دنیا کا سب سے خوش قسمت کرکٹر
اگر بھارت آج ہارنا شروع ہوجائے تو چند ماہ بعد ہی اس کے اسپانسرز بھاگنے لگیں گے
ورلڈکپ کی سب سے کمزور ٹیم امریکا کیخلاف پاکستان کا میچ جاری ہے جسے سابق چیمپئن ٹیم نے اپنی کوتاہیوں سے سپراوور تک پہنچا دیا، ایسے میں کپتان بابر اعظم نے گیند محمد عامر کی جانب اچھالی، انھیں یقین تھا کہ اپنے وسیع تر تجربے سے سینئر پیسر کم رنز دیں گے یوں فتح کا امکان بڑھ جائے گا، پہلی گیند پر چوکا لگا اور پھر بیٹرز کو کسی باؤنڈری کا موقع ہی نہ ملا،البتہ امریکی ٹیم نے سپراوور میں 18 رنز بنا لیے،اس میں وائیڈ کے 7 رنز بھی شامل تھے،اس سے پاکستانی ٹیم دباؤ میں آ گئی اور امریکا نے میچ جیت کر کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کر دیا.
اس میچ کی وجہ سے گرین شرٹس ورلڈکپ کے پہلے مرحلے سے باہر ہوئے، اگر جیت جاتے تو سیمی فائنل تک پہنچنا بھی ممکن تھا، پاکستان کے پاس پیس اٹیک میں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف موجود تھے، کئی نوجوان کھلاڑی پورے سال ڈومیسٹک کرکٹ میں محنت کرتے رہے کہ شاید ورلڈکپ کھیلنے کا موقع مل جائے لیکن نجانے کس کے مشورہ پر پیراشوٹ سے عامر کو براہ راست پاکستانی کیمپ میں اتار دیا گیا، اسی طرح عماد اور غیرملکی کرکٹر کی حیثیت سے پی ایس ایل کھیلنے والے عثمان خان کی بھی انٹری ہوئی،تینوں ورلڈکپ میں بدترین ناکامی کا شکار ہوئے.
پاکستانی شکست کی اہم ترین وجہ یہی تھی، اگر منصفانہ سلیکشن ہوتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، دکھاوے کے لیے وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو سلیکشن کمیٹی سے ہٹا دیا گیا، وہاب کے بدستور لاڈلے ہونے کا ثبوت ان کی مالدیپ کے خوبصورت جزیرے پر آئی سی سی ہائی پرفارمنس ورکشاپ میں نامزدگی ہے، جلد انھیں کوئی پوسٹ بھی مل جائے گی، البتہ سب سے زیادہ فائدے میں عامر رہے، ورلڈکپ بھی کھیل لیا اور اب لیگز میں شرکت سے دونوں ہاتھوں سے پاؤنڈز اور ڈالرز کما رہے ہیں.
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی ہفتے میں وہ تین مختلف ایونٹس کے دوران ایکشن میں نظر آئے، انھیں کسی این او سی کی ضرورت نہیں تھی، انھوں نے سب کو احمق سمجھا ہوا ہے جب دل چاہا ریٹائرمنٹ واپس لے کرپاکستان کیلیے ورلڈکپ کھیل لیا، ایونٹ ختم ہوا تو پھر سابقہ اسٹیٹس پر واپس آ کر کسی این او سی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، یہ کیا مذاق ہے، ایک طرف آپ نے بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور محمد رضوان کو کینیڈا لیگ کھیلنے کی اجازت نہیں دی دوسری جانب عامر کو آزاد چھوڑ دیا،اس سے ان تینوں سمیت تمام کرکٹرز کو کیا پیغام دیا گیا کہ لیگز کھیلنی ہیں تو تم لوگ بھی ریٹائر ہو جاؤ ، اپنی مرضی سے جب ملک کی نمائندگی کرنا ہو کرنا باقی ڈالرز کماتے رہو، عامر کو جب ٹیم میں لیا تو ان سے بھی چاہے 6 یا 3 ماہ کا سینٹرل کنٹریکٹ بھی سائن کراتے تاکہ ان پر بھی تمام شرائط کا اطلاق ہوتا،
میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس وقت سینئر کرکٹرز کی کیا حالت ہوگی، وہ جلے بھنے بیٹھے ہوں گے لیکن ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ بورڈ سے شرائط منوا سکیں، اس لیے اچھے وقت کا انتظار ہی کر رہے ہوں گے، البتہ حکام کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے، ایک کے ساتھ خصوصی سلوک اور دیگر کو سبق سکھانا درست نہیں، ورلڈکپ اگر ہارے تو اس میں عامر کا بھی برابر کا کردار تھا، وہ کیسے اتنی لیگز کھیل رہے ہیں، کدھر ہے شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ؟ چیئرمین کو چاہیے یہاں کسی تگڑی شخصیت کا تقرر کریں.
