حق مہر کے احکامات اور شرعی حیثیت

مہر کا معجل یا مئوجل مقرر کرنا زوجین کی رضامندی پر منحصر ہوتا ہے۔


فوٹو : فائل

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں سے بحث کرتا ہے۔ دیگر مذاہب کے برعکس اسلام نے عورت کو بہت سے مالی حقوق عطا کیے ہیں۔ ان ہی حقوق میں سے ایک حق مہر ہے۔ حق مہر اس مال کا نام ہے جو شوہر کے ذمے بیوی کے منافع نفس کے عوض مقرر کرنے پر یا صرف عقد نکاح سے واجب ہوتا ہے۔ حق مہر کے احکامات پر غور کیا جائے تو اسے اعتدال اور حیثیت کے مطابق مقرر کرنا چاہیے۔

حق مہر کی ادائی میں غلو اور تفاخر کا اظہار درست عمل نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ حق مہر نکاح کے موقع پر خوش دلی سے ادا کردیا جائے۔ اس کی عدم ادائی، ٹال مٹول یا مہر کے معاملے میں بیوی پر کوئی ظلم و زیادتی کرنا جائز نہیں کیوںکہ یہ اللہ کی طرف سے عورت کے لیے عطیہ ہے۔ حق مہر دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شوہر بیوی پر کوئی احسان کر رہا ہے بلکہ یہ عورت کا حق اور خدائی ہدیہ ہے جو خاوند کے ذمہ نکاح کے وقت واجب ہے۔

حق مہر کے احکامات
مرد گھر کے خارجی اور مالی امور کا ذمے دار ہوتا ہے جب کہ عورت پر گھر کے داخلی امور کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس اصول کے مطابق مرد عورت کے اخراجات کا ذمے دار ہے اور نکاح کو اسی ذمے داری کے تحت قبول کرتا ہے اور اس کے قبولیت کی نشانی حق مہر ہے۔ اس لیے حق مہر کے احکامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اور ان کا جاننا ہر شخص پر لازم ہے۔

حق مہر کی اقسام
مہر کی دو اقسام ہیں۔

مہرِمعجل
اس سے مراد وہ مہر ہے جس کی ادائی نکاح کے فوری بعد واجب ہوتی ہے اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔

مہرِ مئوجل
اس سے مراد وہ مہر ہے جس کی ادائی نکاح کے فوری بعد واجب نہیں ہوتی بلکہ اس کی ادائی کے لیے کوئی خاص وقت مقرر کیا جاتا ہے یا اس کی ادائی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا جاتا ہے۔

اگر مہر کی ادائی کی کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت سے پہلے اس کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا لیکن اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو جب بیوی مطالبہ کرے گی اس وقت شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوجائے گا، لیکن اگر مہر مئوجل کے لیے نہ تو کوئی خاص وقت مقرر کیا گیا ہو اور نہ ہی بیوی کے مطالبہ پر موقوف کیا گیا ہو تو پھر اس کی ادائی طلاق یا موت کی وجہ سے فرقت کے وقت لازم ہوگی۔

مہر کا معجل یا مئوجل مقرر کرنا زوجین کی رضامندی پر منحصر ہوتا ہے۔ بے شک حق مہر کی کل رقم معجل یا مئوجل مقرر کر دی جائے یا حق مہر کا کچھ حصہ معجل طے کیا جائے اور کچھ حصہ مئوجل۔ لیکن ہر صورت میں مہر کی ادائی شوہر پر لازم ہے۔

چوںکہ حق مہر عورت کا حق ہے اور شریعت نے عورت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نکاح کے وقت مطالبہ کرے کہ اسے پورا مہر معجل چاہیے تو شوہر کو وہ مہر فوری ادا کرنا پڑے گا، لیکن اگر عورت اس پر راضی ہوجائے کہ مہر کا کچھ حصہ معجل ہو اور کچھ مئوجل تو پھر شوہر کے لیے مہر میں تاخیر کرنے کی گنجائش ہوگی۔

حق مہر کی اہمیت، حکمت اور شرعی حیثیت
حق مہر شرعاً واجب ہے اور اس کا واجب ہونا شریعت سے ثابت ہے۔ نکاح مہر سے خالی نہیں ہوسکتا اور دوسرا یہ کہ مہر وہ چیز ہونی چاہیے جو مال کا مصداق ہو۔

یہاں اس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ حق مہر واجب ضرور ہے تاہم نکاح میں نہ رکن ہے اور نہ ہی شرط۔ اس کے بغیر بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ حق مہر کی اہمیت پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ حق مہر نکاح کی وقعت و اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ زوجین کے درمیان الفت ومحبت کے ماحول کو فروغ دیتا ہے جو ازدواجی زندگی کی کام یابی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ گھریلو معاشرت کو بطریق احسن نمٹانے میں مرد کی اچھی نیت کو واضح کرتا ہے اور اسے پابند کرتا ہے کہ عورت کے تمام حقوق کا ضامن بنے۔ نکاح جیسے مقدس رشتے کو دوام بخشنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مہر کی رسم اسلام سے پہلے بھی شریف خاندانوں میں رائج تھی، اسلام نے اس شائستہ رسم کو برقرار رکھا ہے۔ یہ رسم عورت کی عظمت اور اہمیت کو ظاہر کرتی ہے، یہ عورت کی معاشی کفالت کا حصہ بھی ہے اور اس سے نکاح کا رشتہ بھی پائے دار اور مستحکم ہوتا ہے۔

