مائیک سسٹم اور غریب عوام
چار ارب چالیس کروڑ کی لاگت سے بنی ہوئی عمارت میں بیٹھے کا حق رکھنے والے
چار ارب چالیس کروڑ کی لاگت سے بنی ہوئی عمارت میں بیٹھے کا حق رکھنے والے اگر 50 کروڑ کی امداد کا اعلان کر دیں تو کیا مضائقہ ہے۔ سندھ اسمبلی کے نئے ہال میں جو اجلاس منعقد کیا گیا اس کی خوبصورتی کے بہت چرچے ہورہے ہیں۔ آرام دہ کرسیاں خوشگوار پرسکون ماحول ہے۔ سنا ہے کہ 300 اسمبلی ممبرز آرام سے وہاں بیٹھ سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اسٹاف اور اہم شخصیات کے لیے بھی الگ الگ گیلریاں تیار ہیں، میڈیا اور مہمانوں کے لیے آرام دہ اور بڑی گیلریاں تیار کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے جہاں غریب، بھوکے ننگے عوام کے مسائل پر بات ہو گی وہ جگہ تو کم از کم پرسکون ہونی چاہیے۔ مسئلہ صرف ایک ہے کہ اس میں آواز نہیں آ رہی تھی۔
شاہد مائیک سسٹم ابھی صحیح نہیں بنا پھر بھی شاباش ہو کہ اس عالم میں بھی بجٹ کا اہم اجلاس نئے ہال میں منعقد کیا گیا۔ رہی بات آواز نہ آنے کی تو یہ عام سی بات ہے۔ کہ یہ مسئلہ ہمارا قومی مسئلہ ہے ہم ایک دوسرے کی آواز سن نہیں سکتے۔ رہی بات اسمبلی کی تو، وہاں تو ہر کسی کو بات کرنی ہوتی ہیں چلیں چھوڑیں ضروری تھوڑی ہوتا ہے۔ شیشوں کے پار دیکھا تو جا سکتا ہے پر سنا نہیں جا سکتا۔ چلیں بحث چھوڑیے جو بھی ہو عوام چیختے رہیں، عوام کے پاس جو مائیک ہیں وہ بھی خراب ہے اسی لیے ارباب اختیار کی سماعتیں آہوں اور کراہوں سے بچی رہتی ہیں۔ اچھا ہی ہوا کہ انھوں نے عوام کی آواز سنی نہیں ورنہ کہاں وہ وزیرستان کے متاثرین کے لیے امداد کا اعلان کر پاتے۔
سندھ میں پھیلی ہوئی بے چینی کو کس نے دیکھا ہے۔ جہاں غریب بچے بیچ دیتے ہیں، یا جہاں غربت سے تنگ آئے ہوئے لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ جہاں مائیں بچوں کو زہر دے کر خود بھی زہر پی لیتی ہیں ۔ ابھی چند ہی دن ہوتے ہیں کہ لاڑکانہ کی ایک عورت نے اپنے بچوں کو زہر دے دیا اور خود بھی خودکشی کی کوشش کی۔
سندھ وہ امیر صوبہ ہے جہاں لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔ عام مزدور ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے تو دوسرے دن وہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ روز کما کر، روز کھانے والے تو اپنے بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیج سکتے۔ راستوں میں بھاگتے دوڑتے بچے ہاتھ پھیلا کر 10 روپے، پانچ روپے مانگتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں کھانا، کھانا ہوتا ہے۔ فروٹ بیچنے والا، سبزی بیچنے والا اپنے گھر میں یہ چیزیں لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
سندھ میں تھر میں جب قحط آیا تو 300 کے قریب بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسپتالوں میں دوائیں نہیں تھیں۔ ڈاکٹر نہیں تھے۔ سندھ صوبہ ہے جہاں خسرہ سے سیکڑوں بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی تباہی کا رونا ہر کوئی روتا نظر آتا ہے۔
لوگ یہ سمجھتے تھے کہ غریب صوبے میں ایسے مسائل جلدی حل نہیں ہو سکتے کیوں کہ بڑے پیمانے پر اصلاحات کے لیے بڑے پیمانے کا بجٹ بھی تو چاہیے نا۔۔۔! ٹھٹھہ اور کراچی کے ساحلی علاقوں میں آنے والے سیلاب سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔
کیٹی بندر، کھارو چھار کے 200 گائوں متاثر ہوئے۔ 8 ہزار لوگ بے گھر ہوگئے۔ اور سجاول کی طرف نقل مکانی کر گئے۔27 ہزار لوگ متاثر ہوئے۔ ٹھٹھہ اور جاتی کے گائوں زیر آب آ گئے۔ لوگ دربدر ہوتے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے دو کروڑ کا اعلان کر دیا۔ لیکن امداد ان تک نہیں پہنچ سکی۔ اور نہ ہی ان لوگوں کو شہری علاقوں کی طرف منتقل کیا گیا۔ اور آئینی اور قانونی طور پر تو ان کو بھی ملک کے کسی بھی علاقے میں جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔
اب جب بات نکلی ہے شمالی وزیرستان کے لوگوں کی تو وہ لوگ وہاں جائیں گے جہاں ان کے جاننے والے ہوں گے۔ رشتے دار ہونگے۔ جہاں ان کا اثر و رسوخ ہو گا۔ سندھ اس وقت ملٹی نیشنل علاقہ بنتا جا رہا ہے۔ جہاں پر ہر صوبے کے لوگ رہتے ہیں کچھ ایسے ہے جو نسل در نسل رہیں چلے آ رہے ہیں اور زبان بھی سندھی بولتے ہیں۔ کراچی کے مسائل سے کون آگاہ نہیں۔ آج کراچی جل رہا ہے۔ روشنیوں کا شہر، قبرستان کا سا منظر پیش کرنے لگا ہے۔ اس کے ذمے دار کون ہے؟ مختلف مافیاوں میں گھرا ہوا بے بس شہر اب پناہ مانگتا ہے۔
نقل مکانی سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنا بہت مشکل ہے۔ تکلیف میں مبتلا لوگوں کو تو وزیر اعلیٰ نے کھلے دل سے خوش آمدید کہ دیا۔ وہ ٹھیک ہے۔ لیکن کیا ہماری انتظامیہ لاکھوں لوگوں میں ملکی اور غیر ملکی کی شناخت کر پائے گی؟
کون دہشت گرد ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ دہشت گرد کتنے طاقتور ہیں کیا ہم نہیں جانتے۔ ملک اہم ادارے ان کے نشانے پر ہیں۔ یہ غیر ملکی جب ملک میں داخل ہوئے تھے تب بھی کسی نے نہیں پہچانا۔ آج کراچی کی آبادی میں ہمیں نمایاں طور پر پٹھان نظر آتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ، اور کاروبار پر وہ قابض ہیں۔ وہ چند سیکنڈز میں ٹرانسپورٹ بند کر کے کراچی کو سارے ملک سے الگ کاٹ کے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہت سارے افغانی، ازبک ہیں جو کہ اب پاکستان کے شہری بن چکے ہیں۔ کچی آبادیوں میں رہنے والے اب شہری علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 13 لاکھ افغانی اب پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بنوانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب ہم کہاں کہاں چوکیاں بنائیں گے؟ چیکنگ کہاں سے شروع ہو گی؟
اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
بات صرف سندھ کی نہیں ہے بات سارے ملک کی سلامتی کی ہے۔ سندھ پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ بات ان کو پتہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے۔ ہماری پرکشش بندرگاہ پر سب کی نظریں ہیں۔ سارے لوگ اگر ہمارے شہروں اور علاقوں پر قابض ہوتے چلے جائیں گے تو پھر ہم کہاں جائیں گے؟
یہ تو طے تھا کہ جنگ ہوگی تو لوگ دربدر ہونگے۔ پھر کیا حفاظتی اقدامات کیے گئے؟
لوگ تو بھٹکتے ہیں۔ لوگوں کا مقدر سے بھٹکنا۔۔۔
لوگ مرتے ہیں، لوگوں کا مقدر ہے مرنا۔۔۔۔
ہم سب کچھ مقدر کا لکھا سمجھ کر قبول کرتے چلے جاتے ہیں اور جو لوگ ووٹ لے کر مقدر لکھنے کا حق کہتے ہیں وہ لاعلم ہی رہتے ہیں۔ یہ لاکھوں لوگ جب ہمارے شہروں میں آئیں گے تو کیا شہری مراعات مل سکیں گے؟
وہ سارے حقوق جن سے سندھ لوگ ابھی تک محروم ہیں۔ سماجی معاشی اقدار کے بدلتے ہوئے طوفانوں کو کون روکے گا؟ یہ جنگ پوسٹ پہ چوکیاں آنے والی جنگ کو روک پائیں گی؟یہ جنگجو قبائلی، بات پہ بات مرنے مارنے پر تلنے والے اور سندھ کا مہمان نواز کلچر، دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک دوسرے میں ختم ہوتے ہیں؟
آئین، قانون کے تحت کسی بھی ملکی شہری کو دوسرے شہر جانے سے نہیں روکا جاسکتا، ہمیں غیر ملکوں کو تو روکا جاسکتا ہے۔
رہی بات امداد دینے کی تو اعلان کرتے رہیں۔ کوئی بات نہیں۔۔۔۔! غریب عوام کی امیر حکومت بھلے امداد بانٹے، خیر و خیرات کرے نہ ۔ لیکن کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اگر مائیک سسٹم صحیح کروادیں تو سب کا بھلا ہوگا۔ تاکہ ایک دوسرے کی باتیں سن بھی سکیں۔ اور ہاں آخری بات ذرا ایک جدید مائیک اس بھوکی، روتی، بسورتی، چیختی عوام کو دلا دیں تا کہ اس کی آواز بھی دور تک پہنچ سکے۔