پریشان ہونا چھوڑیے جینا سیکھیے

ڈیل کارنیگی کی مشہور کتاب پریشانیوں کا کیا حل بتاتی ہے؟


ایاز مورس July 28, 2024
ڈیل کارنیگی کی مشہور کتاب پریشانیوں کا کیا حل بتاتی ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

میری زندگی میں کتابوں کا اہم کردار رہا ہے اور آج بھی میں ایک ایسی ہی کتاب کا مفہوم شیئر کروں گا جس نے میری زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا اور میری زندگی میں اس کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ اس کتاب پر بات کرنے سے پہلے میں اس کتاب سے جُڑی کہانی آپ کو سناؤں گا۔

یہ کتاب نام ور موٹیویشنل اسپیکر ڈیل کارنیگی کی ہے، جس کا نام ہے ''پریشان ہونا چھوڑیے جینا سیکھیے'' ہے۔ یہ بہت مشہور اور موٹیویشنل اور سیلف ہیلپ کے شعبے کی کلاسیکل کتاب ہے۔ یہ ڈیل کارینگی ابتدائی لوگوں میں سے ہے جنہوں نے بہت پہلے سیلف ہیلپ کے شعبے میں کام کیا ہے، بلکہ ان کا نام سرفہرست آتا ہے، کیوںکہ ان کی بہت ساری مشہور کتب ہیں، لیکن میری زندگی میں اس کتاب کا زیادہ اثر رہا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میں 2005 میں کالج میں پڑھتا تھا تو اس وقت میری زندگی کی کوئی سمت نہیں تھی، مجھے بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ میں نے آگے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ کہاں جانا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا، بالکل بے مقصد زندگی تھی۔ میں جب فارغ ہوتا تو کوئی کام بھی نہیں ہوتا تھا اور زندگی عجیب اور بے رُخی سی لگتی تھی، جیسے بے مقصد مسافر یوں ہی چلے جارہا ہے۔ ایک دن اتفاق سے میں باہر اپنی گلی میں آیا تو ایک کباڑیا، کباڑ کی آواز لگا رہا تھا تو میں نے اس کے ٹیلے پر کچھ کتب دیکھیں اور ان میں سے ایک کتاب پر میری نظر پڑی جس کا سرورق میرے لیے کشش کا سبب بنا، کیوںکہ میں پریشان تھا، تو میں نے سوچا کہ اچھا دیکھتے ہیں، اس کتاب میں کیا ہے، میں نے یہ کتاب صرف پانچ روپے خریدی تھی۔ یہ کتاب بالکل پرانی حالت میں تھی۔

جب میں نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو پتا چلا کہ اس کو کسی بہت ہی اچھے انسان نے پڑھا ہے، جس نے اس کے بہت سی سطور کو ہائی لائٹر سے رنگین کیا ہوا تھا اور بہت سے نوٹس لکھے تھے۔ یہ میری زندگی کی پہلی کتاب تھی جو میں نے خریدی اور سیلف ہیلپ کا لٹریچر کو پڑھنا شروع کیا تو تب مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ میں موٹیویشنل اسپیکر بنوں گا اور ٹریننگ اور پرسنل ڈیویلپمنٹ کی فیلڈ میں آؤں گا۔ اس کتاب نے میری زندگی کو نئی تازگی بخشی اور زندگی کو ایک ہدف دیا اور میں نے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرنے کی جستجو شروع کردی۔

اس کتاب میں ڈیل کارنیگی نے اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور کس طرح انہوں نے اپنے آپ کو بدلا اور جو کچھ حاصل کیا، اسے نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ یہ بہت ہی انسپائرنگ اور کلاسیکل کتاب ہے، اگر آپ پڑھیں یہ تو بہت ہی شاندار ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے کتابوں کو پڑھنا تو اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کس قسم کی بک پڑھنی چاہیے تو میں انہیں یہ تو تجویز دیتا ہوں کہ جیسے بھی کوئی بھی کتاب آپ کو ملتی ہے ضرور پڑھیں لیکن ایک خاص مقام کے بعد طے کر لیں کہ آپ کو کس قسم کی کتابیں پڑھنی ہیں۔ آج کے دور میں بہت سارے لوگ پریشان ہیں، بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں، فکرمند ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں کوئی مقصد اور سمت نہیں ہوتی ہے۔

