح جرگہ بلایا جاتا ہے یا افغانستان میں جیسے لویہ جرگہ کی روایت ہے، بالکل اسی طرح کسی اہم ترین مسئلے پر غور اور غیر معمولی فیصلوں کے لیے بلوچ قبائل میں راجی مچی منعقد کیا جاتا ہے۔ 2024 کے اواخر جولائی میں ہونے والا یہ اجتماع کئی اعتبار سے غیر معمولی اور تاریخی ہے۔
یہ اجتماع صرف بلوچ عوام کے وسائل پر مقامی آبادی کے حق کے تعلق سے اہمیت نہیں رکھتا بلکہ یہ بات بھی تادیر یاد رکھی جائے گی کہ بلوچستان کے قبائلی اور نیم قبائلی ماحول میں اس عظیم اجتماع کی میزبان ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہیں۔ یہ واقعہ اپنے اندر غیر معمولی سیاسی مضمرات تو رکھتا ہی ہے، بلوچستان میں ایک عظیم سماجی انقلاب کی خبر بھی دیتا ہے۔ صدیوں سے روایات کے اسیر سماج نے بہ رضا و رغبت ایک نوجوان خاتون کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا بلوچستان میں یہ تبدیلی راتوں رات رونما ہوئی ہے یا اس کے پس پشت کسی جہدوجہد کا دیا جل رہا ہے؟
شاہین صاحب سرکاری ملازمت میں رہے، سیاست میں طبع آزمائی کی پھر کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے، ان دنوں کتابیں پڑھتے ہیں یا پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان میں رونما ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے اسباب و اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس وقت بلوچستان کا نوجوان جتنا با شعور اور متحرک ہے، ملک کا کوئی دوسرا حصہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سبب کیا ہے؟
سبب یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں بلوچ نوجوانوں میں تعلیم کی پیاس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ بیرون ملک اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور حاصل کر کے لوٹنے والے نوجوانوں کا موازنہ کیا جائے تو اس میں بلوچستان ملک کے دیگر علاقوں پر سبقت لے جائے گا۔ یہ تبدیلی کسی بڑے سماجی انقلاب سے کم نہیں۔ بلوچ یک جہتی کونسل اسی تبدیلی کا وہ مظہر ہے جس کی طرف پورا پاکستان دل چسپی کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ بلوچستان میں ابھرنے والی یہ ایسی تحریک ہے جو پورے صوبے کا منظرنامہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بلوچستان میں کئی قسم کی سیاسی قوتیں ہیں، فطری طور وفاق اور آئین کے دائرے کے اندر رہ کر کام کرنے والی جماعتوں کو پہلے نمبر پر رکھا جائے گا۔ ان جماعتوں میں عبد المالک بلوچ صاحب کی نیشنل پارٹی، اختر جان مینگل صاحب کی بلوچستان نیشنل پارٹی اور نواب اکبر بگٹی شہید کی جمہوری وطن پارٹی سمیت چند دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بعد دوسرا طبقہ ان مرکز گریز قوتوں کا ہے جو پہاڑوں پر جا کر ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس منظر نامے میں بلوچ یک جہتی کونسل ایک بالکل نیا اور مختلف مظہر ہے۔
بلوچ یک جہتی کونسل نہایت پختہ سوچ رکھنے والے بلوچ عوام کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہی ہے جن میں خواتین کی تعداد متاثر کن ہے۔ یہ لوگ اپنے سیاسی مقاصد میں واضح ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ جدوجہد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کا دوسرا امتیازی پہلو یہ ہے کہ بلوچستان جیسے قبائلی پس منظر میں بھی بالکل غیر مسلح ہو کر نہایت امن کے ساتھ سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ کونسل کی خوبیاں ان تین نکات پر ختم نہیں ہو جاتیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح صوبے میں علیحدگی پسندی نے خونریزی کر کے امن و امان کو تہہ و بالا کیا ہے اور صوبے ہی نہیں ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ایسی مقبول عوامی تحریک امید کی ایک کرن کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی بلوچ یک جہتی کونسل کیا چاہتی ہے؟ کچھ عرصہ قبل وہ لا پتہ افراد کا مقدمہ کے کر اسلام آباد پہنچی تھی اور اب اس کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل کے سلسلے میں جو بین الاقوامی معاہدے کیے جارہے ہیں، ان کے بارے میں ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔ اگر کوئی چاہے جیسا کہ ہمارے یہاں اکثر ہوتا ہے، اسے گوادر پورٹ اور سی پیک وغیرہ کے خلاف سازش قرار دے سکتا ہے لیکن ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچیں تو صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ماہ رنگ کہتی ہیں کہ ہمارے وسائل پر ہمیں حق دو۔ حق دو کے الفاظ سے گوادر والے مولانا ہدایت الرحمن بھی یاد آتے ہیں۔
