امریکا یاترا
امریکا کیا ہے، ایک خوبصورت ترقی یافتہ ملک جس کی ترقی کی رفتار کی خوبیوں کو جتنا بھی بیان کیا جائے کم ہے
یہ فیصلہ تووقت کرے گا کہ براعظم امریکا حقیقت میں کس نے دریافت کیا لیکن عموماً اس دریافت کا سہرا کرسٹوفر کولمبس کے سر باندھا جاتا ہے حالانکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ کولمبس کی آمد سے کئی سو سال پہلے ایشیائی باشندے امریکا میں اپنے قدم رکھ چکے تھے ۔ بہر حال امریکا کی دریافت کے قصے کو تاریخ دانوں پر چھوڑتے ہیں، وہ ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں کہ امریکا کی دریافت کا ''ذمے دار'' کون ہے لیکن جس نے بھی یہ دریافت کیا، کمال کیا ہے۔
آج ہم اسے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس خطے نے دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام سے متعارف کرایا اور اس نظام کی خرابیوں کی بدولت آج تک ترقی پذیر ممالک کا استحصال جاری ہے۔ امریکا کے سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔میرا مقصد اس نظام کی برائیاں بیان کرنا ہر گز نہیں ہے لیکن میں نے پہلی دفعہ امریکا یاترا میں جو مشاہدہ کیا، وہ میں اپنے قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں.
آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ میں نے امریکا کی دریافت 4 202 میں کی۔ پاکستان سے کینیڈا کا سفر اپنی قومی ایئر لائن کی بھر پور میزبانی میں نہایت آرام دہ رہا، اگر میں یہ کہوں کہ پی آئی اے کے فضائی میزبانوں نے اپنی روایتی مشرقی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹورنٹو پہنچے ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے اور نیند کا خمار باقی تھا کہ میزبان سجاد عباس نے رات کے ایک بجے یہ حکم صادر کر دیا کہ صبح سویرے ہم نیویارک کے لیے روانہ ہو رہے ہیں لہٰذا سحر خیزی ضروری ہے ۔ اجنبی ملک میں میزبان ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔ یوں منہ اندھیرے عازم نیویارک ہو گئے ۔
ٹورنٹو سے قریب ترین امریکی سرحد نیاگرا فال کی ہے، ایک گھنٹے کے بعد ہم تھے اور امریکا کی بارڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکار تھے جنھوں نے گاڑی میں پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی حکم صادر کر دیا کہ اندر کمرے میں چلے جائیں ۔ گاڑی پارک کر کے ایک ہال کمرے میں بیٹھ گئے جہاں پر طویل انتظار کا مرحلہ شروع ہوا۔ ہمارے بعد بھی کئی فیملیز کو جانچ پڑتال کے لیے اندر بلایا گیا لیکن انھیں فوراً ہی اجازت بھی مل گئی۔ ہمیں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک کھڑکی پر بلایا گیا، میں بلاوے پر اٹھا لیکن وہاں موجود اہلکار نے مجھے اشارہ کیا کہ تمہاری کوئی ضرورت نہیں البتہ اس نے میرے بیٹے کو بلا لیا اور اس سے انٹرویو شروع کردیا۔ بات تعلیم سے شروع ہو کر پشاور تک پہنچ گئی ۔ نوشیروان نے انھیں بتایا کہ وہ کبھی پشاور نہیں گیا۔ کمپیوٹر پراہل خانہ سمیت انگلیوں کے نشان ثبت کیے اور یوں ہمیں امریکا میں داخلے کا پروانہ مل گیا۔
امریکا کیا ہے، ایک خوبصورت ترقی یافتہ ملک جس کی ترقی کی رفتار کی خوبیوں کو جتنا بھی بیان کیا جائے کم ہے۔ سرسبز پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہموار شاہراہیں ، حد نگاہ تک پھیلے سرسبز کھیت ، جا بجا سفری سہولیات جن میں ہوٹلز اور موٹلز کی ایک کثیر تعداد شامل ہے تا کہ طویل سفر میں اگر آپ آرام کرنا چاہیں تو اپنے بجٹ کے مطابق ہوٹل دستیاب ہے ۔ شہروں سے دور اچھے ہوٹلوں کی موجودگی کے سوال پر جواب ملا کہ چونکہ امریکا میں زمینی سفر کافی طویل ہیں تو مسافران ہوٹلز کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ٹورنٹو سے نیویارک کا زمینی سفر آٹھ گھنٹے کا ہے، راستے میں اگر آرام کے لیے رک جائیں تو یہ لگ بھگ دس گھنٹے پر محیط ہو جاتا ہے ۔
