بارشیں سرکاری ادارے کہاں ہیں
شہروں میں ابھی تک شہری سیلاب کے امکانات اور اس سے نمٹنے کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی
ملک بھر میں مون سون کا اسپیل جاری ہے، شمال مشرقی پنجاب، خطہ پوٹھو ہار، راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی سمیت جنوب مشرقی سندھ، بالائی خیبرپختونخوا، آزادکشمیر اور شمال مشرقی بلوچستان میں شدید بارشیں ہورہی ہیں اور کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال ہے۔ کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل میں شدید بارش ہوئی، ایک خبر کے مطابقبارش کا پانی گھر میں داخل ہونے سے پورا خاندان ڈوب گیا، جس میں خواتین و بچوں سمیت 11 افراد جاں بحق ہوگئے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بارش کی تباہ کاریاں اہل وطن کے لیے نئی بات نہیں ہے۔ ہر سال بارشوں کے سیزن میں بیسیوں ہلاکتیں ہوتی ہیں،مال نقصانات الگ ہوتے ہیں۔شدید بارش، ندی نالوں میں طغیانی اور دریاؤں میں سیلاب آنے کی وجہ سے متعدد شہری و دیہی علاقے تباہی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مکانات منہدم، کھڑی فصلیں برباد اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔ یہاں سوال وہی پرانا ہے کہ ہرسال بارشیں اور سیلاب آتے ہیں، یہ عمل کمی بیشی کے ساتھ صدیوں سے جاری ہے۔اس کے باوجود آج کے جدید دور میں پاکستان میں بارشوں کے پانی اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے کام نہیں کیا گیا تو اس کی ساری ذمے داری حکومتوں اور سرکاری محکموںکی افسرشاہی اور عملے پر عائد ہوتی ہے۔
حکومتی اداروں کی پلاننگ سے لے کر انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مینٹینس تک کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ سرکاری اداروںکی تنخواہوں، الاوئنسز اور ترقیاتی کاموں کی مد میں سرکاری خزانے سے اربوں روپے کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ ہر صوبے میں لوکل گورنمنٹ کے نام سے مختلف ادارے موجود ہیں۔
ان کے ملازمین ہر مہینے تنخواہیں اور دیگر مراعات لیتے ہیں، لیکن کارکردگی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ہر شہر و قصبے میں ناجائز تجاوزات قائم ہیں، رہائشی آبادیوں میں ہاوسنگ کے بائی لائز کی خلاف ورزی عام ہے۔ حتی کہ کراچی ، لاہور اور اسلام آباد و راولپنڈی وپشاور میںپوش آبادیوں میں بلڈنگ بائز کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے۔کراچی میں کے ڈی اے اورلاہور میں ایل ڈی اے کی رہائشی اسکمیوں میں بلڈنگ بائی لاز پر عمل نہیں کیا جاتا،لوگوں نے گرین بیلٹس کو گھروں میں شامل کرلیا ہے۔
گھر کا مین گیٹ دو فٹ تک آگے بڑھا کر لگادیا جاتا ہے۔لیکن متعلقہ ادارے ہونے کے باوجود بائی لائز پر عمل نہیں ہوتا۔ بلکہ مین شاہراروں اور ذیلی سٹرکوں پر جو دکانیں بنائی جاتی ہیں،کسی کو پتہ نہیں ہے کہ ایک دکان بنانے کا اسٹینڈر سائز کیا ہے۔جس کا دل چاہتا ہے کہ وہ دکان تعمیر کرلیتا ہے اور اسے کرائے پر دے کر فارغ ہوجاتا ہے، متعلقہ اداروں کے افسران و اہلکار اپنا حصہ لے کر گھر چلے جاتے ہیں جب کہ ان رستوں سے گزرنے لوگ خوار ہوتے رہتے ہیں۔ قانون پسندی شہری کا حق سلب ہورہا ہے ، وہ ٹیکس دے رہا ہے۔
