موسمیاتی تبدیلیاں اور ہیٹ ویو
گلوبل کلائمیٹ رسک کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے
عالمی ماہرین کا تجزیہ یہ ہے کہ 2080 تک دنیا کے چار ہزار سے زائد چھوٹے بڑے شہر بدترین ہیٹ ویو کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ یہ وقت تو بہت دور ہے۔ حالیہ تجزیہ کے مطابق موجودہ ہیٹ ویو سے لاہور کے شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ دس سال بعد لاہور رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ پھر لاہوری کہاں ہجرت کریں گے۔
جغرافیائی طور پر پاکستان اس خطے میں واقع ہے جہاں سورج خط استوا سے گزرتا ہے۔ یعنی سورج سوا نیزے کی طرح اس پر مسلط ہے۔ ماحولیاتی تباہی نے موسم گرما کی طوالت 8مہینوں پر پھیلا دی ہے اوپر سے ہر سال بڑھتا ہوا درجہ حرارت کوئی جائے اماں نہیں۔ اب تو سرد پہاڑی مقام بھی گرم ہونے لگے ہیں۔ گلیشئر پگھلنے سے پہاڑ گنجے نظر آنے لگے ہیں۔
گلوبل کلائمیٹ رسک کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے یا کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ صنعتی طور پر بڑے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے جنون نے زمین کو جہنم بنا دیا ہے۔
پاکستان بچارے پر تو وہ مثال صادق آتی ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ انتہائی ترقی یافتہ بڑے صنعتی ممالک کے کاربن اور دوسری زہریلی گیسوں کے اخراج کے باعث ہی 2022کے سیلاب میں پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کا سامنا کرنا پرا۔ مزید یہ کہ دوسری تباہیوں کے علاوہ 2018تک موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دس ہزار سے زائد اموات ہوئیں جس سے قومی معیشت کو 4 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اتنے بڑے نقصان کے باوجود جو بڑے ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے ہوئیں کوئی بھی اس نقصان کا ازالہ کرنے کو تیار نہیں۔
عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں 90 لاکھ کے قریب افراد کا خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔ جب کہ پاکستان میں پہلے ہی 10کروڑ افراد خط غربت سے نیچے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث فصلوں کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ چنانچہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہی پاکستان 5 سال کے مختصر عرصہ میں گندم برآمد کرنے سے گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ موسمیاتی تبدیلی نے پوری دنیا میں بارشوں کے نظام کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ ریگستانوں میں برف باری اور بارش ہو رہی ہے ۔ جہاں بارشیں ہوتی تھیں وہ علاقے خشک سالی کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی کی قلت ہو گئی ہے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ کیا ترقی ہے۔ اگلے چند سالوں میں پاکستان کی آبادی امریکا سے بڑھ جائے گی۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے جہاں غذائی قلت کے خطرہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہیں پر ہر اضافی شخص کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی غذائی قلت اور قحط کا باعث بن سکتی ہے جس کی ہلکی سی جھلک ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث افریقہ کے کئی علاقے قحط کا شکار ہو چکے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی و جہ سے پاکستان بھی اس خطرناک صورتحال کی طرف بڑی تیزی سے جا رہا ہے۔ اس وقت ہماری شرح آبادی اور شرح ترقی برابر ہو گئی ہے۔ یعنی ہماری ترقی کی شرح اب صفر ہے۔ بڑھتی ہوئی بے تحاشا آبادی نے ہمیں انتہائی غریب ملکوں کی صف میں لا پھینکا ہے۔
آئی پی پیز کے حوالے سے مزید ہوش ربا انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ سابق نگران وزیر گوہر اعجاز نے انکشاف کیا ہے کہ 80% فیصد نجی بجلی گھروں کے مالک پاکستانی ہیں۔ جن کا تعلق 40 خاندانوں سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کی پناہ صرف ایک آئی پی پی کو کیپسٹی کی مد میں صرف ایک سال کے عرصے میں 200 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ گوہر اعجاز نے یہ بات زور دے کر کہی کہ بعض آئی پی پیز کو صرف ایک یونٹ کی ادائیگی حکومت 750 روپے میں کر رہی ہے۔
مزید ہوش ربا انکشاف یہ کیا کہ چار پاور پلانٹس ایسے ہیں جنھیں ایک ایک ہزار کروڑ روپے مہینے کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ مگر ان سے زیرو بجلی لی گئی ۔ مطلب یہ کہ یہ پلانٹس بند پڑے ہیں یہ غارت گری لوٹ مار صرف پاکستان میں ہی ہو سکتی ہے۔ چند دن پیشتر ہی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب نے بھی یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ 42 آئی پی پیز موجودہ حکمران اشرافیہ کی ملکیت ہیں۔ ان کمپنیوں میں بے پناہ کرپشن کے سبب انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ اس خوفناک کرپشن کے سبب ان کا اسپیشل آڈٹ ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے خبردار کیا ہے کہ انسانیت شدید گرمی کی ''وبا'' کا شکار ہے۔ 24-25 جولائی دنیا کے گرم ترین دن تھے۔ اس سال آخر کار امریکا بھی بُرے وقت میں داخل ہو جائے گا۔
جغرافیائی طور پر پاکستان اس خطے میں واقع ہے جہاں سورج خط استوا سے گزرتا ہے۔ یعنی سورج سوا نیزے کی طرح اس پر مسلط ہے۔ ماحولیاتی تباہی نے موسم گرما کی طوالت 8مہینوں پر پھیلا دی ہے اوپر سے ہر سال بڑھتا ہوا درجہ حرارت کوئی جائے اماں نہیں۔ اب تو سرد پہاڑی مقام بھی گرم ہونے لگے ہیں۔ گلیشئر پگھلنے سے پہاڑ گنجے نظر آنے لگے ہیں۔
گلوبل کلائمیٹ رسک کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے یا کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ صنعتی طور پر بڑے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے جنون نے زمین کو جہنم بنا دیا ہے۔
پاکستان بچارے پر تو وہ مثال صادق آتی ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ انتہائی ترقی یافتہ بڑے صنعتی ممالک کے کاربن اور دوسری زہریلی گیسوں کے اخراج کے باعث ہی 2022کے سیلاب میں پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کے نقصان کا سامنا کرنا پرا۔ مزید یہ کہ دوسری تباہیوں کے علاوہ 2018تک موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دس ہزار سے زائد اموات ہوئیں جس سے قومی معیشت کو 4 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اتنے بڑے نقصان کے باوجود جو بڑے ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے ہوئیں کوئی بھی اس نقصان کا ازالہ کرنے کو تیار نہیں۔
عالمی اداروں کی تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں 90 لاکھ کے قریب افراد کا خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔ جب کہ پاکستان میں پہلے ہی 10کروڑ افراد خط غربت سے نیچے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث فصلوں کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ چنانچہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہی پاکستان 5 سال کے مختصر عرصہ میں گندم برآمد کرنے سے گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ موسمیاتی تبدیلی نے پوری دنیا میں بارشوں کے نظام کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ ریگستانوں میں برف باری اور بارش ہو رہی ہے ۔ جہاں بارشیں ہوتی تھیں وہ علاقے خشک سالی کا شکار ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی کی قلت ہو گئی ہے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ کیا ترقی ہے۔ اگلے چند سالوں میں پاکستان کی آبادی امریکا سے بڑھ جائے گی۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے جہاں غذائی قلت کے خطرہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہیں پر ہر اضافی شخص کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی غذائی قلت اور قحط کا باعث بن سکتی ہے جس کی ہلکی سی جھلک ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث افریقہ کے کئی علاقے قحط کا شکار ہو چکے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی و جہ سے پاکستان بھی اس خطرناک صورتحال کی طرف بڑی تیزی سے جا رہا ہے۔ اس وقت ہماری شرح آبادی اور شرح ترقی برابر ہو گئی ہے۔ یعنی ہماری ترقی کی شرح اب صفر ہے۔ بڑھتی ہوئی بے تحاشا آبادی نے ہمیں انتہائی غریب ملکوں کی صف میں لا پھینکا ہے۔
آئی پی پیز کے حوالے سے مزید ہوش ربا انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ سابق نگران وزیر گوہر اعجاز نے انکشاف کیا ہے کہ 80% فیصد نجی بجلی گھروں کے مالک پاکستانی ہیں۔ جن کا تعلق 40 خاندانوں سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کی پناہ صرف ایک آئی پی پی کو کیپسٹی کی مد میں صرف ایک سال کے عرصے میں 200 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔ گوہر اعجاز نے یہ بات زور دے کر کہی کہ بعض آئی پی پیز کو صرف ایک یونٹ کی ادائیگی حکومت 750 روپے میں کر رہی ہے۔
مزید ہوش ربا انکشاف یہ کیا کہ چار پاور پلانٹس ایسے ہیں جنھیں ایک ایک ہزار کروڑ روپے مہینے کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ مگر ان سے زیرو بجلی لی گئی ۔ مطلب یہ کہ یہ پلانٹس بند پڑے ہیں یہ غارت گری لوٹ مار صرف پاکستان میں ہی ہو سکتی ہے۔ چند دن پیشتر ہی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب نے بھی یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ 42 آئی پی پیز موجودہ حکمران اشرافیہ کی ملکیت ہیں۔ ان کمپنیوں میں بے پناہ کرپشن کے سبب انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ اس خوفناک کرپشن کے سبب ان کا اسپیشل آڈٹ ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے خبردار کیا ہے کہ انسانیت شدید گرمی کی ''وبا'' کا شکار ہے۔ 24-25 جولائی دنیا کے گرم ترین دن تھے۔ اس سال آخر کار امریکا بھی بُرے وقت میں داخل ہو جائے گا۔