مہر کی مصلحتوں اور حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے بدائع الصنائع میں شمس العلماء علامہ علاء الدین کاسانیؒ تحریر فرماتے ہیں: اگر صرف معاہدہ نکاح کی وجہ سے شوہر پر مہر لازم نہ ہوتو وہ معمولی ناچاقی پیدا ہونے پر بھی نکاح ختم کردے گا، کیوںکہ جب مہر اس پر لازم نہیں تو نکاح کا ختم کرنا اسے گراں بھی نہیں گزرے گا۔ یوں نکاح سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ مزید یہ کہ نکاح کے مقاصد اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں، جب زوجین میں موافقت ہو اور موافقت اسی وقت ہوسکتی ہے کہ جب شوہر کی نظر میں بیوی کی عظمت ہو اور شوہر کی نظر میں اسی وقت بیوی کی عظمت پیدا ہوسکتی ہے جب اس پر کوئی ایسی چیز لازم کردی جائے جو اس کی نظر میں قیمتی اور قابل قدر ہو، کیوںکہ جس چیز کا حصول مشکل ہو، اس کی دل میں قدر ہوتی ہے، انسان اسے عزیز رکھتا ہے اور جو چیز بہ آسانی ہاتھ آجاتی ہے، وہ انسان کی نظر میں حقیر ہوتی ہے، لہٰذا اگر عورت کی اہمیت اور وقعت شوہر کی نظر میں نہ ہوتو دونوں میں موافقت نہ ہوگی، نتیجے میں نکاح کے مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ (بدائع الصنائع 2/275)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں: مہر سے نکاح پائے دار ہوتا ہے، نکاح کا مقصد اس وقت تکمیل پذیر ہوتا ہے، جب میاں بیوی خود کو دائمی رفاقت ومعاونت کا خوگر بنائیں، اور یہ بات عورت کی طرف سے تو اس طرح متحقق ہوتی ہے کہ نکاح کے بعد تمام اختیار اس کے ہاتھ سے نکل جاتاہے، وہ مرد کی پابند ہوجاتی ہے، مگر مرد با اختیار رہتا ہے، وہ طلاق دے سکتا ہے، اور ایسا قانون بنانا کہ مرد بھی بے بس ہوجائے، جائز نہیں، کیوں کہ اس صورت میں طلاق کی راہ مسدود ہوجائے گی، اورمرد بھی عورت کا ایسا اسیر ہوکر رہ جائے گا، جیسا عورت اسیر تھی، اور یہ بات اس ضابطے کے خلاف ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اور دونوں کا معاملہ کورٹ کو سپرد کرنا بھی درست نہیں، کیوںکہ قاضی کے یہاں مقدمہ لے جانے میں سخت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اور قاضی وہ مصلحتیں نہیں جانتا جو شوہر اپنے بارے میں جانتا ہے۔ پس مرد کو دائمی نکاح کا خوگر بنانے کی راہ یہی ہے کہ اس پر مہر واجب کیا جائے تاکہ جب وہ طلاق دینے کا ارادہ کرے تو مالی نقصان اس کی نگاہوں کے سامنے رہے اور وہ ناگزیر حالات ہی میں طلاق دے، پس مہر نکاح کو پائے دار بنانے کی یہ ایک صورت ہے۔

دوسری مصلحت: مہر سے نکاح کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، نکاح کی عظمت واہمیت بغیر مال کے جو کہ عورت کا بدل ہوتا ہے، ظاہر نہیں ہوتی کیوںکہ لوگوں کو جس قدر مال کی حرص ہے، اور کسی چیز کی نہیں، پس مال خرچ کرنے سے نکاح کا مہتم بالشان ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ (حجۃاللہ البالغۃ - 2/336.337.حجاز دیوبند رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃاللہ البالغہ 5/48)

اس کے علاوہ بھی مہر کی حکمتیں ہیں جو علماء نے لکھی ہیں، مگر اصل حکمت یہ ہے کہ مہر شریعت کا حکم ہے اور ہم حکمت کے نہیں بلکہ حکم کے پابند ہیں اور مسلمان کے لیے شریعت کا حکم ہی ہر قسم کی حکمت ہے کیوںکہ ہمارا ایمان ہے کہ شریعت کا ہر حکم انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے ہے۔

مہر کی شرعی مقدار
حق مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی حد شریعت میں مقرر نہیں البتہ کم سے کم مقدار کے متعلق حدیث مبارک میں آیا ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہیں دیا جائے گا۔