لیکن قانون شکنی کرنے والے شہری کرائے کی مد میں مالی فائدہ لے رہے ہیں اور سرکاری ملازم عوام کے ٹیکسیوں سے اپنی تنخواہیں وصول کررہے ہیں، ایسی صورت میںبارشوںاور سیلاب سے بھی تباہی ہوتی رہے گی، کہیں آگ لگ جائے تو وہ بھی وقت پر نہیں بجھے گی۔گٹروں اورمین ہولز کے ڈکن بھی موجود نہیں رہیں گے۔ بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں بھی ہوتی رہیں، اس بار بھی وفاقی اور صوبائی صوبائی حکومتوں اور اداروں نے حسب سابق ناکام کردار کا مظاہرہ ہی دہرایا ہے۔
ملک بھر میں نکاسی آب کا نظام انتہائی ناقص ہے، شہروں میں ابھی تک شہری سیلاب کے امکانات اور اس سے نمٹنے کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی، خود شہریوں نے بھی اپنے گھر اور اپنے شہر کو تباہ کرنے کا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ کراچی، لاہور، پشاور اور دیگر شہروں کے گندے نالے کچرا اور پلاسٹک کی اشیاء سے اٹے رہتے ہیں۔ شہری کوڑا کرکٹ گٹروں میں بہا دیتے ہیں یا گلی میں پھینک دیتے ہیں۔
گھروں کے ساتھ اونچ تھڑے بنا لیتے ہیںجس سے راستے تنگ ہوجاتے ہیں۔ مارکیٹس اور بازاروں میں ہر دکاندار نے اپنے آگے رہڑی یا اڈا کرائے پر دے رکھا ہے ، بازار میں پیدل چلنا مشکل ہے لیکن سرکاری عمال لمبی تانیں سورہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ گندے نالوں کے اوپر عمارتیں تعمیر کرلی گئی ہیں، گندے نالوں کے کناروں کا وسیع رقبے درختوں کے لیے ہوتے ہیں لیکن یہاں آبادیاں قائم ہیں، انھیں روکنا کن کی ذمے داری تھی یا ہے ، اس کا تعین کیے بغیر اور ذمے داروں کو فرائض کی عدم ادائیگی اور سرکاری خزانے سے ناجائز تنخواہیں لینے کے جرم میں سزائیں دیے بغیر انتظامی ڈھانچہ درست نہیں ہوسکتا ۔
جن سرکاری عمال، وزیروں، وزائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم نے فرائض سے کوتاہی برتی اور ملک اور عوام کا نقصان کیا، وہ چاہیے وفات ہی کیوں نہ پا چکے ہوں، ان کا بعداز مرگ احتساب ہونا چاہیے اور جو زندہ و موجود ہیں، ان کا ہونا ہی ہونا ہے ، کیونکہ ایسا کیے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ۔
حکومت اور انتظامیہ تجاوزات کے سامنے جس طرح بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے وہ تباہی کا نوشتہ دیوار ہے، تباہ کاریوں پر شور مچتا ہے تو انتظامیہ دکھاؤے کے لیے حرکت میں آتی ہے، اس کے بعد چپ سادھ لی جاتی ہے۔ بار سروے ہوتے رہے ہیں اور تجاوزات کی رپورٹیں سرکاری فائلوں میں موجود ہوں گئی، وہ رپورٹیں اب الماریوں سے نکال کرگرد جھاڑ کر اس کے مطابق کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا کی نوبت آئے تو کیا فائدہ؟ اب بھی جنگی بنیادوں پر گندے نالوں، سیلابی ندیوں سے لے کر نکاسی آب کے تمام راستوں کو صاف اور تجاوزات سے پاک کرنے کا کام شروع کیا جائے۔ اس ضمن میں کسی سے نرمی نہ برتی جائے۔