صرف سنیارٹی کو دیکھا جائے تو ہر ادارے کا سی ای او چائے پلانے والا شرفو بابا ہو، چاہے این او سی کا معاملہ ہو یا ورلڈکپ کے وارم اپ میچز سے محرومی سب میں انٹرنیشنل کرکٹ ڈپارٹمنٹ کی کوتاہی نمایاں ہے، ورلڈکپ کے بعد پاکستان کرکٹ مزید پیچھے چلی گئی ہے، آپ دیکھ لیں انٹرنیشنل میڈیا رائٹس بھی کوئی خریدنے کو تیار نہیں، زیادہ پیسوں کی طلب میں چند ماہ پہلے جو بڈ منسوخ کی اب اس کے آدھے بھی نہیں مل رہے، کسی بھی بورڈ کی کمائی کا راز ٹیم کی اچھی کارکردگی ہی ہے.
اگر بھارت آج ہارنا شروع ہوجائے تو چند ماہ بعد ہی اس کے اسپانسرز بھاگنے لگیں گے،اس لیے پاکستان کو ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جا رہا، عثمان خان مسلسل ناکام رہے مگر انھیں دورئہ آسٹریلیا کیلیے شاہینز (پاکستان اے) کے اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا، ایک طرف آپ ڈومیسٹک کرکٹ کو قومی ٹیم میں رسائی کی کنجی قراردے رہے ہیں، دوسری جانب عثمان خان جیسے پلیئرز کے پاس پیراشوٹ ہی پیراشوٹ پہنچ رہے ہیں تو اس سے حقدار کرکٹرز کی مسلسل حق تلفی ہی ہو رہی ہے ناں،ان کے آنسو کون پونچھے گا.
عامر کو تو میں پاکستان کا سب سے خوش قسمت کرکٹر قرار دیتا ہوں، پیسے لے کر نوبالز کیں جو دنیا نے دیکھیں مگر بچہ بچہ کہہ کر معاف کر دیا گیا، جیل تک ہو آئے لیکن ملک میں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، پاکستان کیلیے کھیلنا چھوڑ دیا لیکن چاہنے والے کم نہ ہوئے، ایسا دنیا میں کیا کسی اور پلیئر کے ساتھ ہوا ہے؟ محمد آصف اب امریکا میں گمنامی کی زندگی گذار رہے ہیں، چھوٹے لیول کے ایونٹس ہی کھیلتے یا کوچنگ کرتے نظر آتے ہیں.