میں پاکستان سے بین الاقوامی ڈرائیونگ لائسنس اپنے دوست علی نواز کی وساطت سے بنوا کر گیا تھا جس سے مجھے امریکا کے سفر میں کافی سہولت میسر آگئی اور میزبان نے ایک گاڑی میرے سپرد کر دی ۔ الٹے ہاتھ کی ڈرائیونگ کا پہلا تجربہ تھا جو کامیاب رہا کیونکہ امریکا میں ڈرائیونگ اور ٹریفک قوانین کی سختی سے پابندی کرائی جاتی ہے، اس لیے غلطی کا احتمال کم ہی ہوتا ہے ۔
موبائل پر سفر کے راستے کی رہنمائی میرے جیسے اجنبیوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں، اس رہنمائی کے بل بوتے پر رات کے کھانے پر نیویارک کے مرکزی علاقہ سے متصل پہلے سے بک کیے گئے ہوٹل میں پہنچ گئے ۔ ٹورنٹو سے چلتے وقت میری بہن سائرہ نے تازہ کھانا بنا کر ساتھ رکھ لیا تھا تا کہ تھکے حلال کھانے کی تلاش میں خواری نہ کرنا پڑے۔ ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر کھانا کھایا گیا ۔ بچوں کا بھر پور اصرار تھا کہ اسی وقت نیویارک کے مرکزی علاقے مین ہٹن چلا جائے اور مشہور و معروف ٹائم اسکوائر میںرنگ و نور اور روشنیوں کے سیلاب کا نظارہ کیا جائے لیکن ہم بڑوں نے امریکا پہنچتے ہی امریکی روپ دکھاتے ہوئے اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا اور یوں بات گزشتہ روز تک ٹل گئی۔
بلاشبہ امریکا کی سر زمین کو انسانوں کے مفاد میں بہتر ین قرار دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے یہاں پر اگر آپ ایمانداری سے محنت کریں تو ترقی کے بے بہا مواقع آپ کے منتظر ہیں اور کوئی آپ کو روک نہیں سکتا کیونکہ چند روز میں میرا مشاہدہ رہا ہے کہ یہاں پر آئین اور قانون کی بالادستی ہے جس میں ہر شخص کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اور اس بالادستی نے امریکا کے سپر پاور بننے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔
قانون کا اس قدرخوف ہے کہ کوئی بڑا جرم تو کجا ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی بھی نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا اتنی سخت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے مجرم سیدھے ہو جاتے ہیں اور کسی جرم کی خلاف ورزی کا کیس اس وقت تک داخل دفتر نہیں ہوتا جب تک جرم کی مکمل تفتیش کے بعد ملزم کو سزا نہ ہو جائے ۔امریکا معاشرے میں اگر اچھائیاں زیادہ ہیں تو برائیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم جیسے نام نہاد شرفاء کے لیے خرافات جا بجا موجود ہیں اور دعوت گناہ دیتی ہیں۔ بس بس تیرا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ۔
امریکی کھانے کے معاملے میں بہت فراغ دل ہیں۔ آپ ایک آدمی کا کھانا آرڈر کریں تو اتنی وافر مقدار میں ہوتا ہے کہ دو آدمی آرام سے اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں۔ ہوٹل میںصبح کا ناشتے بھی ایسا ہی تھا ۔کافی چوبیس گھنٹے دستیاب تھی لیکن ہم نے بچ بچا کر آلوؤں کے قتلوں اور ڈبل روٹی سے ہی ناشتے میں عافیت جانی ،ناشتے میں چائے تو تھی لیکن اپنے والا ذائقہ نہ تھا لہٰذا امریکی کافی پر آخر بات ٹھہر گئی جس نے ہمارے سفر کی تھکان کو کافور کر دیا ۔
(جاری ہے)
آج ہم اسے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے نام سے جانتے ہیں۔ اس خطے نے دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام سے متعارف کرایا اور اس نظام کی خرابیوں کی بدولت آج تک ترقی پذیر ممالک کا استحصال جاری ہے۔ امریکا کے سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔میرا مقصد اس نظام کی برائیاں بیان کرنا ہر گز نہیں ہے لیکن میں نے پہلی دفعہ امریکا یاترا میں جو مشاہدہ کیا، وہ میں اپنے قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں.
آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ میں نے امریکا کی دریافت 4 202 میں کی۔ پاکستان سے کینیڈا کا سفر اپنی قومی ایئر لائن کی بھر پور میزبانی میں نہایت آرام دہ رہا، اگر میں یہ کہوں کہ پی آئی اے کے فضائی میزبانوں نے اپنی روایتی مشرقی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹورنٹو پہنچے ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے اور نیند کا خمار باقی تھا کہ میزبان سجاد عباس نے رات کے ایک بجے یہ حکم صادر کر دیا کہ صبح سویرے ہم نیویارک کے لیے روانہ ہو رہے ہیں لہٰذا سحر خیزی ضروری ہے ۔ اجنبی ملک میں میزبان ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔ یوں منہ اندھیرے عازم نیویارک ہو گئے ۔
ٹورنٹو سے قریب ترین امریکی سرحد نیاگرا فال کی ہے، ایک گھنٹے کے بعد ہم تھے اور امریکا کی بارڈر سیکیورٹی فورس کے اہلکار تھے جنھوں نے گاڑی میں پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی حکم صادر کر دیا کہ اندر کمرے میں چلے جائیں ۔ گاڑی پارک کر کے ایک ہال کمرے میں بیٹھ گئے جہاں پر طویل انتظار کا مرحلہ شروع ہوا۔ ہمارے بعد بھی کئی فیملیز کو جانچ پڑتال کے لیے اندر بلایا گیا لیکن انھیں فوراً ہی اجازت بھی مل گئی۔ ہمیں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ایک کھڑکی پر بلایا گیا، میں بلاوے پر اٹھا لیکن وہاں موجود اہلکار نے مجھے اشارہ کیا کہ تمہاری کوئی ضرورت نہیں البتہ اس نے میرے بیٹے کو بلا لیا اور اس سے انٹرویو شروع کردیا۔ بات تعلیم سے شروع ہو کر پشاور تک پہنچ گئی ۔ نوشیروان نے انھیں بتایا کہ وہ کبھی پشاور نہیں گیا۔ کمپیوٹر پراہل خانہ سمیت انگلیوں کے نشان ثبت کیے اور یوں ہمیں امریکا میں داخلے کا پروانہ مل گیا۔
امریکا کیا ہے، ایک خوبصورت ترقی یافتہ ملک جس کی ترقی کی رفتار کی خوبیوں کو جتنا بھی بیان کیا جائے کم ہے۔ سرسبز پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہموار شاہراہیں ، حد نگاہ تک پھیلے سرسبز کھیت ، جا بجا سفری سہولیات جن میں ہوٹلز اور موٹلز کی ایک کثیر تعداد شامل ہے تا کہ طویل سفر میں اگر آپ آرام کرنا چاہیں تو اپنے بجٹ کے مطابق ہوٹل دستیاب ہے ۔ شہروں سے دور اچھے ہوٹلوں کی موجودگی کے سوال پر جواب ملا کہ چونکہ امریکا میں زمینی سفر کافی طویل ہیں تو مسافران ہوٹلز کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ٹورنٹو سے نیویارک کا زمینی سفر آٹھ گھنٹے کا ہے، راستے میں اگر آرام کے لیے رک جائیں تو یہ لگ بھگ دس گھنٹے پر محیط ہو جاتا ہے ۔
میں پاکستان سے بین الاقوامی ڈرائیونگ لائسنس اپنے دوست علی نواز کی وساطت سے بنوا کر گیا تھا جس سے مجھے امریکا کے سفر میں کافی سہولت میسر آگئی اور میزبان نے ایک گاڑی میرے سپرد کر دی ۔ الٹے ہاتھ کی ڈرائیونگ کا پہلا تجربہ تھا جو کامیاب رہا کیونکہ امریکا میں ڈرائیونگ اور ٹریفک قوانین کی سختی سے پابندی کرائی جاتی ہے، اس لیے غلطی کا احتمال کم ہی ہوتا ہے ۔
