کوچۂ سخن

بچا نہیں مرا کردار اب کہانی میں<br /> ٹھہرنا لگتا ہے بیکار اب کہانی میں

فوٹو: فائل

غزل
بچا نہیں مرا کردار اب کہانی میں
ٹھہرنا لگتا ہے بیکار اب کہانی میں
کئی دنوں سے دکھاتا نہیں ہدایت کار
طلوعِ صبح کے آثار اب کہانی میں
سب ایک جیسے مناظر سب ایک سے کردار
سو کچھ نیا بھی ہو سرکار اب کہانی میں
جو موڑ دے نہیں سکتے تو اختتام کریں
نہیں چلے گی یہ تکرار اب کہانی میں
سجھائی دیتا نہیں کوئی نکتہ ٔ انجام
ہے واقعات کا طومار اب کہانی میں
قبول کون کرے گا یہ مرکزی کردار
مت اس طرح سے مجھے مار اب کہانی میں
یہ نسل ِ نو کو سبق امن کا پڑھائیں گے
اٹھائے پھرتے ہیں تلوار اب کہانی میں
عجب نہیں کہ حقیقت میں تخت پر بیٹھے
بنا جو صاحب ِ دستار اب کہانی میں
خمار ِ خواب میں جاذبؔ پڑے رہیں گے سب
جو لوگ لگتے ہیں بیداراب کہانی میں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)


غزل
جب کسی عکس کا امکان دکھائی دے گا
آئنہ صاحب ایمان دکھائی دے گا
کیا تجھے کافی نہیں ہے کہ ترا نافرمان
عصر کے وقت پریشان دکھائی دے گا
آپ مجھ پر پڑی مٹی کو ہٹائیں تو سہی
میں نہیں تو مرا نقصان دکھائی دے گا
یہ کوئی خاص طریقہ تو نہیں ہے لیکن
دیکھتے رہنے سے آسان دکھائی دے گا
میری ہر رنگ میں کوشش ہے نظر آنے کی
جانے کس پر ترا رجحان دکھائی دے گا
دو گھڑی سوچا تجھے اور کہا خود سے زمانؔ
تو مجھے خواب کے دوران دکھائی دے گا
(دانیال احمد زمان۔ خوشاب)


غزل
سارے مجھ سے پوچھ رہے ہیں، کیسے ایسے شعر کہے
جیسی میں نے دنیا دیکھی، ویسے میں نے شعر کہے
دونوں کام ہی مشکل تھے پر، دیکھو دونوں کام کئے
ہنستے ہنستے اس کو چھوڑا، روتے روتے شعر کہے
کس کی جرأت میرے ہوتے کوئی اس کی بات کرے
کس میں ہمت میرے ہوتے اس کے بارے شعر کہے
میرے جیسا عشق کرے وہ، جس نے ہونا ہے بدنام
جس نے نام کمانا ہے وہ میرے جیسے شعر کہے
جتنا اچھا ذوق تھا انجمؔ اس خوش گوش پہاڑن کا
میں نے ساہیوال میں بیٹھ کے اُتنے اچھے شعر کہے
( منیر انجم۔ سرگودھا)


غزل
ایک تصویر جب دکھائیں گے
پھول آنکھوں میں آ سمائیں گے
جگنوؤں نے کیا ہے مجھ سے عہد
وہ مرے خواب ڈھونڈ لائیں گے
بد گماں شہر میں کسی دن ہم
بزم امکان کی سجائیں گے
ہاتھ پکڑیں گے اپنی قسمت کا
آسماں سے زمیں ملائیں گے
تم اگر عادتاً بھی روٹھ گئے
ہم تو اس بار مر ہی جائیں گے
لوٹ آئے گا پھر حسیں موسم
جب مرے دوست لوٹ آئیں گے
چند باتیں جو خود سے کرنی تھیں
ہم وہ باتیں کسے بتائیں گے
نغمۂ عمر آخری دم تک
وقت کی لے پہ گنگنائیں گے
شعر لکھ کر قمرؔ کے رکھ لیجے
یاد تو آپ رکھ نہ پائیں گے
(قمر آسی ۔کراچی)


