دعاؤں کی ضرورت
سیاسی تجزیہ کاروں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پیپلز پارٹی دکھاوے کے بیانات دے رہی ہے
ایک سینئر صحافی و تجزیہ کار نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کو دعاؤں کی ضرورت ہے کیونکہ انگریزی محاورے کے مطابق حکومت سخت مشکل پانیوں میں ہے۔ یہ مشکل پانی اتنے بھنور زدہ، گدلے اور سرکش ہیں کہ کوئی معجزہ ہی اس حکومت کی دستگیری کرکے اسے مشکلات و مسائل سے باہر نکال سکتا ہے اسی لیے حکومت کو دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم بھی ان کے لیے دعا کریں۔ تجزیہ کار کے مطابق جب حکومت کے اہم ترین اتحادی اور ساتھی ہی ایسے دھمکی آمیز بیانات دیتے رہیں تو حکومت کرنے کا مزہ کیا رہ جاتا ہے؟ ایسی حکومت پر بے یقینی کا ہمہ دم لرزہ تو طاری رہے گا اسی لیے صدر آصف زرداری نے کہہ دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے حکومت نہیں چل رہی۔
حکومت نے جو بجٹ پیش کیا اس پر پیپلز پارٹی نے فوراً ہی اعتراضات کر دیے تھے کہ حکومت نے بجٹ پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی بجٹ کے خلاف بیانات دیے تھے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کی ہدایات پر بنائے گئے بجٹ سے عوام پہلے ہی خوفزدہ تھے اور انھیں امید تھی کہ بظاہر عوام سے ہمدردی ظاہر کرنے والی پیپلز پارٹی اور اس کے صدر مملکت مداخلت کرکے مزید ٹیکسوں سے بڑھنے والی مہنگائی سے عوام کو بچائیں گے مگر سب سے بڑی حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی نے حکومت سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دلایا بلکہ بجٹ منظور کرا کر عوام پر مزید ٹیکس اور مہنگائی مسلط کرا دی اور یہ ثابت کر دیا کہ پی پی کی بجٹ مخالفت محض دکھاوا تھی، سیاسی بیانات دے کر دکھایا جا رہا تھا کہ وہ عوام کی بڑی ہمدرد ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پیپلز پارٹی دکھاوے کے بیانات دے رہی ہے اور حکومت پیپلز پارٹی کی مدد سے یہ بجٹ باآسانی منظور کرا دے گی اور عوام دیکھتے رہ جائیں گے۔ بجٹ منظور کرانے کے دو ہفتے بعد خورشید شاہ کا یہ بیان عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر ہے کہ (ن) لیگ کی جانب سے بجٹ تیاری پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ان تحفظات کے باوجود پیپلز پارٹی نے بجٹ منظور کرایا اور صدر زرداری نے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ کی طرح ایوان صدر کا بجٹ بھی بڑھوا لیا اور ثابت کر دیا کہ حکومتی اخراجات کم کرنے کے بجائے اخراجات بڑھوانے میں دونوں پارٹیاں اندر سے ملی ہوئی تھیں اور بجٹ کی مخالفت سیاسی ڈرامہ تھا۔
بجٹ سے قبل ہی عوام کو پتا تھا کہ مزید قرض دینے کے لیے آئی ایم ایف اپنی مرضی کا بجٹ بنوائے گا جس میں مزید ٹیکس لگیں گے جس سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔ پیپلز پارٹی بھی حقائق سے باخبر تھی اسی لیے (ن) لیگ نے پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر وزیر خزانہ سے عوام دشمن بجٹ بنوایا جو پیپلز پارٹی نے منظور کرایا اور اب بھی کہا جا رہا ہے کہ (ن) لیگ نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا اور ہمارے تحفظات اب بھی برقرار ہیں جب کہ بجٹ پر عمل درآمد بھی ہو گیا ہے اور خورشید شاہ کا بیان مضحکہ خیز ہے۔مسلم لیگ (ن) کو بجٹ کے حقائق کا علم تھا مگر اسے پیپلز پارٹی کو بجٹ پر اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔
وزیر اعظم کو صدر مملکت اور بلاول بھٹو سے مشاورت کرنی چاہیے تھی جو ممکن ہے ہوئی بھی ہو ، اگر ایسا نہیں ہوا تو پیپلز پارٹی کو دکھاوے کی مخالفت کا موقعہ مل گیا ۔ (ن) لیگ اب سادہ اکثریت کی حامل پارٹی بھی نہیں ہے مگر وہ اتحادیوں سے مشاورت نہیں کر رہی اسی لیے (ن) لیگ نے پیپلز پارٹی کو نظرانداز کیا۔ سولو فلائٹ کی اور عوام بجٹ پر شدید غم و غصے کا شکار ہیں۔ اگر وہ پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لے لیتی تب بھی بجٹ یہی آنا تھا مگر اسے یقین تھا کہ پیپلز پارٹی بجٹ ہر حالت میں منظور کرائے گی اور پی پی نے بجٹ تحفظات کے باوجود منظور کرا دیا اور (ن) لیگ عوام سے تنقید سننے کے لیے تنہا چھوڑ دیا اور صدر زرداری کو موقعہ دیا کہ وہ کہیں کہ (ن) لیگ سے حکومت نہیں چل رہی۔
حکومت (ن) لیگ چلا ہی نہیں رہی۔ حکومت تو کہیں اور سے چلائی جا رہی ہے جن کا اپنا وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ ہے اور میاں نواز شریف اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنوانے میں ناکام رہنے کے بعد اسی بے اختیار ڈپٹی وزیر اعظم کی تقرری پر خوش ہیں کہ وزیر اعظم ان کا بھائی اور ان کا ڈپٹی وزیر خارجہ کے ساتھ کہنے کی حد تک ڈپٹی وزیر اعظم ہے جو (ن) لیگ کی ماضی کی حکومت کا وزیر خزانہ رہا کرتا تھا۔
وزیر اعظم کے مقابلے میں آصف زرداری نے ایسا عہدہ لیا جو صرف آئینی ہے ۔ شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومتی کارکردگی نے ملک میں (ن) لیگ کو ہروایا مگر دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لیے شہباز شریف نے دوبارہ یہ عہدہ جان بوجھ کر لیا اور چار ماہ سے وہ عوام کی تنقید سننے میں مصروف اور میاں نواز شریف خاموش ہیں۔ ان حالات میں (ن) لیگی خود بھی مطمئن نہیں اور حکومتی پالیسی پر تنقید بھی کر رہے ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں کہ پالیسیاں کہیں اور سے آ رہی ہیں جن سے مسلم لیگ (ن) بدنام ہو رہی ہے مگر اتحادیوں کی دھمکیاں اتنی کارگر ہوئی ہیں کہ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ دباؤ میں نہیں آؤں گا بلکہ استعفیٰ دے دوں گا۔ ان کی یہ دھمکی بھی پیپلز پارٹی جیسی ہے کہ مخالفت بھی کرتی ہے اور بجٹ بھی پاس کرا دیتی ہے تاکہ تنہا مسلم لیگ ن والے عوام کی بددعائیں وصول کرتے رہیں۔