یوم آزادی اور مائیں
نئی نسل کو آزادی کی تاریخ بتائیے تاکہ وہ تعمیر وطن کے لیے تیار ہوسکیں
ماں کی گود بچے کے لیے پہلی درس گاہ ہوتی ہے، یہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے، جو انسان کو اچھائی اور برائی میں فرق کرنا سکھاتی ہے اور یہ مائیں ہی ہوتی ہیں، جو اپنے جگر گوشوں کو آزادی جیسی نعمت کی اہمیت سمجھا کر سرحدوں پر وطن کی حفاظت کے لیے بھیج دیتی ہیں۔ یہ مائیں ہی ہوتی ہیں کہ جب ان کے بیٹے غازی بن کر لوٹتے ہیں، تو ان کا ماتھا چوم لیتی ہیں اور جب جھنڈے میں لپٹا جسم پہنچتا ہے، تب بھی ماتھا چوم کر وداع کر دیتی ہیں۔۔۔ انھیں ہمیشہ کے لیے رخصت کرتے ہوئے کوئی بین نہیں کرتیں، بلکہ تحمل سے یہ کہتی ہیں میرا بیٹا تو شہید ہے اور شہید کبھی نہیں مرتے!
یہ مائیں ہی تھیں، جنھوں نے اپنے سپوتوں کو آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی گریز نہ کرنے کا حکم دیا۔۔۔ یہ مولانا شوکت علی، مولانا علی جوہر، سرسید احمد خان کی مائیں ہی تھیں، جنھوں نے آزاد وطن کی خاطر لڑتے رہنے کی تائید اور تاکید کی۔
آج بھی مائیں ہی ہیں، جو بچوں کو آزاد وطن کی اہمیت کا احساس دلا سکتی ہیں، انھیں یہ بات سمجھا سکتی ہیں کہ آزاد وطن کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔۔۔؟ ہمارے لیے ان فوجیوں کی کیا اہمیت ہے، جو ہماری خاطر سرحدوں پر متعین ہیں، سیاچن جیسے برفیلے پہاڑوں پر دن اور رات اور غرض پوری زندگیاں صرف اس لیے گزار دیتے ہیں کہ ہمارے وطن کو دشمن میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
عمومی طور پر اگست کی اول تاریخوں میں اسکول کھل جاتے ہیں اور بچے یوم آزادی اسکول میں مناتے ہیں۔ سب مائیں صبح سویرے ان کو تیارکر کے بییج لگا کر، جھنڈے ہاتھوں میں دے کر اسکول بھیجتی ہیں اور بچے بھی اسکول میں دو گھنٹے کے فنکشن میں ملی نغمیںگا کر گھروں کو لوٹ جا تے ہیں۔
کیا یہ فرض کافی ہے کہ بچوں کو صبح تیار کر کے اسکول بھیج دیا جائے کیا یہ ضروری نہیں ؟کہ اس دن گھر میں جب کھانا کھانے بچے بیٹھے تو انھیں کھانا کھاتے ہوئے اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اس ملک کے کسان کتنی محنت سے ہمارے لیے گندم اگاتے ہیں، تو اس کا آٹا بنتا ہے اور پھر ہم اس کی روٹی کھاتے ہیں۔
ایسے ہی کوئی پھل جیسے آم وغیرہ کھاتے ہوئے بتایا جائے کہ یہ ہمارا اہم پھل ہے یا پھر شہر میں واقع اہم تاریخی مقامات اور نیشنل میوزیم وغیرہ جایا جائے تاکہ بچے ملک کی تاریخ سے آشنا ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ان جگہوں پر بھی جایا جا سکتا ہے، جہاں جشن آزادی منانے کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہوں۔
آج کل انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، لیکن اس موقع پر ایسے پروگرام مل کر دیکھنے چاہئیں، جس میں آزادی کی اصل تاریخ اور قوم کے ہیروؤں کو سراہا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے بچے آزادی کی تاریخ سے ناواقف ہیں، انھیں قائداعظم اور اقبال تو نصاب میں بتا دیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح سے واقفیت کرادی جاتی ہے، اس کے ساتھ سرسید احمد خان کا ذکر بھی آجاتا ہے، لیکن افسوس اس کے سوا