ان دونوں کے مطالبات میں کیا برائی ہے؟ یہ لوگ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں، ہتھیار نہیں اٹھاتے، علیحدگی پسند مسلح جتھوں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، بلوچ سرمچار یعنی مرکز گریز مسلح علیحدگی پسند ہمیشہ گوادر اور مکران جیسے پرامن علاقوں میں دہشت گردی کیا کرتے تھے جس سے ہمارے چینی دوست بھی پریشان ہوتے اور سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ جاتی۔بلوچ یک جہتی کونسل نے اِن مسلح سرگرمیوں کا راستہ روک دیا ہے۔ ہمیں اور کیا جائے۔ ان کا جو حق ہے وہ انھیں ملنا چاہئے اور کشٹ اٹھا کربلوچ راجی مچی کیے بغیر ملنا چاہیے۔ یہ لوگ مایوس نہ ہونے پائیں، ماضی میں شہری سندھ والوں کی مایوسی ہمیں ایک بار دن میں تارے دکھا چکی ہے، اب ان بچوں کو ہمیں سینے سے لگا لینا چاہیے، یہ پڑھے لکھے، ترقی پسند اور پرعزم نوجوان خوش حال بلوچستان ہی نہیں پاکستان کی بھی امید ہیں۔
جماعت اسلامی اسی عوامی مسئلے کی وجہ سے سڑکوں پر ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ لاہور سے جیسے ہی حافظ نعیم الرحمن کا قافلہ روانہ ہوا، حکومت نے انھیں انگیج کرلیا اور انھوںنے بھی اس کا ہاتھ جھٹکا نہیں۔ ایک آدھ دن میں فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔ دوسرے روز وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اور ڈاکٹر طارق فضل چودہری دھرنے میں پہنچ گئے جہاں امیر جماعت اسلامی نے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا۔سنجیدہ اور جمہوری سیاسی رویے ایسے ہی ہوتے ہیں۔یہ واقعہ تقاضا کرتا ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ جناب سہیل وڑائچ نے اپنی اطلاع اورقومی زندگی کے مشاہدے کے زور پر بتایا ہے کہ ہمارے چند اہم اسٹیک ہولڈرز جس طرح مورچہ بند ہو کر مصروف پیکار ہیں، اس کا نتیجہ کتنا ہول ناک اور تباہ کن ہو گا۔
سینیٹر عرفان صدیقی کی خبر ہے کہ کل تک گریباں پر ہاتھ ڈالنے والے اب پاؤں پر جھکے ہوئے ہیں لیکن اُدھر صرف انکار ہے اور اُنھیں بتا دیا گیا ہے کہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کیے جائیں۔ عرفان صدیقی صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ اب اگر خان صاحب نے جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کے منصوبے کا اعتراف کر ہی لیا ہے تو وہ اپنے دیگر جرائم کا اعتراف بھی کرلیں تاکہ ضمیر پر بوجھ کچھ کم ہو جائے اور بات آگے بڑھے۔ یہ تمام موضوعات دلچسپ ہیں اور اہم بھی لیکن جو کہانی جناب عبد المحسن شاہین نے بیان کی ہے، اس کی اہمیت میری نگاہ میں تمام واقعات سے بڑھ کر ہے کہ یہ بلوچستان کا معاملہ ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔
اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، پاکستان ہی نہیں نئی دنیا کے مستقبل گوادر میں بلوچ عوام کے قافلے بلوچ راجی مچی میں شرکت کے لیے جوق در جوق پہنچ رہے ہیں۔ یہ بلوچ راجی مچی کیا ہے؟ یوں سمجھ لیجئے کہ بلوچ جرگہ ہے، عوامی اسمبلی کہہ لیں۔ ہمارے پشتون علاقوں میں کسی مسئلے پر غور کے لیے جس طرح جرگہ بلایا جاتا ہے یا افغانستان میں جیسے لویہ جرگہ کی روایت ہے، بالکل اسی طرح کسی اہم ترین مسئلے پر غور اور غیر معمولی فیصلوں کے لیے بلوچ قبائل میں راجی مچی منعقد کیا جاتا ہے۔ 2024 کے اواخر جولائی میں ہونے والا یہ اجتماع کئی اعتبار سے غیر معمولی اور تاریخی ہے۔
یہ اجتماع صرف بلوچ عوام کے وسائل پر مقامی آبادی کے حق کے تعلق سے اہمیت نہیں رکھتا بلکہ یہ بات بھی تادیر یاد رکھی جائے گی کہ بلوچستان کے قبائلی اور نیم قبائلی ماحول میں اس عظیم اجتماع کی میزبان ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہیں۔ یہ واقعہ اپنے اندر غیر معمولی سیاسی مضمرات تو رکھتا ہی ہے، بلوچستان میں ایک عظیم سماجی انقلاب کی خبر بھی دیتا ہے۔ صدیوں سے روایات کے اسیر سماج نے بہ رضا و رغبت ایک نوجوان خاتون کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا بلوچستان میں یہ تبدیلی راتوں رات رونما ہوئی ہے یا اس کے پس پشت کسی جہدوجہد کا دیا جل رہا ہے؟
