ہم اپنے ورثے سے بیگانے کیوں ہیں

ہماری سائنسی ترقی کا ماضی دنیا کی تاریخ کا روشن ترین عہد ہے،


[email protected]

ہماری سائنسی ترقی کا ماضی دنیا کی تاریخ کا روشن ترین عہد ہے، مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں سائنس کی جو خدمات انجام دیں، ان کی نظیر نوع انسانی کی تاریخ میں ملنا ناممکن ہے، درحقیقت یہ مسلمان ہی تھے کہ جنھوں نے سائنس کی بنیاد رکھی اور پھر دنیا کو سائنسی طریقہ کار اور طرز تحقیق سے روشناس کرایا۔

قدیم یونانی اور رومن اقوام سائنس کی منظم اور مسلسل تحقیق سے ناآشنا تھیں، سائنس کا یہ درخشندہ چراغ یورپ کی درسگاہوں میں مسلمانوں نے ہی اپنی سائنسی ترقی کی بدولت روشن کیا اور یہی وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے آج تمام عالم منور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قدیم مسلمان سائنس دان (بو علی علی سینا، البیرونی، الزہراوی، فارابی، الخوارزمی وغیرہ) جدید سائنس کے بانی ہیں، سائنس کا اسلوب، سائنسی عمل اور نقطہ نگاہ سائنس کی رو سے عالمی اور انسانی مسائل کا حل کرنا اور اخلاقی سائنس میں میکانیکی اور تکنیکی و قدرتی وسائل کا استعمال یہ سب کچھ ان ہی کا عطیہ ہے۔

عظیم سائنسی خدمات پر مبنی 600 سالہ مسلم دور کو یورپی سرمایہ داروں اور ملوکیت نے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رکھا حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم سائنس دانوں کے ہر ایک کارنامے پر اگر باری باری روشنی ڈالی جائے تو کئی سو کتابیں بھر جائیں اور ان کے کارنامے گنوائے نہیں جا سکتے، یہی وہ عظیم کارنامے ہیں جن کی بدولت ہمیں اس بات کا حقیقی احساس ہوتا ہے کہ جدید سائنس کس قدر مسلمانوں کی احسان مند ہے۔

بریفالٹ اپنی کتاب ''تشکیل انسانیت'' میں لکھتا ہے کہ اگر مسلمان سائنس کی اولین بنیادیں قائم نہ کرتے تو یورپ کی وہ ترقی جو آج ہمیں نظر آرہی ہے قطعی ناممکن تھی اور یوں جگمگاتی روشنیوں کا یورپ اسلامی سائنس کا مرہون منت ہے جو آج یورپی مصنف مسلمانوں کے علم جراحی کی ان الفاظ میں تعریف کرتا ہے کہ ''یورپ ان تمام سرجنوں کا جو چودھویں صدی عیسوی کے بعد گزرے ہیں، الزہراوی کی تصانیف پر دارومدار تھا، یہ مایہ ناز سرجن اور طبیب تھا اور آج بھی یورپی سائنس دان اسے علم جراحت کا بانی تسلیم کرتے ہیں، الزہراوی دنیا کا پہلا سرجن تھا جس نے انسانی اعضا کی تحقیق کے لیے پوسٹ مارٹم کی اہمیت پر زور دیا ۔''

ہمارے ہاں گریجویشن کے سابقہ نصاب میں شامل انگلش کی کتاب میں ایک سبق "Jhon Hunter, The First Surgeon" ماضی قریب میں ایک عرصے تک پڑھایا گیا جس میں جان ہنٹر کو دنیا کا پہلا سرجن قرار دیا گیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی جوکہ سراسر غلط اور حقائق کے قطعی برخلاف بلکہ متصادم تھا اور ہماری مسلم قوم کے پاکستانی طلبا بڑے ذوق و شوق اور انہماک کے ساتھ ایک عرصے تک اس لغو بکواس کو زیرمطالعہ رکھے تاریکی میں گم اور اصل حقیقت سے بے خبر رہے۔

بریفالٹ لکھتا ہے کہ ''حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ یورپی مرد جس نے پہلے پہل عربوں کے انکشافات پر نگاہ ڈالی، ان پر وہ اس انداز سے جھپٹ پڑا جیسے وہ اس کے اپنے کارنامے ہوں، لہٰذا یہ وزارت تعلیم حکومت پاکستان کی اولین ذمے داری تھی کہ وہ گریجویشن کے نصاب میں شامل انگلش کی کتاب میں دنیا کے پہلے سرجن کے طور پر ''جان ہنٹر'' کی بجائے بجا طور پر ''الزہراوی'' کے عظیم کارناموں پر مشتمل روشن حقائق پر مبنی سبق کو جلد ازجلد شامل کرتی کہ وطن عزیز کے طالب علم گمراہ کن معلومات سے بچتے اور اپنے بزرگوں کے عظیم کارناموں پر مشتمل درست علمی و سائنسی حقائق سے روشناس ہوتے، تاہم نئی نصاب کتاب میں جان ہنٹر تو ہٹ گیا لیکن اس کی جگہ الزہراوی کو آج تک شامل نہ کیا گیا۔

