بات کچھ اِدھر اُدھر کی کہیں رمضان ہم سے روٹھ نہ جائے
ہمارے درمیان جس چیز میں بالعموم اتفاق پایا جاتا ہے اس کو بھرپور انداز سے منانے کیلیے ہمیں اپنی قوتیں صرف کرنی چاہیے
آج صبح ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی... کہنے لگا کہ رمضان کا وہ ماحول نظر نہیں آرہا ہے جو نظر آنا چاہیے...یہ چیز میں خود کئی دنوں سے محسوس کر رہا تھا۔ رمضان کے حوالے سے ایک خاص قسم کا جو ماحول اس معاشرے کے چہار دانگ عالم میں پھیلا ہوتا تھا وہ کہیں مفقود نظر آرہا ہے۔
موبائل کے پیغامات نہ آئے اور فیس بک کا اکائونٹ نہ کھولا جائے تو آپ کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوگا کہ رمضان شروع ہوگیا ہے یا ہونے والا ہے۔ آج سے چھ سات سال پہلے تک فیس بک موجود تھا نہ موبائل پیغامات کی گردش عام تھی... لیکن اس سب کے باوجود پورے شہر میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی ہوتی تھی کہ رمضان آرہا ہے... بچوں کی خوشی الگ دیدنی ہوتی تھی۔ نوجوان مذہب کے معاملے میں جذباتی ہوجاتے تھے۔خواتین خوشی خوشی افطاری اور سحری کا بھرپور اہتمام کرتی تھیں۔ تلاوت کلام پاک کی کثرت اور دعائیں مانگنے میں رقت آجاتی تھیں۔
اسے ہماری بدقسمتی کہیے یا ستم ظریفی کہ ہمارے حکمران بھی اس مہینے کو چنداں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں... کھائو پیو اور موج اڑائو والے یہ حرماں نصیبے کسی اور کاموں میں ہی نظر آتے ہیں... دیگر ممالک میں کرسمس اور دیگر تہواروں کے موقع پر اشیائے خورونوش انتہائی سستی ہوجاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں رمضان کمائی اور دھندے کا سیزن بن چکا ہے... وہی عوام جو جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیتے ہیں...وہ پھر جھولیاں بھر بھر کا گالیاں اور بددعائیں بھی دے رہے ہوتے ہیں...
لبنان کے ایک شہر کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا... رمضان کی مناسبت سے انتہائی خوب صورت انداز میں شاہراہ کو برقی قمقموں سے سجا رکھا تھا۔ کراچی اگر چہ دلّی نہیں ہے لیکن اس کا دل دلّی سے زیادہ بڑا ہے۔ میرے دوست ایک دفع بتانے لگے کہ کراچی جیسے شہر میں جو ساری دنیا بلکہ پاکستان کے بہت سارے علاقوں کے رہنے والوں کے لیے خوف ناک سمجھا جاتا ہے لیکن رمضا ن کریم کی برکت سے یہاں کے سب فرق مٹ جاتے ہیں۔ اذان مغرب سے ایک منٹ قبل جب بسیں اور گاڑیاں رکتی ہیں تو افطار کا سامان سنبھالے بیٹھے لوگ دوڑ دوڑ کر لوگوں کو بلاتے ہیں اور کوئی کسی سے یہ نہیں پو چھتا کہ تم کونسی زبان بولنے والے ہواور نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ تمہارا مسلک کیا ہے۔ یہا ں سب ایک کلمے کے رشتے میں بندھے ایک دوسرے پر محبتیں نچھاور کرتے ہیں اپنی پیاس بجھا نے سے پہلے اپنے بھائی کو سیراب کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ اسلا می اخوت اور بھائی چارے کا یہ منظر بھلا دیتا ہے کہ یہاں تقسیم در تقسیم انتہائی نہج پر پھیلائی جاچکی ہے۔ مگر اس ماہ مبارک کی رحمت اوردینی رشتے کی طا قت اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن اس سب کے باوجود مجھے یوں نظر آتا ہے کہ رمضان اس شہر والوں سے روٹھ گیا ہے... کیوں کہ یہ اس کا استقبال کا حق ادا نہیں کررہے...اور یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے...اگر چہ شہر کے مختلف حصوں میں استقبال رمضان کے حوالے سے پروگرامات ہوتے رہے لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے... ہمارے درمیان جس چیز میں بالعموم اتفاق پایا جا رہا ہے کم از کم اس کو مل کر اور بھرپور انداز سے منانے کے لیے ہمیں اپنی قوتیں صرف کرنی چاہیے۔ تاکہ رمضان ہم سے روٹھ نہ جائے۔