پاکستان میں گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چھٹا ملک بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں تباہ کاری قدرتی آفات کی وجہ سے کم اور ناقص منصوبہ بندی اور فرائض ادا نہ کرنے کی وجہ سے زیادہ ہے۔
حکومت قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن سرکاری اداروں کو جاری فنڈزکا حساب تو لے سکتی ہے، ضلع انتظامیہ، سی اینڈ ڈبلیو، ایریگیشن، میونسپل کارپوریشن، اتھارٹیز، واسا، محکمہ تہہ بازاری، اور دیگر متعلقین سے جواب طلبی تو کر سکتی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات امداد اور بحالی کی مساعی تو ممکن ہیں۔ درحقیقت ہم اتنے آبی ذخیرے بنا سکتے تھے کہ یہ سیلابی پانی پاکستان پر عذاب بن کر نازل نہ ہوتا بلکہ خوشحالی لاتا ، زیر زمین پانی کا لیول بلند رہتا، زراعت کو پانی میسر آتا، توانائی ملتی ، بنجرعلاقوں اور صحرائی علاقوں کو پانی میسر آجاتا مگر ہمارے پالیسی سازوں کی ترجیحات مختلف رہی ہیں۔اس کا فائدہ علاقائی گروہوں، انتہاپسندوں اور دہشت گردوں نے اٹھایا ہے۔
آج پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج بنادیا گیا ہے۔ پاکستان کی زراعت و صنعت دونوں زوال پذیر ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور پشاور جیسے شہروں میں لوگوں نے ایسی جگہوں پر رہائشی آبادیاں قائم کی ہوئی ہیں، جو نشیبی علاقے ہیں، جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معمولی بارشوں سے بھی نشیبی آبادیاں پانی سے بھر جاتی ہیں۔ حکومتی محکموں، ریاستی اداروں، فلڈ ریلیف کمیشن، ماحولیاتی ایجنسی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور بلدیاتی اداروںکے کرتا دھرتاؤں پر قوم اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ محکمہ موسمیات کی یومیہ پیش گوئیاں ہوتی ہیں، جن کا مقصد حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں کو خبردارکرنا ہوتا ہے، مگر پاکستان میں بارشیں اکثر باعث زحمت قرار دی جاتی ہیں۔
نہ فصلوں کے حیات نو اور زراعت کی بالیدگی کے لیے رین ایمرجنسی کام آتی ہے اور نہ سبزے، مویشیوں کے چارے، اجناس، پھل، پھول اور سبزیوں کی کاشت کے لیے فطرت کی فراخدلی اور برستے پانی سے استفادے کا کوئی مستقل میکنزم بنایا جاتا ہے۔ ٹریفک سسٹم کنٹرول کیا جاتا ہے نہ سیوریج، ڈرین سسٹم، اگر سرکاری اداروں کی بیوروکریسی اور ملازمین سے قانون کے مطابق کام لیا جائے تو کہیں بھی سڑکیں تالاب اور نشیبی علاقے جھیلوں کا منظر پیش کرتے دکھائی نہ دیں۔ تجاوزات کا خاتمہ ہوجائے، کاروباری لوٹ مار بند ہوجائیں، گرین بیلٹ پر قبضہ کرنے کی کسی میں جرات نہیں ہوگی۔یہ کام گڈ گورننس کے ذریعے ممکن ہیں۔
پاکستان میں وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں سرکاری محکموں کی افسر شاہی سے کام لینے کے بجائے ذاتی تشہیر پر توجہ دینے لگتی ہیں۔ سرکاری مشنیری کو ذرا سی ڈھیل مل جائے تو وہ من مانی سے باز نہیں آتی ۔ پاکستان میں بارشوں سیلابوں اور قدرتی آفات کے حوالے سے حفاظتی انتظامات کرنے کے لیے وفاق سے کر صوبے اور ضلع کی سطح تک محکمے اور ادارے موجود ہیں۔ ہزاروں کی تعداد افسر و ملازمین ہیں۔