پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینیں طبی سہولیات سے محروم
ٹرین میں کسی مسافر کو ہنگامی بنیادوں پر طبی مسئلہ درپیش آجائے تو ریلوے کے پاس کوئی سہولت موجود نہیں
ملک میں آمد و رفت کا بڑا ذریعہ پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینیں ہیں جس میں روزانہ ہزاروں مسافر سفر کرتے ہیں لیکن حیران کن صورت حال یہ ہے کہ ان ٹرینوں میں اگر کسی مسافر کو ہنگامی بنیادوں پر طبی مسئلہ درپیش آجائے تو ریلوے کے پاس کوئی میڈیکل ایمرجنسی کی سہولت موجود نہیں ہوتی اور نہ ہی ان ٹرینوں میں ڈاکٹرز یا طبی عملہ تعینات ہوتا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون نے پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہے۔
لاہور سے کراچی تیز گام میں سفر کرنے والے ایک مسافر ملک محمد ندیم بھٹہ نے بتایا کہ وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ تیز گام ایکسپریس کے اے سی بزنس کلاس میں سفر کر رہے تھے کہ دوران سفر ان کا پاوں پھسل گیا جس کی وجہ سے وہ گر گئے اور ان کے ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد شروع ہوگیا جس پر ٹرین میں موجود ریلوے حکام سے رجوع کیا تو ان کے پاس کمر کے درد کی تکلیف کی کوئی دوا موجود نہیں تھی۔ انہوں نے ریلوے حکام سے پوچھا کہ ٹرین میں ریلوے ڈاکٹر یا پیرا میڈیکل اسٹاف موجود ہے تو انہیں بتایا گیا کہ ٹرین میں صرف فرسٹ ایڈ باکس ہوتا ہے لیکن ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کوئی طبی سہولت موجود نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ درد کی تکلیف کو برداشت کرتے رہے، ایک عزیز کو ٹیلیفون کیا تو وہ ملتان اسٹیشن پر درد کو دور کرنے کے لیے گولیاں لے کر آیا، جسے کھانے کے بعد میری تکلیف کم ہوئی۔ اس کے بعد میں کراچی پہنچ گیا، جہاں متعلقہ ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد میں نے اپنا علاج کروایا۔ انہوں نے اس معاملے پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کوئی طبی سہولت موجود نہیں ہے۔
کراچی سے فیصل آباد جانے والی ایک خاتون صباء سلطانہ نے بتایا کہ وہ اپنی صاحبزادی کے ہمراہ قراقرم ایکسپریس اکانومی کلاس میں سفر کر رہی تھیں، میں بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں اس لیے مشین میرے پاس موجود تھی، جس سے میں نے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر زیادہ ہوگیا ہے لیکن میرے پاس بلڈ پریشر کی دوا موجود نہیں تھی کیونکہ میں دوا رکھنا بھول گئی تھی۔ ریلوے حکام کے پاس بھی بلڈ پریشر کی ادویات موجود نہیں تھیں اور نہ ہی میڈیکل کی کوئی سہولت دستیاب تھی۔ اسی ڈبے میں ایک خاتون نے مجھے بلڈ پریشر کی دوا دی۔ یہ اتفاق تھا کہ جو گولی میں کھاتی تھی، وہی دوا وہ خاتون بھی استعمال کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان ریلوے کی ٹرینوں میں ڈاکٹرز موجود نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی طبی امداد کی سہولیات موجود ہیں۔
اس حوالے سے ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور رضی نے بتایا کہ پاکستان ریلوے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کے پاس 7 سے زیادہ ڈویژن ہیں جس میں کراچی، سکھر، ملتان، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان ریلوے کی مین لائن پر 22 مسافر ٹرینیں چلتی تھیں جن میں سے 4 بند ہوگئی ہیں اور 18 مسافر ٹرینیں اس وقت چل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں میڈیکل ایمرجنسی کی کوئی سہولت نہیں ہے، کسی ٹرین میں ڈاکٹرز یا پیرا میڈیکل اسٹاف تعینات نہیں ہوتا ہے، اگر کوئی مسافر طبی ایمرجنسی کا شکار ہو جائے تو اسے طبی امداد دینے کے لیے مسافر ٹرین میں کوئی سہولت نہیں ہوتی البتہ چند ایک ٹرینوں میں ابتدائی طبی امداد کے باکس گارڈ کے پاس ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی ادویات برائے نام ہوتی ہیں۔ اگر سنگین طبی ایمرجنسی ہو تو ضلعی انتظامیہ کی مدد لینی پڑتی ہے یا پھر کسی اسٹیشن پر گاڑی رکوا کر اس مریض کو قریبی اسپتال میں منتقل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس سنگین صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے اور ڈویژنل سطح پر ٹرین میں ریلوے کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تعینات کیا جائے۔ ٹرین میں آکسیجن اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے طبی سازو سامان اور ادویات ہونی چاہئیں۔