یہ کتاب، درحقیقت آپ کو، آپ کی حقیقت سے اور آپ کے وجود سے آگاہ کرتی ہے۔ آپ کا اس زندگی اور دُنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، مجھے ذاتی طور پر سیلف ہیلپ اور زندگی کے مقصد کو اُجاگر کرنے والی کتابیں متاثر کرتی ہیں۔ مجھے اس کتاب نے بہت فائدہ دیا، یقینی طور پر آپ کی زندگی میں بھی کسی کتاب نے ضرور کوئی خاص اثر چھوڑا ہوگا، تو ضرور ایسی کتابوں کو شیئر کریں۔ یہ کتاب میرے دل کے بہت قریب ہے۔ اگر میں اپنی زندگی میں دیکھوں، اس وقت کو جب میں نے یہ کتاب خریدی تھی اور آج جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت بڑا سفر ہے اور یہ بنیادی وہ وقت تھا جب مجھے ضرورت تھی کسی ایسی راہ نما کتاب کی، کسی ایسی انسپائریشن اور موٹیویشن کی جو مجھے اپنی ذات پر بھروسا کرنا سکھا تی، تا کہ میں کچھ کر سکتا، تو اس طرح کی کتابیں ضرور پڑھیں یہ زندگی میں آپ کے لیے بہت مفید ثابت ہوں گی۔

1940 میں پہلی مرتبہ شایع ہونے والی 306 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اب تک کئی ملین کی تعداد میں فروخت ہوچکی ہے اور کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اُردو زبان میں اس کے کئی ترجمے ہوچکے ہیں۔ اور اب تک یہ کئی نسلوں کو متاثر کرچکی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈیل کارنیگی کا اسلوب اور تحریری انداز بہت پرکشش اور لاجواب ہے یہ کتاب آج کے دُور میں اپنے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اس کتاب کا ہر باب، کہانی، کردار، واقعہ اور قول سحر انگیز ہے۔ اس کتاب کے خلاصے، مرکزی خیال اور مفہوم پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، لیکن یہ چند نکات پیش ِخدمت ہیں جو کتاب کا ذائقہ دے سکتے ہیں لیکن اگر آپ واقعی اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پھر اس کا مطالعہ لازم ہے۔

''فکر ایک جھولی ہوئی کرسی کی طرح ہے۔ یہ آپ کو کچھ کرنے کو دیتی ہے، لیکن یہ آپ کو کہیں نہیں پہنچاتی۔ آئیے پریشان ہونے میں مزید وقت ضائع نہ کریں۔ آئیے زندگی میں مصروف ہوجائیں!''

صرف موجودہ لمحے پر توجہ مرکوز کریں

فکر اکثر ماضی یا مستقبل پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ کتاب آپ کی توانائی کو موجودہ لمحے پر مرکوز کرنے پر زور دیتی ہے، جہاں آپ کا سب سے زیادہ کنٹرول ہوتا ہے۔

حقائق کو جمع کریں

مسائل کو قابل عمل اقدامات میں تقسیم کریں، کسی مسئلے کا سامنا کرنا اضطراب کو کم کر سکتا ہے۔ صورت حال کا عقلی تجزیہ کریں اور حقائق کو جمع کریں۔ بڑے مسائل کو چھوٹے، قابل عمل اقدامات میں تقسیم کریں، جس سے وہ ہلکے محسوس ہوتے ہیں۔