جن کا ماہانہ بھاری بھرکم خرچہ بھی ہے، لیکن اس کے باوجود نہ تو بارشوں و سیلابوں کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات میں کمی آتی ہے اور نہ ہی یہ اداریکوئی بہتر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بارشوں کی وجہ سے ہونے والے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بارش کی تباہ کاریاں اہل وطن کے لیے نئی بات نہیں ہے۔ ہر سال بارشوں کے سیزن میں بیسیوں ہلاکتیں ہوتی ہیں،مال نقصانات الگ ہوتے ہیں۔شدید بارش، ندی نالوں میں طغیانی اور دریاؤں میں سیلاب آنے کی وجہ سے متعدد شہری و دیہی علاقے تباہی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مکانات منہدم، کھڑی فصلیں برباد اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔ یہاں سوال وہی پرانا ہے کہ ہرسال بارشیں اور سیلاب آتے ہیں، یہ عمل کمی بیشی کے ساتھ صدیوں سے جاری ہے۔اس کے باوجود آج کے جدید دور میں پاکستان میں بارشوں کے پانی اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے کام نہیں کیا گیا تو اس کی ساری ذمے داری حکومتوں اور سرکاری محکموںکی افسرشاہی اور عملے پر عائد ہوتی ہے۔
حکومتی اداروں کی پلاننگ سے لے کر انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مینٹینس تک کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ سرکاری اداروںکی تنخواہوں، الاوئنسز اور ترقیاتی کاموں کی مد میں سرکاری خزانے سے اربوں روپے کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ ہر صوبے میں لوکل گورنمنٹ کے نام سے مختلف ادارے موجود ہیں۔
ان کے ملازمین ہر مہینے تنخواہیں اور دیگر مراعات لیتے ہیں، لیکن کارکردگی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ہر شہر و قصبے میں ناجائز تجاوزات قائم ہیں، رہائشی آبادیوں میں ہاوسنگ کے بائی لائز کی خلاف ورزی عام ہے۔ حتی کہ کراچی ، لاہور اور اسلام آباد و راولپنڈی وپشاور میںپوش آبادیوں میں بلڈنگ بائز کی خلاف ورزی معمول کی بات ہے۔کراچی میں کے ڈی اے اورلاہور میں ایل ڈی اے کی رہائشی اسکمیوں میں بلڈنگ بائی لاز پر عمل نہیں کیا جاتا،لوگوں نے گرین بیلٹس کو گھروں میں شامل کرلیا ہے۔
گھر کا مین گیٹ دو فٹ تک آگے بڑھا کر لگادیا جاتا ہے۔لیکن متعلقہ ادارے ہونے کے باوجود بائی لائز پر عمل نہیں ہوتا۔ بلکہ مین شاہراروں اور ذیلی سٹرکوں پر جو دکانیں بنائی جاتی ہیں،کسی کو پتہ نہیں ہے کہ ایک دکان بنانے کا اسٹینڈر سائز کیا ہے۔جس کا دل چاہتا ہے کہ وہ دکان تعمیر کرلیتا ہے اور اسے کرائے پر دے کر فارغ ہوجاتا ہے، متعلقہ اداروں کے افسران و اہلکار اپنا حصہ لے کر گھر چلے جاتے ہیں جب کہ ان رستوں سے گزرنے لوگ خوار ہوتے رہتے ہیں۔ قانون پسندی شہری کا حق سلب ہورہا ہے ، وہ ٹیکس دے رہا ہے۔
لیکن قانون شکنی کرنے والے شہری کرائے کی مد میں مالی فائدہ لے رہے ہیں اور سرکاری ملازم عوام کے ٹیکسیوں سے اپنی تنخواہیں وصول کررہے ہیں، ایسی صورت میںبارشوںاور سیلاب سے بھی تباہی ہوتی رہے گی، کہیں آگ لگ جائے تو وہ بھی وقت پر نہیں بجھے گی۔گٹروں اورمین ہولز کے ڈکن بھی موجود نہیں رہیں گے۔ بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں بھی ہوتی رہیں، اس بار بھی وفاقی اور صوبائی صوبائی حکومتوں اور اداروں نے حسب سابق ناکام کردار کا مظاہرہ ہی دہرایا ہے۔