پاکستان ریلوے پریم یونین کے مرکزی میڈیا کوآرڈینیٹر سید شاہد اقبال نے بتایا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ریلوے کی منافع دینے والی مسافر ٹرینوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے ریلوے اسٹیشنز کو چھوڑ کر کسی چھوٹے اسٹیشنز یا مسافر ٹرینوں میں مسافروں کے لیے میڈیکل ایمرجنسی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ ریلوے کے پاس میڈیکل کا ایک پورا شعبہ موجود ہے، اگر ریلوے حکام چاہیں تو ڈاکٹرز اور طبی عملے کو مسافر ٹرینوں میں تعینات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی مسافر کے ساتھ ٹرین میں کوئی حادثہ ہوتا ہے یا طبی ایمرجنسی ہوتی ہے تو ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے اس ایمرجنسی سے نمٹا جاتا ہے۔
ریلوے حکام نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں اَپ اینڈ ڈاون ٹریکس پر 97 مسافر ٹرینیں شیڈول کے مطابق چلتی ہیں جس میں خیبر میل، تیز گام، کراچی ایکسپریس، قراقرم، خوشحال خان خٹک سمیت دیگر ٹرینیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑی مسافر ٹرینوں میں انجن اور پاور کوچ کو چھوڑ کر 19 بوگیاں لگائی جاتی ہیں جس میں اکانومی، اے سی اسٹینڈرڈ، اے سی بزنس اور اے سی سلیپر شامل ہیں۔ 19 بوگیوں والی ٹرینوں میں 850 سے 900 مسافر فی ٹرین سفر کرتے ہیں۔ ریلوے حکام نے تسلیم کیا کہ مسافر ٹرینوں میں ہنگامی طبی امداد کی کوئی مربوط سہولت دستیاب نہیں ہے۔
پاکستان ریلوے کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اور ترجمان بابر علی نے بتایا کہ اگر کسی مسافر ٹرین میں میڈیکل ایمرجنسی کی صورت ہو تو گارڈ کے پاس میڈیکل اینڈ فرسٹ ایڈ باکس ہوتا ہے، تمام اسٹیشنز پر سینیئر میڈیکل آفیسر اور طبی عملہ موجود ہوتا ہے۔ اگر مسافر کی طبیعت زیادہ خراب ہو تو ٹرین مینیجر یا گارڈ قریبی بڑے اسٹیشنز پر ہنگامی پیغام بھیجتے ہیں۔ مسافر کو فوری مذکورہ اسٹیشنز پر ریلوے کے ڈاکٹرز چیک اَپ کرتے ہیں اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ریلوے ایمبولینس کے ذریعے مسافر کو اسپتال منتقل کرکے طبی امداد دی جاتی ہے۔ چھوٹے اسٹیشنز پر ڈویژنل کنٹرول آفس کے ذریعے ٹرین گارڈ یا مینیجر کا پیغام اگر مسافر کی طبیعت خراب ہونے کے حوالے سے ملتا ہے تو پھر ریسکیو 1122 کو کال کی جاتی ہے اور اس مسافر کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال لایا جاتا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون نے پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے حوالے سے رپورٹ مرتب کی ہے۔
لاہور سے کراچی تیز گام میں سفر کرنے والے ایک مسافر ملک محمد ندیم بھٹہ نے بتایا کہ وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ تیز گام ایکسپریس کے اے سی بزنس کلاس میں سفر کر رہے تھے کہ دوران سفر ان کا پاوں پھسل گیا جس کی وجہ سے وہ گر گئے اور ان کے ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد شروع ہوگیا جس پر ٹرین میں موجود ریلوے حکام سے رجوع کیا تو ان کے پاس کمر کے درد کی تکلیف کی کوئی دوا موجود نہیں تھی۔ انہوں نے ریلوے حکام سے پوچھا کہ ٹرین میں ریلوے ڈاکٹر یا پیرا میڈیکل اسٹاف موجود ہے تو انہیں بتایا گیا کہ ٹرین میں صرف فرسٹ ایڈ باکس ہوتا ہے لیکن ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کوئی طبی سہولت موجود نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ درد کی تکلیف کو برداشت کرتے رہے، ایک عزیز کو ٹیلیفون کیا تو وہ ملتان اسٹیشن پر درد کو دور کرنے کے لیے گولیاں لے کر آیا، جسے کھانے کے بعد میری تکلیف کم ہوئی۔ اس کے بعد میں کراچی پہنچ گیا، جہاں متعلقہ ڈاکٹر کو دکھانے کے بعد میں نے اپنا علاج کروایا۔ انہوں نے اس معاملے پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کوئی طبی سہولت موجود نہیں ہے۔