سلمان بٹ کو اتنے برس تک معافی نہ ملی،اس میں ان کا اپنا قصور بھی تھا کیونکہ وہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا کا راگ الاپتے رہے، اب بھی وہ سلیکٹر بنے تو طوفان برپا ہونے پر بورڈ کو فیصلہ تبدیل کرنا پڑا، پھر بھی ایک محدود حد تک سلمان کرکٹنگ سرگرمیاں شروع کر چکے ہیں، مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر گیان بانٹتے نظر آتے ہیں،اچھی نوکری بھی مل چکی، انھیں بھی چاہنے والے سب کچھ بھلا کر پاکستان کا سب سے بڑا'' کرکٹنگ دماغ'' قرار دیتے ہیں،ان کا بس چلے تو سلمان کو نیشنل کوچ بنا دیں، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کمزور یادداشت ہی ہے، خیر پی سی بی کو اب سوچنا چاہیے کہ آگے کیا کرنا ہے، عامر جیسے کھلاڑیوں کو لاڈلا بنا کر رکھنا ہے یا ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والوں کی صلاحیتوں کو نکھار کر عامر سے بھی اچھے بولرز تیار کرنا ہے، اگر آپشن ٹو پسند آیا تو پھر اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی کرنا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اس میچ کی وجہ سے گرین شرٹس ورلڈکپ کے پہلے مرحلے سے باہر ہوئے، اگر جیت جاتے تو سیمی فائنل تک پہنچنا بھی ممکن تھا، پاکستان کے پاس پیس اٹیک میں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف موجود تھے، کئی نوجوان کھلاڑی پورے سال ڈومیسٹک کرکٹ میں محنت کرتے رہے کہ شاید ورلڈکپ کھیلنے کا موقع مل جائے لیکن نجانے کس کے مشورہ پر پیراشوٹ سے عامر کو براہ راست پاکستانی کیمپ میں اتار دیا گیا، اسی طرح عماد اور غیرملکی کرکٹر کی حیثیت سے پی ایس ایل کھیلنے والے عثمان خان کی بھی انٹری ہوئی،تینوں ورلڈکپ میں بدترین ناکامی کا شکار ہوئے.
پاکستانی شکست کی اہم ترین وجہ یہی تھی، اگر منصفانہ سلیکشن ہوتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، دکھاوے کے لیے وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو سلیکشن کمیٹی سے ہٹا دیا گیا، وہاب کے بدستور لاڈلے ہونے کا ثبوت ان کی مالدیپ کے خوبصورت جزیرے پر آئی سی سی ہائی پرفارمنس ورکشاپ میں نامزدگی ہے، جلد انھیں کوئی پوسٹ بھی مل جائے گی، البتہ سب سے زیادہ فائدے میں عامر رہے، ورلڈکپ بھی کھیل لیا اور اب لیگز میں شرکت سے دونوں ہاتھوں سے پاؤنڈز اور ڈالرز کما رہے ہیں.
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی ہفتے میں وہ تین مختلف ایونٹس کے دوران ایکشن میں نظر آئے، انھیں کسی این او سی کی ضرورت نہیں تھی، انھوں نے سب کو احمق سمجھا ہوا ہے جب دل چاہا ریٹائرمنٹ واپس لے کرپاکستان کیلیے ورلڈکپ کھیل لیا، ایونٹ ختم ہوا تو پھر سابقہ اسٹیٹس پر واپس آ کر کسی این او سی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، یہ کیا مذاق ہے، ایک طرف آپ نے بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور محمد رضوان کو کینیڈا لیگ کھیلنے کی اجازت نہیں دی دوسری جانب عامر کو آزاد چھوڑ دیا،اس سے ان تینوں سمیت تمام کرکٹرز کو کیا پیغام دیا گیا کہ لیگز کھیلنی ہیں تو تم لوگ بھی ریٹائر ہو جاؤ ، اپنی مرضی سے جب ملک کی نمائندگی کرنا ہو کرنا باقی ڈالرز کماتے رہو، عامر کو جب ٹیم میں لیا تو ان سے بھی چاہے 6 یا 3 ماہ کا سینٹرل کنٹریکٹ بھی سائن کراتے تاکہ ان پر بھی تمام شرائط کا اطلاق ہوتا،
میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس وقت سینئر کرکٹرز کی کیا حالت ہوگی، وہ جلے بھنے بیٹھے ہوں گے لیکن ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ بورڈ سے شرائط منوا سکیں، اس لیے اچھے وقت کا انتظار ہی کر رہے ہوں گے، البتہ حکام کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے، ایک کے ساتھ خصوصی سلوک اور دیگر کو سبق سکھانا درست نہیں، ورلڈکپ اگر ہارے تو اس میں عامر کا بھی برابر کا کردار تھا، وہ کیسے اتنی لیگز کھیل رہے ہیں، کدھر ہے شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ؟ چیئرمین کو چاہیے یہاں کسی تگڑی شخصیت کا تقرر کریں.