ملک بھر میں نکاسی آب کا نظام انتہائی ناقص ہے، شہروں میں ابھی تک شہری سیلاب کے امکانات اور اس سے نمٹنے کی کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی، خود شہریوں نے بھی اپنے گھر اور اپنے شہر کو تباہ کرنے کا پورا بندوبست کر رکھا ہے۔ کراچی، لاہور، پشاور اور دیگر شہروں کے گندے نالے کچرا اور پلاسٹک کی اشیاء سے اٹے رہتے ہیں۔ شہری کوڑا کرکٹ گٹروں میں بہا دیتے ہیں یا گلی میں پھینک دیتے ہیں۔
گھروں کے ساتھ اونچ تھڑے بنا لیتے ہیںجس سے راستے تنگ ہوجاتے ہیں۔ مارکیٹس اور بازاروں میں ہر دکاندار نے اپنے آگے رہڑی یا اڈا کرائے پر دے رکھا ہے ، بازار میں پیدل چلنا مشکل ہے لیکن سرکاری عمال لمبی تانیں سورہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ گندے نالوں کے اوپر عمارتیں تعمیر کرلی گئی ہیں، گندے نالوں کے کناروں کا وسیع رقبے درختوں کے لیے ہوتے ہیں لیکن یہاں آبادیاں قائم ہیں، انھیں روکنا کن کی ذمے داری تھی یا ہے ، اس کا تعین کیے بغیر اور ذمے داروں کو فرائض کی عدم ادائیگی اور سرکاری خزانے سے ناجائز تنخواہیں لینے کے جرم میں سزائیں دیے بغیر انتظامی ڈھانچہ درست نہیں ہوسکتا ۔
جن سرکاری عمال، وزیروں، وزائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم نے فرائض سے کوتاہی برتی اور ملک اور عوام کا نقصان کیا، وہ چاہیے وفات ہی کیوں نہ پا چکے ہوں، ان کا بعداز مرگ احتساب ہونا چاہیے اور جو زندہ و موجود ہیں، ان کا ہونا ہی ہونا ہے ، کیونکہ ایسا کیے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ۔
حکومت اور انتظامیہ تجاوزات کے سامنے جس طرح بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے وہ تباہی کا نوشتہ دیوار ہے، تباہ کاریوں پر شور مچتا ہے تو انتظامیہ دکھاؤے کے لیے حرکت میں آتی ہے، اس کے بعد چپ سادھ لی جاتی ہے۔ بار سروے ہوتے رہے ہیں اور تجاوزات کی رپورٹیں سرکاری فائلوں میں موجود ہوں گئی، وہ رپورٹیں اب الماریوں سے نکال کرگرد جھاڑ کر اس کے مطابق کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ مژگان تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا کی نوبت آئے تو کیا فائدہ؟ اب بھی جنگی بنیادوں پر گندے نالوں، سیلابی ندیوں سے لے کر نکاسی آب کے تمام راستوں کو صاف اور تجاوزات سے پاک کرنے کا کام شروع کیا جائے۔ اس ضمن میں کسی سے نرمی نہ برتی جائے۔
پاکستان میں گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تغیر کے باعث بارشوں میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا چھٹا ملک بن گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں تباہ کاری قدرتی آفات کی وجہ سے کم اور ناقص منصوبہ بندی اور فرائض ادا نہ کرنے کی وجہ سے زیادہ ہے۔
