ڈیجیٹل دہشت گردی سے کیسے نمٹا جائے
سوشل میڈیا کے استعمال کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے پہلوؤں سے انکار ممکن نہیں
July 29, 2024
دنیا کے تمام مہذب معاشروں میںیہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی شخص کی اظہار رائے اور تحریر و تقریر کی آزادی وہاں تک محدود تصور کی جائے گی جہاں تک کسی دوسرے شخص کی آزادی، اس کی عزت و ناموس اور وقار پر حرف نہ آئے اور جب معاملہ کسی ریاست کی بقاء ، اس کی سلامتی اور قومی مفاد کا ہو تو اس آزادی کی حدود و قیود اور بھی زیادہ محدود ہوجاتی ہیں۔ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزررہا ہے،ایک طرف ریاست کو معیشت کی بحالی کا سنگین چیلنج درپیش ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کے پے درپے واقعات نے پوری قوم کو سخت تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں درپیش معاشی چیلنج سے نمٹنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کوشاں ہیں جب کہ دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے ہماری بہادر سیکوریٹی فورسز اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ملک دشمنوں سے برسرپیکار ہیں۔۔ایسے ماحول میں قومی یکجہتی اور داخلی سطح پر سیاسی استحکام بہت ضروری ہے لیکن یہ بڑی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایک منظم گروہ کافی عرصے سے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بھرپورطاقت اور وسائل کے ساتھ استعمال کررہا ہے۔
پاکستان کی ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈہ مہم بڑی شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔دنیا میں کون سی ایسی ریاست ہوگی جوکسی گروہ یا افراد کو اپنے ہی ملک کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کرنے کی اجازت دے سکے جو لوگ ایسا کررہے ہیں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں اور انھیں لگام ڈالنا بہت ضروری ہے۔ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حالیہ چند برسوں کے دوران سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کے صارفین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
سوشل میڈیا کے استعمال کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے پہلوؤں سے انکار ممکن نہیں۔ مثبت پہلو تو یہ ہے کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے بے شمار لوگوں کو آن لائن روزی کمانے، اپنے ذوق کے مطابق مختلف اقسام کی سمعی اور بصری تفریحات سے لطف اندوز ہونے اور مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات پر کھل کر اظہار خیال کرنے کے مواقع میسر آگئے ہیں لیکن اس پلیٹ فارم کا ان دنوں پاکستان میں جو سب سے خطرناک اور تشویش ناک پہلو ابھر کر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ ملک دشمن عناصر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو پاکستان کی سلامتی و بقاء کو خطرے میں ڈالنے کے لیے بڑی بے رحمی سے استعمال کررہے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان میں انتشار اور انارکی کی صورتحال پیدا کردی جائے۔
اسی تناظر میں اگر اب ڈیجیٹل ٹیررازم کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے تو وہ کسی طرح بھی غلط نہیں ہے۔عصر حاضر میں قوموں اور ملکوں کے خلاف جنگوں کے روایتی طریقے اب فرسودہ تصور کرکے متروک ہوتے جارہے ہیں، اس وقت اگر کسی ملک کے خلاف جنگ میں کوئی موثر ترین ہتھیار ہوسکتا ہے تو وہ پروپیگنڈے کا ہتھیار ہے جو اس وقت پاکستان دشمن بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔
ان کی کوشش ہے کہ قوم کو گمراہ کن خبروں، قیاس آرائیوں اورافواہوں کے ذریعے نہ صرف پاکستان کے مستقبل سے مایوس کردیا جائے بلکہ اب ان کے حوصلے اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ وہ کھلے عام یہ کوشش کررہے ہیں کہ عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤکی کوئی صورتحال پیدا کردی جائے تاکہ ان کا مذموم ایجنڈا پورا ہوسکے۔بنوں کا حالیہ واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس سے قبل 9 مئی کو اسی ٹولہ نے ملک میں انتشار پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور اس وقت بھی سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے یہ عناصر ریاست اور اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہوئے تھے لیکن پاکستانی قوم قابل تحسین ہے جوان وطن فروشوں کے کسی بہکاوئے میں نہیں آئی اور 9 مئی کی سازش بری طرح ناکام ہوئی۔
یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ چور چوری سے جاتا ہے ہیر پھیری سے نہیں جاتا، یہی حال اس وقت پاکستان کے خلاف برسر بیکار ٹولے کا ہے جو اپنی حرکتوں سے باز آنے کو تیار نہیںہے اور اس وقت بھی شرانگیزی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔پاکستان میں اس قسم کی شرانگیزی کو روکنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیرر ازم کا سدباب بہت ضروری ہے۔ حالیہ دنوں میں اس حوالے سے جو پیش رفت ہوئی ہے وہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں اخبار نکالنے کے لیے ڈیکلریشن اور ٹی وی چینل کے آغاز کے لیے لائسنس کے حصول کی شرط ہے ، اس حوالے سے ایک منظم طریقہ بھی رائج ہے تاکہ جو لوگ بھی ابلاغ کے ان ذرایع سے خبریں اور دوسری معلومات لوگوں تک پہنچائیں وہ مستند اور تصدیق شدہ ہوں۔ان سے ملک میں انتشار، افراتفری اور فساد نہ پھیلے۔
لیکن سوشل میڈیا کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے،اس پر حکومت اور اس کے کسی ادارے کا کوئی کنٹرول نہیں۔ جس کسی کے پاس اسمارٹ فون موجود ہے وہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جو چاہے خود ڈال دے یا اسے کسی دوسرے نے جو کوئی بھی جھوٹی سچی خبر یا پوسٹ بھیجی ہے وہ آگے فارورڈ کردے۔
کچھ لوگوں نے اپنے ذاتی یو ٹیوب چینل بناکر انھیں بھی پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنا شروع کررکھا ہے۔سوشل میڈیا کے لیے کوئی منظم طریقہ کار اورمیکانزم نہ ہونے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ بہت سے لوگ بغیر کسی ڈر خوف جو دل چاہتا ہے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ پہلے یہ معاملہ اس حد غیر ذمے دارانہ تھا کہ کسی مقبول سیاسی لیڈر یا شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیت کے انتقال کی چھوٹی خبر سوشل میڈیا پر شیئر کردی گئی لیکن اب سوشل میڈیا کا یہ خطرناک ہتھیار ڈیجیٹل دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے جو اسے بڑی سفاکی اور چالاکی کے ساتھ پاکستان کی سالمیت اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
یہ ڈیجیٹل دہشت گرد کبھی پاکستان کے سری لنکا بننے کی پیش گوئی کرتے ہیں، کبھی یہ اسے بنگلہ دیش بنانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں، کبھی کسی کی پگڑی اچھالتے کبھی کسی کی ٹرولنگ کرتے ہیں۔آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا مقصد کسی کے لیے بھی مادر پادر آزادی ہرگز نہیں ہوسکتا۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ ڈیجیٹل ٹیررازم کے سدباب کے لیے پورے ملک میں سخت قوانین بنائے جائیں اور قوم کا بتایا جائے کہ ملک دشمن ڈیجیٹل دہشت گردی کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کس طرح استعمال کررہے ہیں۔ یہ بڑی قابل تحسین بات ہے کہ اس وقت سندھ کے سینئر وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف ریاستی بیانیہ بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کررہے ہیں اور ان کی جانب سے مسلسل اس بات کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سخت قوانین اور کڑی سزائیں بہت ضروری ہیں۔یہ کسی سیاسی جماعت کے فائدے یا نقصان کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کا معاملہ ہے جس پر کسی قسم کی نرمی یا کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