غزل
صحرا کو بہت اچھا لگا آنا کسی کا
کس شہر سے آیا ہے یہ دیوانہ کسی کا
یہ پھول کے کھلنے پہ جو ہم خوش نہیں ہوتے
ہے یاد ابھی تک ہمیں مرجھانا کسی کا
ہم لوگ کہاں ڈرتے ہیں دہشت سے بھنور کی
بس خوف زدہ رکھتا ہے گھبرانا کسی کا
بیماریٔ دل بڑھنے لگی شہر میں یوں بھی
ہے بند کئی دن سے شفا خانہ کسی کا
اک ممکنہ ہم راہ مرے ساتھ ہے جب تک
تنہا نہیں کر سکتا بچھڑ جانا کسی کا
یہ تم جو لگا لیتے ہو سستے میں ہی یاری
پڑ جائے نہ مہنگا تمھیں یارانہ کسی کا
پوچھو تو چھپا لیتے ہیں سب اپنی کہانی
سنتے ہیں بڑے شوق سے افسانہ کسی کا
(حسیب علی کہوٹہ۔ راولپنڈی)


غزل
راستہ بالکل ہے یہ دشوار پر
موت آجا ئے ہمیں انکار پر
مجھ کو بس اتنا بتایا یار نے
ہم تمہیں پہچان لیں گے دار پر
دشمنوں کو بھی دعا دیتے ہیں جو
کیسے انگلی اٹھے اُس کردار پر
مشکلوں سے بھی نکالے گا وہی
ہے بھروسہ ہم کو اپنے یار پر
روشنی سے پہلے مجھ تک آ گئی
داد بنتی ہے تری رفتار پر
لوگ گزریں گے گلی سے اس لیے


میں دیے رکھنے لگا دیوار پر
(عظیم کامل ۔جام پور)


غزل
لرزا سا ہوا پیڑ میں، گھر بار میں اترے
جھونکے جو شکستہ کسی دیوار میں اترے
آدم کو اتارا گیا دھرتی پہ فلک سے
یونس بھی تو مچھلی کے شکم بار میں اترے
ہے چشمِ خریدار،نہ وہ ذوقِ زلیخا
کیسے بھلا یوسف کوئی بازار میں اترے
آنے سے ترے شاخِ نشیمن پہ کھلے پھول
کچھ غول پرندوں کے بھی اشجار میں اترے
یوں دل میں اتر آئے ہیں کچھ لوگ اسیرم
اک نور سا جیسے ہے کسی غار میں اترے
(اسیر حیدر۔علی پور)
غزل
عجب ہے کہ، بطن میں جس کو ہم نے پال رکھا ہے
اسی ظالم نے مشکل میں ہمیں اب ڈال رکھا ہے
گلہ بنتا ہے کاتب سے کہ اس نے اپنی قسمت میں
لکھے ہیں دکھ ہزاروں پر خوشی کا کال رکھا ہے
بھلا دامِ محبت سے کوئی بچ کر کہاں جائے
شکاری نے تو ہر جانب بچھا کر جال رکھا ہے
اسے مخصوص رنگوں کے گلوں سے خاص رغبت ہے
سو گلشن کو اِسی خاطر لہو سے لال رکھا ہے
یہ دل بچہ نہیں جو کہ کھلونوں سے بہل جائے
بہانوں سے اسے ہم نے ابھی تک ٹال رکھا ہے
محبت دل کے سازوں سے مزین بانسری ہے بس
بجز اس کے ہے بے معنی،اگر سر تال رکھا ہے
یہ مجذوبوں سی حالت اور پھرے ہے دربدر دائمؔ
تھا ماضی کیا تمہارا اور بنا کیا حال رکھا ہے
(ندیم دائم۔ ہری پور)