سیدنا عمر فاروقؓ نے مہر میں حد درجہ مبالغے کے رجحان کو کم کرنے کے لیے برسرمنبر اعلان فرمایا: تم عورتوں کے مہر میں غلو سے کام نہ لو کیوںکہ اگر یہ کوئی بہتر چیز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ مہرمقرر فرماتے۔ آپ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے لیے بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ مہر مقرر نہیں کیا جو چارسو درہم بنتی ہے۔ جو کوئی اس سے زیادہ مقرر کرے گا وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔

اس پر ایک قریشی عورت نے تنبیہ کی کہ ''اے عمر! آپ کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔''

سیدنا عمر نے فرمایا:''عورت حق تک پہنچ گئی اور مرد کو خطا ہوگئی۔''

آپ دوبارہ منبر پر چڑھے اور اپنا حکم واپس لے لیا لیکن اس کے باوجود مہر میں تخفیف مستحسن اور موجب خیر وبرکت ہے کیوںکہ وہ نوجوان جو مہر اور شادی کے اخراجات نہ پورے کرنے کے سبب غیرشادی شدہ رہتے ہیں، کم مہر رکھنے کی صورت میں ان کے لئے نکاح کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس سے انفرادی اور اجتماعی برائیوں کا سدباب ہوتا ہے اور بے راہ روی کی روک تھام ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نمودونمائش کی جگہ سادگی کو فروغ ملتا ہے۔

حق مہر کی مسنون مقدار
مہر کی مقدار کے اعتبار سے چار صورتیں ہیں۔

مہراقل
مہر کی کم از کم مقدار شرعاً دس درہم مقرر ہے۔ البتہ مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں۔

مہرمثل
لڑکی کے ددھیالی خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر تھا اتنا ہی مہر اس لڑکی کا مقرر کیا جائے جس کی شادی ہو۔ اگر نکاح میں مہر متعین نہ ہو تب بھی مہر مثل ہی لازم ہوتا ہے۔

مہر مسمی
فریقین باہمی رضامندی سے مہرِمثل سے کم یا زیادہ جو مہر مقرر کریں۔ بشرطے کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو۔ اسے مہرِمسمی کہتے ہیں۔

مہر فاطمی
مہر کی وہ مقدار ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سب سے چھوٹی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صاحب زادیوںؓ اور اکثر ازواجِ مطہراتؓ کے لیے مقرر فرمائی تھی۔ اسے مہر فاطمی کہا جاتا ہے۔ مہر فاطمی کی مقدار پانچ سو درھم چاندی بنتی ہے۔
بہتر ہے کہ شادی سے پہلے ہر نوجوان حق مہر کے احکامات کا مطالعہ کرے، تاکہ بیوی سے کسی ناانصافی کا مرتکب نہ ہو اور مہر کی ادائیگی میں اعتدال سے کام لیا جائے۔
حق مہر اتنا مقرر کیا جائے جو شوہر بہ آسانی ادا کر سکے۔ البتہ بیوی اپنی رضامندی سے حق مہر میں کمی بھی کر سکتی ہے اور مکمل معاف بھی کر سکتی ہے۔

فریقین کے لیے لازم ہے کہ حق مہر کے معاملہ میں میانہ روی سے کام لیں نہ تو اتنی زیادہ مقدار مقرر کرلی جائے کہ شوہر ساری عمر اس کی ادائی سے قاصر رہے۔ نہ اتنی کم مقدار رکھی جائے کہ اس کی کوئی وقعت ہی نہ ہو۔

حق مہر کے احکامات واضح کرنے کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مہر عورت کی ملکیت ہے وہ اسے اپنی رضا اور اختیار سے جس طرح چاہے استعمال میں لائے وہ اسے خرچ کرے، اپنے پاس محفوظ رکھے یا شوہر کو معاف کردے۔ ہر طرح تصرف کی مجاز صرف عورت ہے اور ایک عورت کو اس حق سے محروم رکھنا جائز نہیں۔

مہر کی ادائی شرعاً شوہر پر واجب ہے لیکن اگر باپ نے نکاح نامے میں مہر کی ادائی کا ضامن بنتے ہوئے دست خط کیے ہوں تو ایسی صورت میں عورت اپنے شوہر کے باپ سے بھی مہر کا مطالبہ کرنے کی حق دار ہے۔ اگر شوہر حق مہر ادا کیے بغیر وفات پا جائے تو اس کی متروکہ جائیداد سے حق مہر کی رقم منہا کی جائے گی اور پھر بقیہ رقم کو تقسیم کیا جائے گا۔

آج کل لوگ شادی اور فضول رسومات پر لاکھوں روپیہ خرچ کرلیتے ہیں لیکن جہاں بات حق مہر کی آجائے وہاں شرعی مہر کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ سوا بتیس روپے شرعی حق مہر ہے لیکن شریعت میں اس قسم کے شرعی حق مہر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس لیے حق مہر کے احکامات، شرعی حیثیت اور مقدار کا جاننا ہر شخص پر لازم ہے تاکہ اس معاملے میں کسی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے مطابق حق مہر کے احکامات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