دنیا بھر سے ارضِ مقدس کا بے انت مرثیہ

اسرائیلی معصوموں کی ہلاکت پر ساری دنیا کی ماؤں کے کلیجے پھٹے جارہے ہیں مگر فلسطینی بچوں کاخون کسی آنکھ کو نم نہیں کرتا

تین نوجوانوں کی ہلاکت پر خون کے آنسو رونے والا بے چارہ اسرائیل صرف پچھلی ایک دہائی میں ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینی بچوں کو اپنی توسیع پسندی کی بھینٹ چڑھا چکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

DHAKA:
عالمی ضمیر تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت پر افسردہ ہے۔12 جون کی ایک سہہ پہر کو اسرائیلی بستی سے غائب ہونے والے ان تین اسرائیلی نوجوانوں کی لاشیں اسرائیل ہی کے زیرِ انتظام مقبوضہ مغربی پٹی سے ملی ہیں۔ ان نوجوانوں کی اٹھارہ روزہ تلاش میں اسرائیلی فوج نے چار سو فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں سات سال کے بچے سے لے کر ستر سال کے بوڑھے شامل ہیں۔گرفتار ہونے والے ان فلسطینیوں کی بقیہ زندگی اب اسرائیلی کے ان اندھے قید خانوں میں گزرے گی جو عالمی ضمیر کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اب ان نوجوانوں کی لاشیں ملنے پر سارا اسرائیل بدلے کی آگ میں دہک رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس پر الزام عا ئد کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ حماس سے اس خون کا بدلہ لیا جائے گا۔

1967کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں فتح کے بعد اسرائیل نے اردن ،شام اور مصر سے چھینے گئے فلسطینی علاقوں پر انتہا پسند اسرائیلیوں کی آبادکاری کا ایک مربوط پروگرام شروع کیا۔1967 سے اب تک اسرائیل مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں اڑھائی سو سے زائد بستیاں قائم کر چکا ہے ۔ان بستیوں میں سات لاکھ سے زائد وہ اسرائیلی آباد ہیں جنہیں مشن اسرائیل کی تکمیل کے لیے دنیا بھر سے درآمد کیا گیا ہے۔ یہ اسرائیلی بستیاں ارضِ مقدس میں خون خرابے کی بنیاد ی وجہ ہیں ۔ تین نوجوانوں کے قتل پر آباد کاروں نے ان کی یاد میں ایک نئی بستی بسانے کا اعلان کر کے سہمے ہوئے فلسطینیوں کو یہ کھلا پیغام دیا ہے کہ ان کے قبضے کے خلاف اٹھنے والا کوئی بے ڈھنگا ردِ عمل بھی ان کی توسیع پسندی کے آگے بندھ نہیں باندھ سکتا۔با وجود اس کے کہ عالمی برادری ان اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی اور غاصبانہ قرار دیتی ہے ،اقوامِ متحدہ ان بستیوں کو چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیتے ہو ئے غیر قانونی سمجھتی ہے اور ان بستیوں کے قیا م کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار دادیں موجود ہیں لیکن ان کی دھڑا دھڑ تعمیر اسرائیلی دیدہ دلیر ی اور امریکی آشیر باد کا ایک شرمناک مظاہر ہ ہے۔عرب دنیا بالخصوص اور مسلم دنیا بالعموم اسرائیلی قبضے کے خلاف مذمتی قراردادوں اور دھواں دھار تقریروں کی حد تک بڑے سر گرمِ عمل رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس قلمی اور زبانی جہاد سے اب تک اسرائیل کی صحت پر پرکاہ برابر بھی فرق نہیں پڑا ۔

یہ امر حیران کن ہے کہ کہ تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا سے صرف دس روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نے اس سال اپریل میں، کئی سالوں کی خانہ جنگی کے بعد ، الفتح اور حماس کے درمیان طے پانے والے امن معائدے کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے دنیا سے اپیل کی تھی کہ وہ اسے مسترد کر دیں۔ اسرائیلی نوجوانوں کے قتل اور اس پر اٹھنے والے طوفان کو بہت سے فلسطینی اسرائیل کی ایک چال قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد فلسطینی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے ۔ حماس پر عالمی دباؤ بڑھا کر اسرائیل دراصل الفتح کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر انہیں حکومت کرنی ہے تو حماس سے دور رہنا ہو گا۔ اسرائیل کی مکرو فریب بھری تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کچھ ایسا بعید از قیاس بھی نہیں کہ اسرائیل خود ہی اپنے نوجوانوں کا قاتل ہے!


اسرائیلی آباد کاروں یا گھس بیٹھیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کشمش پچھلی چار دہائیوں سے جاری ہے ۔ فلسطینیوں سے ان بستیوں میں شودروں سے بد تر سلوک کیا جاتا ہے لیکن انہیں اس غلامانہ برتاؤ پرصدائے اجتجاج بلند کرنے کی اجازت نہیں۔ اپنے تین نوجوانوں کی ہلاکت پر خون کے آنسو رونے والا بے چارہ اسرائیل صرف پچھلی ایک دہائی میں ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینی بچوں کو اپنی توسیع پسندی کی بھینٹ چڑھا چکا ہے۔ ایک کمزو ر اور بے نوا قوم سے تعلق رکھنے والے ان معصوموں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو کر پتھر مارنے کی جرات کی تھی۔ اسرائیلی معصوموں کی ہلاکت پر ساری دنیا کی ماؤں کے کلیجے پھٹے جا رہے ہیں لیکن فلسطینی بچوں کا بہتا ہوا خون کسی آنکھ کو نم نہیں کرتا۔ خونِ مسلم کی یہ ارزانی دیکھ کر اب تو خود مسلمانوں کی آنکھوں سے بھی آنسو نہیں پھوٹتے کیونکہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے مارتے ان کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے اپنے نوجوانوں کی لاشیں ملنے پر فلسطینی علاقوں پر آگ و آہن کی بارش برسانی شروع کر دی ہے جبکہ اسرائیلی آباد کاروں نے اپنے ہم مذہبوں کے قتل کا بدلہ ایک سات سالہ فلسطینی بچی سے لیا ہے سمیت متعدد جانوں سے لے لیا ہے ۔ یورپی یونین سے لے کر امریکا تک سب اسرائیلی نوجوانوں کے قتل پر سوگ میں ہیں لیکن فلسطینی بچی کی لاش پر نوحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ۔ اسرائیلی نوجوانوں کے قاتل ابھی پردے میں ہیں لیکن ان کے خلاف ساری دنیا غصے میں پھنک رہی ہے فلسطینی بچوں کے قاتل سرِ عام دندناتے پھر رہے ہیں لیکن ان کے خلاف آواز اٹھانے کی دنیا کو نہ خواہش ہے اور نہ ہی جرات!

آمرانہ نظاموں کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے مسلمان ممالک کے کٹھ پتلی حکمران اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف چوں چراں کرنے کی جرات سے اس لیے عاری ہیں کہ انہیں اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکی آشیر باد کی ضرورت ہے۔اسرائیل کے خلاف لب کشائی کر کے وہ امریکی ناراضی مول لینے کا رسک نہیں لے سکتے کیوں کہ اپنا اقتدار انہیں دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ کہنے کو فلسطینی اس مسلم امہ کا حصہ ہیں جو ڈیڑھ ارب سے زائد کی تعداد میں دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے لیکن صیہونیت کے جبر انہیں تن تنہا ہی برداشت کرنے ہیں کیونکہ امہ امریکی امداد کی لسی پئے بے غیرتی کی چادر تانے گہری نیند سو رہی ہے۔
Load Next Story