آج مغرب جدید ترین سائنس و ٹیکنالوجی اور عیش و عشرت سے مالا مال ہے اور ہمارے تقریباً ہر دوسرے نوجوان کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ان ترقی یافتہ ممالک تک رسائی حاصل کر لے اور اپنی تمام زندگی ٹھاٹ باٹ سے بسر کرے، ایک ایسی زندگی جو تیسری دنیا کے مسائل و مصائب سے مبرا ہو، درحقیقت یہ وہ خواہش ہے جو مسلمانوں کے ترقی یافتہ دور میں یورپی و مغربی اقوام کی ہوا کرتی تھی، آج ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں جنم لینے والی یہ خواہش دراصل شدید ذہنی غلامی اور احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔

آج عہد جدید کے مسلمان اور تمام اسلامی ممالک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پسماندہ اور سب سے پیچھے ہیں، وجہ واضح ہے مسلمانوں نے علم و تحقیق سے اپنا رشتہ توڑ لیا۔ آج مسلم دنیا سائنسی تحقیق کے شعبے میں معاصر ممالک سے بہت پیچھے ہے، مسلم دنیا کے چند نمایاں ممالک میں شایع ہونے والے سائنسی مقالہ جات کی تعداد بھی انتہائی کم ہے، دنیا بھر میں ایک سال کے دوران شایع شدہ ایک کروڑ پچیس لاکھ مقالہ جات میں اسلامی ممالک کے مقالات کی تعداد محض ڈھائی فیصد کے قریب ہے، مسلم ممالک کی کثیر تعداد دنیا بھر کے سائنسی منظر نامے میں کوئی وجود نہیں رکھتی۔

سائنسی تحقیق کے اعلیٰ معیار کی چند استثنائی مثالوں کے سوا بیشتر مسلم ممالک میں وسیع البنیاد سائنسی تحقیق اور استعداد ہی نہیں بلکہ وہاں مطلوبہ بنیادی ڈھانچے کے فقدان کی نشان دہی ہوتی ہے، مسلم ممالک کے سائنس دان سائنس و ٹیکنالوجی کے ان مختلف شعبوں میں تحقیق و اشاعت کے لیے کوئی امنگ ہی نہیں رکھتے جن کی بدولت مغربی دنیا میں سائنسی و معاشی انقلاب آ چکا ہے، دنیا بھر کے مسلم ممالک میں تحقیق و سائنسی اشاعت کے حوالے سے 25 ممتاز اور معتبر سائنسی اداروں میں سے کوئی ایک بھی عالمی سطح کے نمایاں ترین تحقیقی اداروں کی فہرست میں مقام پانے سے محروم ہے۔

ہمارا ماضی علمی و سائنسی ترقی کے لحاظ سے کتنا شاندار تھا، ہماری عظمت رفتہ کا اندازہ بزرگوں کے ان ناقابل فراموش کارناموں کی بدولت کہ جن کی بنیاد پر آج کی سائنس اس قدر اونچی اور رفیع الشان نظر آتی ہے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، لمحہ فکریہ یہ ہے کہ آخر ہمارا حال کس طرح دوبارہ بہتر ہوگا اور مستقبل کیسا ہو گا؟ کیا ہمارا مستقبل بھی مغرب و یورپ کا غلام ہو گا؟ اس کو بھی ان ہی مسائل سے نبرد آزما یا دوچار ہونا پڑے گا جن مسائل میں آج ہمارا عالم اسلام سائنسی دنیا میں کم تری کی بدولت گھرا ہوا ہے؟

ضرورت اس امر کی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ عالم اسلام ماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل کے حوالے سے ایسی جامع منصوبہ سازی کریں جو سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور فروغ کے لیے معاون و سودمند ہو اور فروغ کے لیے حوصلہ افزا بنیادیں فراہم کرے۔

اپنے معاشرے میں تعلیمی آزادی کے فروغ کے علاوہ سائنس و تحقیق کے لیے معقول فنڈز، معیاری تعلیمی و تحقیقی اداروں کے قیام کے علاوہ سائنسی تحقیق و ترقی نیز تحقیقی مقالہ جات کی اشاعت اور اس کی ترغیبات، عوام الناس میں سائنس و ٹیکنالوجی کی افادیت اور ضرورت کا احساس و شعور اور فہم و ادراک، واضح پالیسی اور سنجیدگی سے اس کے نفاذ اور تسلسل کی ضرورت ہے تاکہ مسلم دنیا سائنسی زوال کی ذلت آمیز رسوائیوں اور پستیوں سے نکل کر عہد جدید کے ثمرات سے مستفید ہونے کا حقدار ٹھہرے اور ماضی بعید کی طرح نشاۃ ثانیہ اور عملی و تحقیقی عروج و سائنسی انقلاب عصر حاضر میں عالم اسلام کا بھی مقدر ٹھہرے، عصر حاضر کے حالات، مسائل اور چیلنجز کے تناظر میں عالم اسلام و مسلم امہ کے لیے وقت کا اہم ترین تقاضا ''انقلاب سائنس و ٹیکنالوجی'' ہے اور اس انقلاب میں پہلا قدم یقینا اسلامی ممالک کی حکومتوں کی جانب ہی سے اٹھایا جانا چاہیے یہ انقلاب بیک وقت تمام عالم اسلام میں برپا ہونا چاہیے اور ہر طبقے کو اس انقلاب کی نعمت سے فیض یاب ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں