بلی سے دودھ کے بٹوارے کی امید
لیکن آج بھی سب سے زیادہ کروڑ پتی امریکا میں بستے ہیں یعنی اڑتیس فیصد
آٹھ ارب انسانوں کی اس دنیا کی لگ بھگ آدھی دولت (ساڑھے سینتالیس فیصد) یعنی دو سو تیرہ ٹریلین ڈالر محض ڈیڑھ فیصد اقلیت (پانچ کروڑ اسی لاکھ) کے ہاتھوں میں ہے۔جب کہ اس دنیا کے چالیس فیصد انسانوں کے پاس محض اعشاریہ پانچ فیصد دولت یعنی دو اعشاریہ چار ٹریلین ڈالر ہے۔
اس صدی کے شروع میں ایسے افراد کی تعداد محض اعشاریہ پانچ فیصد تھی جن کے اثاثوں کی مالیت دس لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔مگر ایک چوتھائی صدی میں یہ تعداد بڑھ کے ڈیڑھ فیصد ہو گئی۔اس عرصے میں قطر میں کروڑ پتیوں کی تعداد سب سے تیزی سے بڑھی۔ یعنی چھیالیس سے چھبیس ہزار ایک سو تریسٹھ تک پہنچ گئی۔سن دو ہزار میں چین میں انتالیس ہزار کروڑ پتی تھے آج ساٹھ لاکھ سے زائد ہیں۔جب کہ اسی عرصے میں قزاقستان میں کروڑ پتیوں کی تعداد نو سو اٹھارہ سے بڑھ کے چوالیس ہزار تین سو سات تک پہنچ گئی۔
یو بی ایس گلوبل ویلتھ رپورٹ کے دو ہزار چوبیس جائزے کے مطابق گزشتہ پندرہ برس میں ایشیا بحرالکاہل خطے میں دولت مندوں کی تعداد میں ایک سو ستتر فیصد ، براعظم امریکا میں ایک سو چھیالیس فیصد اور یورپ ، مشرقِ وسطی اور افریقہ میں چوالیس فیصد کا اضافہ ہوا۔
لیکن آج بھی سب سے زیادہ کروڑ پتی امریکا میں بستے ہیں یعنی اڑتیس فیصد۔مغربی یورپ میں ان کی تعداد اٹھائیس فیصد اور چین میں دس فیصد ہے۔ البتہ آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ دولت مند افراد سوئٹزرلینڈ میں ہیں یعنی ہر بارہویں فرد کے پاس دس لاکھ ڈالر سے زائد کے اثاثے ہیں۔جب کہ ہانگ کانگ میں ہر آٹھویں ، آسٹریلیا اور نیدر لینڈز میں ہر ساتویں فرد کے اثاثے ایک ملین ڈالر سے زائد ہیں۔
امریکا میں ہر چھٹے فرد کے اثاثے اگرچہ ایک ملین ڈالر سے زائد ہیں مگر آبادی کے تناسب سے آج بھی اٹھاون ملین عالمی کروڑ پتیوں میں سے بائیس ملین امریکی شہری ہیں۔اس کے بعد بالترتیب چین، برطانیہ، فرانس ، جاپان ، جرمنی ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، اٹلی اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔حالانکہ دو ہزار بائیس میں عالمی دولت میں تین فیصد کی کمی ہوئی جس کا ایک سبب کوویڈ بتایا جاتا ہے البتہ گزشتہ برس عالمی دولت میں چار اعشاریہ دو فیصد کا اضافہ ہوا مگر تقسیمِ دولت کی خلیج پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔
بھارت اگرچہ اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے لیکن ترقی کا پھل دیگر سرمایہ دار ممالک کی طرح اوپر ہی اوپر بٹ رہا ہے۔سن دو ہزار میں بھارت کی سوا ارب آبادی میں سینتیس ہزار کروڑ پتی تھے۔آج جب بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔ وہاں کروڑ پتیوں کی تعداد بڑھ کے آٹھ لاکھ اڑسٹھ ہزار چھ سو اکہتر تک جا پہنچی ہے۔یعنی گزشتہ چوبیس برس میں دو ہزار دو سو اڑتالیس فیصد کا اضافہ۔دو ہزار اٹھائیس تک اندازہ ہے کہ ان کروڑ پتیوں کی تعداد دس لاکھ اکسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔مگر عدم مساوات کا عالم یہ ہے کہ ایک فیصد آبادی کے پاس تریپن فیصد دولت ہے جب کہ پچاس فیصد آبادی کے تصرف میں محض چار اعشاریہ ایک فیصد دولت ہے۔آٹھ سو دس ملین بھارتی ایسے ہیں جنھیں ہفتہ وار پانچ کلو گرام مفت سرکاری غلہ نہ ملے تو وہ شاید جی ہی نہ پائیں۔
پاکستان کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔یہاں دس فیصد لوگوں کے قبضے میں بیالیس فیصد دولت ہے جب کہ نچلے پچاس فیصد لوگوں کے تصرف میں محض تیرہ فیصد آمدنی ہے۔معاشی جمود اور کمر توڑ مہنگائی کے سبب آنے والے چند برسوں میں مزید آبادی خطِ غربت سے نیچے جا سکتی ہے۔امیر ترین اقلیت اور غریب ترین اکثریت کی آمدنی میں کم از کم سولہ گنا کا فرق ہے۔