شاہین صاحب سرکاری ملازمت میں رہے، سیاست میں طبع آزمائی کی پھر کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے، ان دنوں کتابیں پڑھتے ہیں یا پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان میں رونما ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے اسباب و اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس وقت بلوچستان کا نوجوان جتنا با شعور اور متحرک ہے، ملک کا کوئی دوسرا حصہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سبب کیا ہے؟
سبب یہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں میں بلوچ نوجوانوں میں تعلیم کی پیاس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ بیرون ملک اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور حاصل کر کے لوٹنے والے نوجوانوں کا موازنہ کیا جائے تو اس میں بلوچستان ملک کے دیگر علاقوں پر سبقت لے جائے گا۔ یہ تبدیلی کسی بڑے سماجی انقلاب سے کم نہیں۔ بلوچ یک جہتی کونسل اسی تبدیلی کا وہ مظہر ہے جس کی طرف پورا پاکستان دل چسپی کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ بلوچستان میں ابھرنے والی یہ ایسی تحریک ہے جو پورے صوبے کا منظرنامہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بلوچستان میں کئی قسم کی سیاسی قوتیں ہیں، فطری طور وفاق اور آئین کے دائرے کے اندر رہ کر کام کرنے والی جماعتوں کو پہلے نمبر پر رکھا جائے گا۔ ان جماعتوں میں عبد المالک بلوچ صاحب کی نیشنل پارٹی، اختر جان مینگل صاحب کی بلوچستان نیشنل پارٹی اور نواب اکبر بگٹی شہید کی جمہوری وطن پارٹی سمیت چند دیگر جماعتیں شامل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بعد دوسرا طبقہ ان مرکز گریز قوتوں کا ہے جو پہاڑوں پر جا کر ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس منظر نامے میں بلوچ یک جہتی کونسل ایک بالکل نیا اور مختلف مظہر ہے۔
بلوچ یک جہتی کونسل نہایت پختہ سوچ رکھنے والے بلوچ عوام کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہی ہے جن میں خواتین کی تعداد متاثر کن ہے۔ یہ لوگ اپنے سیاسی مقاصد میں واضح ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ جدوجہد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کا دوسرا امتیازی پہلو یہ ہے کہ بلوچستان جیسے قبائلی پس منظر میں بھی بالکل غیر مسلح ہو کر نہایت امن کے ساتھ سیاسی اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ کونسل کی خوبیاں ان تین نکات پر ختم نہیں ہو جاتیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح صوبے میں علیحدگی پسندی نے خونریزی کر کے امن و امان کو تہہ و بالا کیا ہے اور صوبے ہی نہیں ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ایسی مقبول عوامی تحریک امید کی ایک کرن کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی بلوچ یک جہتی کونسل کیا چاہتی ہے؟ کچھ عرصہ قبل وہ لا پتہ افراد کا مقدمہ کے کر اسلام آباد پہنچی تھی اور اب اس کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل کے سلسلے میں جو بین الاقوامی معاہدے کیے جارہے ہیں، ان کے بارے میں ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔ اگر کوئی چاہے جیسا کہ ہمارے یہاں اکثر ہوتا ہے، اسے گوادر پورٹ اور سی پیک وغیرہ کے خلاف سازش قرار دے سکتا ہے لیکن ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچیں تو صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ماہ رنگ کہتی ہیں کہ ہمارے وسائل پر ہمیں حق دو۔ حق دو کے الفاظ سے گوادر والے مولانا ہدایت الرحمن بھی یاد آتے ہیں۔
ان دونوں کے مطالبات میں کیا برائی ہے؟ یہ لوگ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں، ہتھیار نہیں اٹھاتے، علیحدگی پسند مسلح جتھوں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، بلوچ سرمچار یعنی مرکز گریز مسلح علیحدگی پسند ہمیشہ گوادر اور مکران جیسے پرامن علاقوں میں دہشت گردی کیا کرتے تھے جس سے ہمارے چینی دوست بھی پریشان ہوتے اور سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ جاتی۔بلوچ یک جہتی کونسل نے اِن مسلح سرگرمیوں کا راستہ روک دیا ہے۔ ہمیں اور کیا جائے۔ ان کا جو حق ہے وہ انھیں ملنا چاہئے اور کشٹ اٹھا کربلوچ راجی مچی کیے بغیر ملنا چاہیے۔ یہ لوگ مایوس نہ ہونے پائیں، ماضی میں شہری سندھ والوں کی مایوسی ہمیں ایک بار دن میں تارے دکھا چکی ہے، اب ان بچوں کو ہمیں سینے سے لگا لینا چاہیے، یہ پڑھے لکھے، ترقی پسند اور پرعزم نوجوان خوش حال بلوچستان ہی نہیں پاکستان کی بھی امید ہیں۔