غزل
نئے خیال کو ڈھالا ہے شعر کی صورت
تمہارے ہجر کو پالا ہے شعر کی صورت
کہیں میں مصرعے کی صورت بکھر نہ جاؤں کبھی
تب اپنا آپ سنبھالا ہے شعر کی صورت
کسی کے عشق کی تفسیر ہم بھی لکھیں گے
ہمارے ہاتھ اِک آلہ ہے شعر کی صورت
تمہارے ہونے کا اظہار ہوں میں دھرتی پر
کہ تم سے خود کو نکالا ہے شعر کی صورت
سرِ عزیز تو جھکتا ہے آپ کے آگے
یہ عاشقی کا حوالہ ہے شعر کی صورت
(شارق عزیز میاں اعوان،سون ویلی۔ نوشہرہ)


غزل
مجھے کاٹنی تھی ہنسی خوشی ترے بعد بھی
نمی آنکھ میں نہیں آ سکی ترے بعد بھی
تو ہوا نہیں تجھے مجھ سے دور کیا گیا
مرے ساتھ ہیں کئی سازشی ترے بعد بھی
مجھے روشنی کی طلب نہیں تھی اسی لیے
مرے پاس ہے وہی تیرگی ترے بعد بھی
یہ نصیب ہی تجھے مجھ سے چھین کے لے گیا
رہا زندگی کا ولن یہی ترے بعد بھی
ترے شہر کے کسی آدمی سے ملوں اگر
ترا پوچھتا ہوں کبھی کبھی ترے بعد بھی
(انس سلطان۔ فیصل آباد)


غزل
ہوتا ہوں جو اداس میں اب بات بات پر
قابض ہے ایک ہجر مری نفسیات پر
حرص و ہوس میں قید مسلمانِ پاک و ہند
آنکھیں خیانتی لئے رہتے ہیںگھات پر
جلتا ہوں روز زنگیٔ شب میں چراغ پا
طرزِ حیاتِ خلق ترے سومنات پر
شاید یہ غم کے بعد خوشی کی نوید ہے
خط نغمۂ بہار ہے اک زردپات پر
میر ا مزاج اور ہے اُس کا مزاج اور
اب کیا جدا کریں اُسے اتنی سی بات پر
اپنی مصیبتوں پہ کیا ضبطِ ناگوار
گریہ کناں رہا ہوں تری مشکلات پر
کچھ بھی تو میں نے یار ا کھٹا نہیں کیا
فیصل ؔجو سوچتا ہوں متاعِ حیات پر
(فیصل کاشمیری،تحصیل و ضلع وزیر آباد)


غزل
ترے فریب کا دل میں ملال باقی ہے
سکون ِ قلب ابھی بہرحال باقی ہے
میں اپنے ہاتھ میں اِکا دبا کے بیٹھا ہوں
تمہارے ہوش اڑانے کی چال باقی ہے
کسی نے بار ہا دیکھا تو یہ گماں گزرا
ابھی جوان ہوں کچھ تو جمال باقی ہے
تمہارا عشق مجھے دشت میں لے آیا ہے
تمہارے ہجر کی وحشی دھمال باقی ہے
عجیب موت ملی ہے مجھے مروت میں
میں اس پہ مر مٹا ہوں انتقال باقی ہے
(انور محمد انور۔ سیالکوٹ)


غزل
مانگی دعا ہے دل سے جو تجھ پر کیا ہے غور
گزرے نہ تیرے حسن کا یہ لاجواب دور
جتنا بھی تجھ کو غور سے دیکھوں میں جانِ جاں
آتی ہے دل سے پھر بھی صدا ایک بار اور
تو جو کرے وفا کہ جفا ایک بات ہے
پیارا ہے مجھ کو جان سے تیرا ہر ایک طور
دو جھیل جیسی آنکھیں چرا لے گئی ہیں دل
لیکن شہابؔ کہہ نہیں سکتا انھیں میں چور
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story