حکومت قدرتی آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن سرکاری اداروں کو جاری فنڈزکا حساب تو لے سکتی ہے، ضلع انتظامیہ، سی اینڈ ڈبلیو، ایریگیشن، میونسپل کارپوریشن، اتھارٹیز، واسا، محکمہ تہہ بازاری، اور دیگر متعلقین سے جواب طلبی تو کر سکتی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات امداد اور بحالی کی مساعی تو ممکن ہیں۔ درحقیقت ہم اتنے آبی ذخیرے بنا سکتے تھے کہ یہ سیلابی پانی پاکستان پر عذاب بن کر نازل نہ ہوتا بلکہ خوشحالی لاتا ، زیر زمین پانی کا لیول بلند رہتا، زراعت کو پانی میسر آتا، توانائی ملتی ، بنجرعلاقوں اور صحرائی علاقوں کو پانی میسر آجاتا مگر ہمارے پالیسی سازوں کی ترجیحات مختلف رہی ہیں۔اس کا فائدہ علاقائی گروہوں، انتہاپسندوں اور دہشت گردوں نے اٹھایا ہے۔
آج پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج بنادیا گیا ہے۔ پاکستان کی زراعت و صنعت دونوں زوال پذیر ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی اور پشاور جیسے شہروں میں لوگوں نے ایسی جگہوں پر رہائشی آبادیاں قائم کی ہوئی ہیں، جو نشیبی علاقے ہیں، جہاں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معمولی بارشوں سے بھی نشیبی آبادیاں پانی سے بھر جاتی ہیں۔ حکومتی محکموں، ریاستی اداروں، فلڈ ریلیف کمیشن، ماحولیاتی ایجنسی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور بلدیاتی اداروںکے کرتا دھرتاؤں پر قوم اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ محکمہ موسمیات کی یومیہ پیش گوئیاں ہوتی ہیں، جن کا مقصد حکومت اور اس کے متعلقہ محکموں کو خبردارکرنا ہوتا ہے، مگر پاکستان میں بارشیں اکثر باعث زحمت قرار دی جاتی ہیں۔
نہ فصلوں کے حیات نو اور زراعت کی بالیدگی کے لیے رین ایمرجنسی کام آتی ہے اور نہ سبزے، مویشیوں کے چارے، اجناس، پھل، پھول اور سبزیوں کی کاشت کے لیے فطرت کی فراخدلی اور برستے پانی سے استفادے کا کوئی مستقل میکنزم بنایا جاتا ہے۔ ٹریفک سسٹم کنٹرول کیا جاتا ہے نہ سیوریج، ڈرین سسٹم، اگر سرکاری اداروں کی بیوروکریسی اور ملازمین سے قانون کے مطابق کام لیا جائے تو کہیں بھی سڑکیں تالاب اور نشیبی علاقے جھیلوں کا منظر پیش کرتے دکھائی نہ دیں۔ تجاوزات کا خاتمہ ہوجائے، کاروباری لوٹ مار بند ہوجائیں، گرین بیلٹ پر قبضہ کرنے کی کسی میں جرات نہیں ہوگی۔یہ کام گڈ گورننس کے ذریعے ممکن ہیں۔
پاکستان میں وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں سرکاری محکموں کی افسر شاہی سے کام لینے کے بجائے ذاتی تشہیر پر توجہ دینے لگتی ہیں۔ سرکاری مشنیری کو ذرا سی ڈھیل مل جائے تو وہ من مانی سے باز نہیں آتی ۔ پاکستان میں بارشوں سیلابوں اور قدرتی آفات کے حوالے سے حفاظتی انتظامات کرنے کے لیے وفاق سے کر صوبے اور ضلع کی سطح تک محکمے اور ادارے موجود ہیں۔ ہزاروں کی تعداد افسر و ملازمین ہیں۔جن کا ماہانہ بھاری بھرکم خرچہ بھی ہے، لیکن اس کے باوجود نہ تو بارشوں و سیلابوں کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات میں کمی آتی ہے اور نہ ہی یہ اداریکوئی بہتر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بارشوں کی وجہ سے ہونے والے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