موبائل پر سفر کے راستے کی رہنمائی میرے جیسے اجنبیوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں، اس رہنمائی کے بل بوتے پر رات کے کھانے پر نیویارک کے مرکزی علاقہ سے متصل پہلے سے بک کیے گئے ہوٹل میں پہنچ گئے ۔ ٹورنٹو سے چلتے وقت میری بہن سائرہ نے تازہ کھانا بنا کر ساتھ رکھ لیا تھا تا کہ تھکے حلال کھانے کی تلاش میں خواری نہ کرنا پڑے۔ ہوٹل کی لابی میں بیٹھ کر کھانا کھایا گیا ۔ بچوں کا بھر پور اصرار تھا کہ اسی وقت نیویارک کے مرکزی علاقے مین ہٹن چلا جائے اور مشہور و معروف ٹائم اسکوائر میںرنگ و نور اور روشنیوں کے سیلاب کا نظارہ کیا جائے لیکن ہم بڑوں نے امریکا پہنچتے ہی امریکی روپ دکھاتے ہوئے اپنا ویٹو کا حق استعمال کیا اور یوں بات گزشتہ روز تک ٹل گئی۔
بلاشبہ امریکا کی سر زمین کو انسانوں کے مفاد میں بہتر ین قرار دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے یہاں پر اگر آپ ایمانداری سے محنت کریں تو ترقی کے بے بہا مواقع آپ کے منتظر ہیں اور کوئی آپ کو روک نہیں سکتا کیونکہ چند روز میں میرا مشاہدہ رہا ہے کہ یہاں پر آئین اور قانون کی بالادستی ہے جس میں ہر شخص کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اور اس بالادستی نے امریکا کے سپر پاور بننے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔
قانون کا اس قدرخوف ہے کہ کوئی بڑا جرم تو کجا ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی بھی نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا اتنی سخت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے مجرم سیدھے ہو جاتے ہیں اور کسی جرم کی خلاف ورزی کا کیس اس وقت تک داخل دفتر نہیں ہوتا جب تک جرم کی مکمل تفتیش کے بعد ملزم کو سزا نہ ہو جائے ۔امریکا معاشرے میں اگر اچھائیاں زیادہ ہیں تو برائیوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم جیسے نام نہاد شرفاء کے لیے خرافات جا بجا موجود ہیں اور دعوت گناہ دیتی ہیں۔ بس بس تیرا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ۔
امریکی کھانے کے معاملے میں بہت فراغ دل ہیں۔ آپ ایک آدمی کا کھانا آرڈر کریں تو اتنی وافر مقدار میں ہوتا ہے کہ دو آدمی آرام سے اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں۔ ہوٹل میںصبح کا ناشتے بھی ایسا ہی تھا ۔کافی چوبیس گھنٹے دستیاب تھی لیکن ہم نے بچ بچا کر آلوؤں کے قتلوں اور ڈبل روٹی سے ہی ناشتے میں عافیت جانی ،ناشتے میں چائے تو تھی لیکن اپنے والا ذائقہ نہ تھا لہٰذا امریکی کافی پر آخر بات ٹھہر گئی جس نے ہمارے سفر کی تھکان کو کافور کر دیا ۔
(جاری ہے)