صرف سنیارٹی کو دیکھا جائے تو ہر ادارے کا سی ای او چائے پلانے والا شرفو بابا ہو، چاہے این او سی کا معاملہ ہو یا ورلڈکپ کے وارم اپ میچز سے محرومی سب میں انٹرنیشنل کرکٹ ڈپارٹمنٹ کی کوتاہی نمایاں ہے، ورلڈکپ کے بعد پاکستان کرکٹ مزید پیچھے چلی گئی ہے، آپ دیکھ لیں انٹرنیشنل میڈیا رائٹس بھی کوئی خریدنے کو تیار نہیں، زیادہ پیسوں کی طلب میں چند ماہ پہلے جو بڈ منسوخ کی اب اس کے آدھے بھی نہیں مل رہے، کسی بھی بورڈ کی کمائی کا راز ٹیم کی اچھی کارکردگی ہی ہے.
اگر بھارت آج ہارنا شروع ہوجائے تو چند ماہ بعد ہی اس کے اسپانسرز بھاگنے لگیں گے،اس لیے پاکستان کو ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جا رہا، عثمان خان مسلسل ناکام رہے مگر انھیں دورئہ آسٹریلیا کیلیے شاہینز (پاکستان اے) کے اسکواڈ میں شامل کر لیا گیا، ایک طرف آپ ڈومیسٹک کرکٹ کو قومی ٹیم میں رسائی کی کنجی قراردے رہے ہیں، دوسری جانب عثمان خان جیسے پلیئرز کے پاس پیراشوٹ ہی پیراشوٹ پہنچ رہے ہیں تو اس سے حقدار کرکٹرز کی مسلسل حق تلفی ہی ہو رہی ہے ناں،ان کے آنسو کون پونچھے گا.
عامر کو تو میں پاکستان کا سب سے خوش قسمت کرکٹر قرار دیتا ہوں، پیسے لے کر نوبالز کیں جو دنیا نے دیکھیں مگر بچہ بچہ کہہ کر معاف کر دیا گیا، جیل تک ہو آئے لیکن ملک میں سر آنکھوں پر بٹھایا گیا، پاکستان کیلیے کھیلنا چھوڑ دیا لیکن چاہنے والے کم نہ ہوئے، ایسا دنیا میں کیا کسی اور پلیئر کے ساتھ ہوا ہے؟ محمد آصف اب امریکا میں گمنامی کی زندگی گذار رہے ہیں، چھوٹے لیول کے ایونٹس ہی کھیلتے یا کوچنگ کرتے نظر آتے ہیں.
سلمان بٹ کو اتنے برس تک معافی نہ ملی،اس میں ان کا اپنا قصور بھی تھا کیونکہ وہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا کا راگ الاپتے رہے، اب بھی وہ سلیکٹر بنے تو طوفان برپا ہونے پر بورڈ کو فیصلہ تبدیل کرنا پڑا، پھر بھی ایک محدود حد تک سلمان کرکٹنگ سرگرمیاں شروع کر چکے ہیں، مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر گیان بانٹتے نظر آتے ہیں،اچھی نوکری بھی مل چکی، انھیں بھی چاہنے والے سب کچھ بھلا کر پاکستان کا سب سے بڑا'' کرکٹنگ دماغ'' قرار دیتے ہیں،ان کا بس چلے تو سلمان کو نیشنل کوچ بنا دیں، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کمزور یادداشت ہی ہے، خیر پی سی بی کو اب سوچنا چاہیے کہ آگے کیا کرنا ہے، عامر جیسے کھلاڑیوں کو لاڈلا بنا کر رکھنا ہے یا ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والوں کی صلاحیتوں کو نکھار کر عامر سے بھی اچھے بولرز تیار کرنا ہے، اگر آپشن ٹو پسند آیا تو پھر اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی کرنا چاہیے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)