اوسط کا قانون

امکان پر غور کر کے اضطراب کو کم کریں، بدترین حالات میں خود کو مفلوج نہ ہونے دیں۔ ڈیل کارنیگی اوسط کے قانون پر غور کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ جس چیز کے بارے میں فکر مند ہیں وہ واقعی ہونے والی ہے۔ اکثر، مشکلات آپ کے حق میں ہوتی ہیں۔

ناگزیر کو قبول کریں اور اس پر توجہ مرکوز کریں جس پر آپ قابو پاسکتے ہیں

کچھ چیزیں آپ کے قابو سے باہر ہوتی ہیں۔ کتاب ان حالات کو قبول کرنے اور اپنی توانائی کو اس بات پر مرکوز کرنے پر زور دیتی ہے کہ آپ کس چیز پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ تناؤ کو کم کرتا ہے اور آپ کو ان نکات پر عمل کرنے کی طاقت دیتا ہے جہاں یہ اہمیت رکھتا ہے۔

ناگزیر کے ساتھ تعاون کریں

بعض اوقات سب سے زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ناگزیر کو قبول کیا جائے اور صورت حال کا بہترین فائدہ اٹھایا جائے۔ ناقابل تبدیلی کی مزاحمت صرف مزید پریشانی پیدا کرتی ہے۔

اپنی پریشانیوں کو ختم کریں

اپنی زندگی کو معنی خیز سرگرمیوں سے بھریں۔ پریشانی، سُستی میں پروان چڑھتی ہے۔ کتاب آپ کی زندگی کو ایسی سرگرمیوں سے بھرنے کا مشورہ دیتی ہے جو آپ کو خوشی اور مقصد فراہم کرتی ہیں۔ یہ مثبت مصروفیت فکر کے لیے کم جگہ چھوڑتی ہے۔

اپنی پریشانیوں پر ''اسٹاپ لاس'' آرڈر تیار کریں

پریشانی کو آپ کو لامتناہی استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ پریشان ہونے کے لیے ایک وقت مقرر کریں، اور پھر شعوری طور پر اپنے خیالات کو مزید نتیجہ خیز سرگرمیوں کی طرف موڑ دیں۔ ڈیل کارنیگی قارئین کو فکر کے چکر سے آزاد ہونے کے لیے حکمت عملیوں سے آراستہ کرتا ہے اور ایک خوش گوار، زیادہ بھرپور زندگی بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ یاد رکھیں، جس چیز کی ہمیں فکر ہوتی ہے وہ ہمارے قابو سے باہر ہے۔ موجودہ حالات کو قبول کرنا، مثبت رہنا، اور ان شعبوں میں عمل کرنا زیادہ نتیجہ خیز ہے جہاں ہم فرق کر سکتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں اس وقت جو حالات ہیں، ذہنی پریشانی اور بے چینی کی کیفیت اپنے عروج پر ہے، ایسے حالات میں لوگوں کو تسلی، نئی اُمید اور جینے کی وجہ دینا کسی بھی بڑے تحفے سے کم نہیں، کیوںکہ انسان کو اگر مشکل اور پریشانی میں تسلی اور اُمید نہ ملے، تو وہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے، جہاں سے واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں انسان کو مثبت سوچ اور اچھے خیالات دینا ایک عظیم نعمت ہے۔

واصف علی واصف نے بھی کیا خوب کہا ہے ''پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔''

پریشانی اور مشکل و منفی حالات کے گرداب سے نکلنے کے لیے، مثبت سوچ، خیالات اور اقدام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ میری نظر میں اپنی زندگی اور جینے کا مقصد حاصل کرنے والے لوگ پریشانیوں سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ زندگی کا حصہ ہے۔

آئیں پریشانی اور افراتفری کے اس ماحول میں انسانوں کو حقیقی خوشی، نئی سوچ اور مثبت انرجی دیں اور معاشرے میں خوش حالی اور جینے کی نئی اُمنگ پیدا کریں کیوں کہ:

زندگی زندہ دلی کا ہے نام

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