کراچی سے فیصل آباد جانے والی ایک خاتون صباء سلطانہ نے بتایا کہ وہ اپنی صاحبزادی کے ہمراہ قراقرم ایکسپریس اکانومی کلاس میں سفر کر رہی تھیں، میں بلڈ پریشر کی مریضہ ہوں اس لیے مشین میرے پاس موجود تھی، جس سے میں نے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر زیادہ ہوگیا ہے لیکن میرے پاس بلڈ پریشر کی دوا موجود نہیں تھی کیونکہ میں دوا رکھنا بھول گئی تھی۔ ریلوے حکام کے پاس بھی بلڈ پریشر کی ادویات موجود نہیں تھیں اور نہ ہی میڈیکل کی کوئی سہولت دستیاب تھی۔ اسی ڈبے میں ایک خاتون نے مجھے بلڈ پریشر کی دوا دی۔ یہ اتفاق تھا کہ جو گولی میں کھاتی تھی، وہی دوا وہ خاتون بھی استعمال کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان ریلوے کی ٹرینوں میں ڈاکٹرز موجود نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی طبی امداد کی سہولیات موجود ہیں۔
اس حوالے سے ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور رضی نے بتایا کہ پاکستان ریلوے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کے پاس 7 سے زیادہ ڈویژن ہیں جس میں کراچی، سکھر، ملتان، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستان ریلوے کی مین لائن پر 22 مسافر ٹرینیں چلتی تھیں جن میں سے 4 بند ہوگئی ہیں اور 18 مسافر ٹرینیں اس وقت چل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے کی مسافر ٹرینوں میں میڈیکل ایمرجنسی کی کوئی سہولت نہیں ہے، کسی ٹرین میں ڈاکٹرز یا پیرا میڈیکل اسٹاف تعینات نہیں ہوتا ہے، اگر کوئی مسافر طبی ایمرجنسی کا شکار ہو جائے تو اسے طبی امداد دینے کے لیے مسافر ٹرین میں کوئی سہولت نہیں ہوتی البتہ چند ایک ٹرینوں میں ابتدائی طبی امداد کے باکس گارڈ کے پاس ہوتے ہیں لیکن ان میں بھی ادویات برائے نام ہوتی ہیں۔ اگر سنگین طبی ایمرجنسی ہو تو ضلعی انتظامیہ کی مدد لینی پڑتی ہے یا پھر کسی اسٹیشن پر گاڑی رکوا کر اس مریض کو قریبی اسپتال میں منتقل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس سنگین صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے اور ڈویژنل سطح پر ٹرین میں ریلوے کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تعینات کیا جائے۔ ٹرین میں آکسیجن اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے طبی سازو سامان اور ادویات ہونی چاہئیں۔
پاکستان ریلوے پریم یونین کے مرکزی میڈیا کوآرڈینیٹر سید شاہد اقبال نے بتایا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ریلوے کی منافع دینے والی مسافر ٹرینوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑے ریلوے اسٹیشنز کو چھوڑ کر کسی چھوٹے اسٹیشنز یا مسافر ٹرینوں میں مسافروں کے لیے میڈیکل ایمرجنسی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ ریلوے کے پاس میڈیکل کا ایک پورا شعبہ موجود ہے، اگر ریلوے حکام چاہیں تو ڈاکٹرز اور طبی عملے کو مسافر ٹرینوں میں تعینات کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی مسافر کے ساتھ ٹرین میں کوئی حادثہ ہوتا ہے یا طبی ایمرجنسی ہوتی ہے تو ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے اس ایمرجنسی سے نمٹا جاتا ہے۔
ریلوے حکام نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں اَپ اینڈ ڈاون ٹریکس پر 97 مسافر ٹرینیں شیڈول کے مطابق چلتی ہیں جس میں خیبر میل، تیز گام، کراچی ایکسپریس، قراقرم، خوشحال خان خٹک سمیت دیگر ٹرینیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑی مسافر ٹرینوں میں انجن اور پاور کوچ کو چھوڑ کر 19 بوگیاں لگائی جاتی ہیں جس میں اکانومی، اے سی اسٹینڈرڈ، اے سی بزنس اور اے سی سلیپر شامل ہیں۔ 19 بوگیوں والی ٹرینوں میں 850 سے 900 مسافر فی ٹرین سفر کرتے ہیں۔ ریلوے حکام نے تسلیم کیا کہ مسافر ٹرینوں میں ہنگامی طبی امداد کی کوئی مربوط سہولت دستیاب نہیں ہے۔
پاکستان ریلوے کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز اور ترجمان بابر علی نے بتایا کہ اگر کسی مسافر ٹرین میں میڈیکل ایمرجنسی کی صورت ہو تو گارڈ کے پاس میڈیکل اینڈ فرسٹ ایڈ باکس ہوتا ہے، تمام اسٹیشنز پر سینیئر میڈیکل آفیسر اور طبی عملہ موجود ہوتا ہے۔ اگر مسافر کی طبیعت زیادہ خراب ہو تو ٹرین مینیجر یا گارڈ قریبی بڑے اسٹیشنز پر ہنگامی پیغام بھیجتے ہیں۔ مسافر کو فوری مذکورہ اسٹیشنز پر ریلوے کے ڈاکٹرز چیک اَپ کرتے ہیں اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ریلوے ایمبولینس کے ذریعے مسافر کو اسپتال منتقل کرکے طبی امداد دی جاتی ہے۔ چھوٹے اسٹیشنز پر ڈویژنل کنٹرول آفس کے ذریعے ٹرین گارڈ یا مینیجر کا پیغام اگر مسافر کی طبیعت خراب ہونے کے حوالے سے ملتا ہے تو پھر ریسکیو 1122 کو کال کی جاتی ہے اور اس مسافر کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال لایا جاتا ہے۔