اگرچہ سرکار اس پر خوش ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اسی لاکھ سے زائد ضرورت مند رجسٹرڈ ہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس نجی شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی سروس ہے۔مگر یہ خوشی کی نہیں دکھ کی بات ہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس قدر بیرونی امداد ، بیرونی قرضوں اور ہر حکومت کی '' کامیاب'' اقتصادی پالیسیوں اور عوام کو اچھے دنوں کا خواب مسلسل دکھائے جانے کے باوجود تعلیم ، صحت ، روزگار اور مہنگائی کے معاملات کی سنگینی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی ہے۔حکمران طبقات اپنی مراعات کے قلعے میں بند ہیں جب کہ قلعے کی دیواروں کے باہر کھڑے کروڑوں کے لیے ان کے پاس امیدوں اور دلاسوں کے سوا کچھ نہیں۔
زیادہ سے زیادہ یہ خوشخبری ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ سال بہ سال سکڑنے کے بجائے پھیلتا ہی جا رہا ہے۔بجلی کے کمر توڑ بلوں کے اثرات کم کرنے کے نام پر کچھ عرصے کے لیے ریلیف دینے کو بھی احسان گردانا جا رہا ہے اور روٹی کی قیمت میں چند روپے کی کمی حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے برابر بتائی جا رہی ہے۔
وفاق کو مستحکم بنانا تو دور کی بات چاروں وفاقی یونٹوں میں روٹی کے نرخ بھی یکساں نہیں ۔کہنے کو پاکستان سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے دس چوٹی کے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
اور اپنے بھول پن کا یہ عالم ہے کہ جس مراعاتی اقلیت کے ہاتھ میں ملک کی آدھی دولت اور پوری پارلیمانی طاقت ہے اسی دس فیصد سے انتہائی محروم پچاس فیصد آبادی یہ توقع باندھے ہوئے ہے کہ وہ معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے آج نہیں تو کل کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی۔گویا بلی سے دودھ کے بٹوارے کی امید مسلسل ہے۔
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھی کی دولت سے
( میر )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اس صدی کے شروع میں ایسے افراد کی تعداد محض اعشاریہ پانچ فیصد تھی جن کے اثاثوں کی مالیت دس لاکھ ڈالر سے زائد تھی۔مگر ایک چوتھائی صدی میں یہ تعداد بڑھ کے ڈیڑھ فیصد ہو گئی۔اس عرصے میں قطر میں کروڑ پتیوں کی تعداد سب سے تیزی سے بڑھی۔ یعنی چھیالیس سے چھبیس ہزار ایک سو تریسٹھ تک پہنچ گئی۔سن دو ہزار میں چین میں انتالیس ہزار کروڑ پتی تھے آج ساٹھ لاکھ سے زائد ہیں۔جب کہ اسی عرصے میں قزاقستان میں کروڑ پتیوں کی تعداد نو سو اٹھارہ سے بڑھ کے چوالیس ہزار تین سو سات تک پہنچ گئی۔
یو بی ایس گلوبل ویلتھ رپورٹ کے دو ہزار چوبیس جائزے کے مطابق گزشتہ پندرہ برس میں ایشیا بحرالکاہل خطے میں دولت مندوں کی تعداد میں ایک سو ستتر فیصد ، براعظم امریکا میں ایک سو چھیالیس فیصد اور یورپ ، مشرقِ وسطی اور افریقہ میں چوالیس فیصد کا اضافہ ہوا۔
لیکن آج بھی سب سے زیادہ کروڑ پتی امریکا میں بستے ہیں یعنی اڑتیس فیصد۔مغربی یورپ میں ان کی تعداد اٹھائیس فیصد اور چین میں دس فیصد ہے۔ البتہ آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ دولت مند افراد سوئٹزرلینڈ میں ہیں یعنی ہر بارہویں فرد کے پاس دس لاکھ ڈالر سے زائد کے اثاثے ہیں۔جب کہ ہانگ کانگ میں ہر آٹھویں ، آسٹریلیا اور نیدر لینڈز میں ہر ساتویں فرد کے اثاثے ایک ملین ڈالر سے زائد ہیں۔
امریکا میں ہر چھٹے فرد کے اثاثے اگرچہ ایک ملین ڈالر سے زائد ہیں مگر آبادی کے تناسب سے آج بھی اٹھاون ملین عالمی کروڑ پتیوں میں سے بائیس ملین امریکی شہری ہیں۔اس کے بعد بالترتیب چین، برطانیہ، فرانس ، جاپان ، جرمنی ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، اٹلی اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔حالانکہ دو ہزار بائیس میں عالمی دولت میں تین فیصد کی کمی ہوئی جس کا ایک سبب کوویڈ بتایا جاتا ہے البتہ گزشتہ برس عالمی دولت میں چار اعشاریہ دو فیصد کا اضافہ ہوا مگر تقسیمِ دولت کی خلیج پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔
بھارت اگرچہ اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے لیکن ترقی کا پھل دیگر سرمایہ دار ممالک کی طرح اوپر ہی اوپر بٹ رہا ہے۔سن دو ہزار میں بھارت کی سوا ارب آبادی میں سینتیس ہزار کروڑ پتی تھے۔آج جب بھارت کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے۔ وہاں کروڑ پتیوں کی تعداد بڑھ کے آٹھ لاکھ اڑسٹھ ہزار چھ سو اکہتر تک جا پہنچی ہے۔یعنی گزشتہ چوبیس برس میں دو ہزار دو سو اڑتالیس فیصد کا اضافہ۔دو ہزار اٹھائیس تک اندازہ ہے کہ ان کروڑ پتیوں کی تعداد دس لاکھ اکسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔مگر عدم مساوات کا عالم یہ ہے کہ ایک فیصد آبادی کے پاس تریپن فیصد دولت ہے جب کہ پچاس فیصد آبادی کے تصرف میں محض چار اعشاریہ ایک فیصد دولت ہے۔آٹھ سو دس ملین بھارتی ایسے ہیں جنھیں ہفتہ وار پانچ کلو گرام مفت سرکاری غلہ نہ ملے تو وہ شاید جی ہی نہ پائیں۔
پاکستان کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔یہاں دس فیصد لوگوں کے قبضے میں بیالیس فیصد دولت ہے جب کہ نچلے پچاس فیصد لوگوں کے تصرف میں محض تیرہ فیصد آمدنی ہے۔معاشی جمود اور کمر توڑ مہنگائی کے سبب آنے والے چند برسوں میں مزید آبادی خطِ غربت سے نیچے جا سکتی ہے۔امیر ترین اقلیت اور غریب ترین اکثریت کی آمدنی میں کم از کم سولہ گنا کا فرق ہے۔
اگرچہ سرکار اس پر خوش ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اسی لاکھ سے زائد ضرورت مند رجسٹرڈ ہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس نجی شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی سروس ہے۔مگر یہ خوشی کی نہیں دکھ کی بات ہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس قدر بیرونی امداد ، بیرونی قرضوں اور ہر حکومت کی '' کامیاب'' اقتصادی پالیسیوں اور عوام کو اچھے دنوں کا خواب مسلسل دکھائے جانے کے باوجود تعلیم ، صحت ، روزگار اور مہنگائی کے معاملات کی سنگینی کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی ہے۔حکمران طبقات اپنی مراعات کے قلعے میں بند ہیں جب کہ قلعے کی دیواروں کے باہر کھڑے کروڑوں کے لیے ان کے پاس امیدوں اور دلاسوں کے سوا کچھ نہیں۔
زیادہ سے زیادہ یہ خوشخبری ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ سال بہ سال سکڑنے کے بجائے پھیلتا ہی جا رہا ہے۔بجلی کے کمر توڑ بلوں کے اثرات کم کرنے کے نام پر کچھ عرصے کے لیے ریلیف دینے کو بھی احسان گردانا جا رہا ہے اور روٹی کی قیمت میں چند روپے کی کمی حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کے برابر بتائی جا رہی ہے۔
وفاق کو مستحکم بنانا تو دور کی بات چاروں وفاقی یونٹوں میں روٹی کے نرخ بھی یکساں نہیں ۔کہنے کو پاکستان سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے دس چوٹی کے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
اور اپنے بھول پن کا یہ عالم ہے کہ جس مراعاتی اقلیت کے ہاتھ میں ملک کی آدھی دولت اور پوری پارلیمانی طاقت ہے اسی دس فیصد سے انتہائی محروم پچاس فیصد آبادی یہ توقع باندھے ہوئے ہے کہ وہ معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے آج نہیں تو کل کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی۔گویا بلی سے دودھ کے بٹوارے کی امید مسلسل ہے۔
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھی کی دولت سے
( میر )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)