موبائل کے پیغامات نہ آئے اور فیس بک کا اکائونٹ نہ کھولا جائے تو آپ کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوگا کہ رمضان شروع ہوگیا ہے یا ہونے والا ہے۔ آج سے چھ سات سال پہلے تک فیس بک موجود تھا نہ موبائل پیغامات کی گردش عام تھی... لیکن اس سب کے باوجود پورے شہر میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی ہوتی تھی کہ رمضان آرہا ہے... بچوں کی خوشی الگ دیدنی ہوتی تھی۔ نوجوان مذہب کے معاملے میں جذباتی ہوجاتے تھے۔خواتین خوشی خوشی افطاری اور سحری کا بھرپور اہتمام کرتی تھیں۔ تلاوت کلام پاک کی کثرت اور دعائیں مانگنے میں رقت آجاتی تھیں۔
اسے ہماری بدقسمتی کہیے یا ستم ظریفی کہ ہمارے حکمران بھی اس مہینے کو چنداں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں... کھائو پیو اور موج اڑائو والے یہ حرماں نصیبے کسی اور کاموں میں ہی نظر آتے ہیں... دیگر ممالک میں کرسمس اور دیگر تہواروں کے موقع پر اشیائے خورونوش انتہائی سستی ہوجاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں رمضان کمائی اور دھندے کا سیزن بن چکا ہے... وہی عوام جو جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیتے ہیں...وہ پھر جھولیاں بھر بھر کا گالیاں اور بددعائیں بھی دے رہے ہوتے ہیں...
لبنان کے ایک شہر کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا... رمضان کی مناسبت سے انتہائی خوب صورت انداز میں شاہراہ کو برقی قمقموں سے سجا رکھا تھا۔ کراچی اگر چہ دلّی نہیں ہے لیکن اس کا دل دلّی سے زیادہ بڑا ہے۔ میرے دوست ایک دفع بتانے لگے کہ کراچی جیسے شہر میں جو ساری دنیا بلکہ پاکستان کے بہت سارے علاقوں کے رہنے والوں کے لیے خوف ناک سمجھا جاتا ہے لیکن رمضا ن کریم کی برکت سے یہاں کے سب فرق مٹ جاتے ہیں۔ اذان مغرب سے ایک منٹ قبل جب بسیں اور گاڑیاں رکتی ہیں تو افطار کا سامان سنبھالے بیٹھے لوگ دوڑ دوڑ کر لوگوں کو بلاتے ہیں اور کوئی کسی سے یہ نہیں پو چھتا کہ تم کونسی زبان بولنے والے ہواور نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ تمہارا مسلک کیا ہے۔ یہا ں سب ایک کلمے کے رشتے میں بندھے ایک دوسرے پر محبتیں نچھاور کرتے ہیں اپنی پیاس بجھا نے سے پہلے اپنے بھائی کو سیراب کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ اسلا می اخوت اور بھائی چارے کا یہ منظر بھلا دیتا ہے کہ یہاں تقسیم در تقسیم انتہائی نہج پر پھیلائی جاچکی ہے۔ مگر اس ماہ مبارک کی رحمت اوردینی رشتے کی طا قت اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن اس سب کے باوجود مجھے یوں نظر آتا ہے کہ رمضان اس شہر والوں سے روٹھ گیا ہے... کیوں کہ یہ اس کا استقبال کا حق ادا نہیں کررہے...اور یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے...اگر چہ شہر کے مختلف حصوں میں استقبال رمضان کے حوالے سے پروگرامات ہوتے رہے لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے... ہمارے درمیان جس چیز میں بالعموم اتفاق پایا جا رہا ہے کم از کم اس کو مل کر اور بھرپور انداز سے منانے کے لیے ہمیں اپنی قوتیں صرف کرنی چاہیے۔ تاکہ رمضان ہم سے روٹھ نہ جائے۔