وہ کم ہی دیگر راہ نماؤں کے بارے میںآگاہی رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ انھیں شہید ملت لیاقت علی خان کے بارے میں بھی واقفیت کم ہوتی ہے، راجا صاحب محمود آباد، مولوی اے کے فضل الحق، مولانا ظفر علی خان، بی اماں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا حسر ت موہانی، آئی آئی چندریگر، چوہدری خلیق الزماں، نظام آف حیدرآباد جیسے بے شمار نام ایسے ہیں جو آج فراموش کرادیے گئے ہیں۔ ان پر نہ اسکولوں کی نظر ہے اور نہ چینلوں کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے بچوں کو ان کے کاموں سے روشناس کرائیں۔ ان سے ان شخصیات کے بارے میں گفتگو کریں، انھیں تحریک آزادی کی شخصیات سے متعلق کتابیں لا کردیں، یا انٹرنیٹ کی مدد سے ان شخصیات پر مضامین لکھوائیں تاکہ انھیں خبر ہو کہ ہماری آزادی کی اصل تاریخ ہے کیا؟
ساتھ ہی انھیں مقبوضہ کشمیر اور فلسطین وغیرہ کے حالات سے بھی روشناس کرایا جائے۔ دنیا کی تاریخ میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی اقوام کے بارے مین بتایا جائے کہ آزادی کی قدر پتا چلے اور اس کے بعد اس کے تحفظ کا جذبہ پیدا ہو۔ انھیں بتائیے کہ کس طرح وہ روزانہ زندگی اور موت کی جدوجہد میں رہتے ہیں، کس طرح ان کے پیارے گولا بارود کا شکار ہو رہے ہیں۔آپ بہ خوشی اپنا یوم آزادی منا لیتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے،کیوں کہ وہ آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس لیے ہم سب کو اس بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم آزاد ہیں اور اگر کبھی بھی اس ملک کی آزادی کی خا طر جان کی قربانی دینی پڑے تو آپ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
یہ مائیں ہی ہوتی ہیں، جو ملک کی آزادی اور بچوں کی تربیت کی محرک ہوتی ہیں، اگر آج کی ہماری مائیں صرف دنیا داری اور غیر سنجیدہ چیزوں ہی کی طرف مرکوز رہیں گی تو ہمارے ملک کے مستقبل کو تعمیر وطن کے لیے کون تیار کرے گا؟
یہ مائیں ہی تھیں، جنھوں نے اپنے سپوتوں کو آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی گریز نہ کرنے کا حکم دیا۔۔۔ یہ مولانا شوکت علی، مولانا علی جوہر، سرسید احمد خان کی مائیں ہی تھیں، جنھوں نے آزاد وطن کی خاطر لڑتے رہنے کی تائید اور تاکید کی۔
آج بھی مائیں ہی ہیں، جو بچوں کو آزاد وطن کی اہمیت کا احساس دلا سکتی ہیں، انھیں یہ بات سمجھا سکتی ہیں کہ آزاد وطن کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔۔۔؟ ہمارے لیے ان فوجیوں کی کیا اہمیت ہے، جو ہماری خاطر سرحدوں پر متعین ہیں، سیاچن جیسے برفیلے پہاڑوں پر دن اور رات اور غرض پوری زندگیاں صرف اس لیے گزار دیتے ہیں کہ ہمارے وطن کو دشمن میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔
عمومی طور پر اگست کی اول تاریخوں میں اسکول کھل جاتے ہیں اور بچے یوم آزادی اسکول میں مناتے ہیں۔ سب مائیں صبح سویرے ان کو تیارکر کے بییج لگا کر، جھنڈے ہاتھوں میں دے کر اسکول بھیجتی ہیں اور بچے بھی اسکول میں دو گھنٹے کے فنکشن میں ملی نغمیںگا کر گھروں کو لوٹ جا تے ہیں۔
کیا یہ فرض کافی ہے کہ بچوں کو صبح تیار کر کے اسکول بھیج دیا جائے کیا یہ ضروری نہیں ؟کہ اس دن گھر میں جب کھانا کھانے بچے بیٹھے تو انھیں کھانا کھاتے ہوئے اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اس ملک کے کسان کتنی محنت سے ہمارے لیے گندم اگاتے ہیں، تو اس کا آٹا بنتا ہے اور پھر ہم اس کی روٹی کھاتے ہیں۔
ایسے ہی کوئی پھل جیسے آم وغیرہ کھاتے ہوئے بتایا جائے کہ یہ ہمارا اہم پھل ہے یا پھر شہر میں واقع اہم تاریخی مقامات اور نیشنل میوزیم وغیرہ جایا جائے تاکہ بچے ملک کی تاریخ سے آشنا ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ان جگہوں پر بھی جایا جا سکتا ہے، جہاں جشن آزادی منانے کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہوں۔
آج کل انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، لیکن اس موقع پر ایسے پروگرام مل کر دیکھنے چاہئیں، جس میں آزادی کی اصل تاریخ اور قوم کے ہیروؤں کو سراہا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے بچے آزادی کی تاریخ سے ناواقف ہیں، انھیں قائداعظم اور اقبال تو نصاب میں بتا دیے جاتے ہیں، اس کے علاوہ محترمہ فاطمہ جناح سے واقفیت کرادی جاتی ہے، اس کے ساتھ سرسید احمد خان کا ذکر بھی آجاتا ہے، لیکن افسوس اس کے سوا وہ کم ہی دیگر راہ نماؤں کے بارے میںآگاہی رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ انھیں شہید ملت لیاقت علی خان کے بارے میں بھی واقفیت کم ہوتی ہے، راجا صاحب محمود آباد، مولوی اے کے فضل الحق، مولانا ظفر علی خان، بی اماں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا حسر ت موہانی، آئی آئی چندریگر، چوہدری خلیق الزماں، نظام آف حیدرآباد جیسے بے شمار نام ایسے ہیں جو آج فراموش کرادیے گئے ہیں۔ ان پر نہ اسکولوں کی نظر ہے اور نہ چینلوں کی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے بچوں کو ان کے کاموں سے روشناس کرائیں۔ ان سے ان شخصیات کے بارے میں گفتگو کریں، انھیں تحریک آزادی کی شخصیات سے متعلق کتابیں لا کردیں، یا انٹرنیٹ کی مدد سے ان شخصیات پر مضامین لکھوائیں تاکہ انھیں خبر ہو کہ ہماری آزادی کی اصل تاریخ ہے کیا؟
ساتھ ہی انھیں مقبوضہ کشمیر اور فلسطین وغیرہ کے حالات سے بھی روشناس کرایا جائے۔ دنیا کی تاریخ میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی اقوام کے بارے مین بتایا جائے کہ آزادی کی قدر پتا چلے اور اس کے بعد اس کے تحفظ کا جذبہ پیدا ہو۔ انھیں بتائیے کہ کس طرح وہ روزانہ زندگی اور موت کی جدوجہد میں رہتے ہیں، کس طرح ان کے پیارے گولا بارود کا شکار ہو رہے ہیں۔آپ بہ خوشی اپنا یوم آزادی منا لیتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے،کیوں کہ وہ آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس لیے ہم سب کو اس بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم آزاد ہیں اور اگر کبھی بھی اس ملک کی آزادی کی خا طر جان کی قربانی دینی پڑے تو آپ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
یہ مائیں ہی ہوتی ہیں، جو ملک کی آزادی اور بچوں کی تربیت کی محرک ہوتی ہیں، اگر آج کی ہماری مائیں صرف دنیا داری اور غیر سنجیدہ چیزوں ہی کی طرف مرکوز رہیں گی تو ہمارے ملک کے مستقبل کو تعمیر وطن کے لیے کون تیار کرے گا؟