ہم کون ہیں

قارئین کرام! آج سے ہٹ کر اگر میں ماضی میں جھانکوں تو میرا ہی ایک سوال میرے سامنے آ کھڑا ہو جاتا ہے،


Doctor Nasir Mustehsan July 02, 2014

قارئین کرام! آج سے ہٹ کر اگر میں ماضی میں جھانکوں تو میرا ہی ایک سوال میرے سامنے آ کھڑا ہو جاتا ہے، اور وہ سوال اپنے آپ میں بہت ہی معصومانہ ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ پاکستانی ایک قوم ہیں یا ہم کئی قوموں کے باہم ملاپ کے بعد پاکستانی کہلائے جاتے ہیں آج کا کالم اپنے آپ ہی میں دلچسپ ہے، اس سوال کی ذیلی شاخیں ہیں مثلاً قوم کیا ہوتی ہے؟ قومیت کا مسئلہ کب زور پکڑتا ہے؟ اور قومیت کے مسئلے کو اچھالتا کون ہے؟

کسی ایک مخصوص جغرافیائی علاقے میں رہنے والے لوگ جن کا رہن سہن یعنی تمدن، ثقافت، زبان، ذہنی ساخت یعنی نفسیات بنیادی طور پر ایک سے ہوں، اور ان لوگوں کے باہمی معاشی مفادات بھی ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کی سیاست میں بھی ہم آہنگی پیدا کی جا چکی ہو ایک قوم کہلا سکتے ہیں، ہمیں جو بات شدت کے ساتھ دیکھنی ہے اور جو اہم نکتہ سمجھنا ہے کہ آیا پاکستانی من حیث المجموعی ایک قوم کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

میرا اپنا ہی خود سے یہ سوال ہے اور میرا اپنا ہی یہ جواب ہے کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں اگر ایسا نفی میں ہوتا یا میں یہ کہہ سکتا کہ ہم ایک قوم ہیں تو مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش میں تبدیل ہو جانا ہی اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ پاکستانی قوم نہیں بلکہ مختلف قومیتوں پر مشتمل آبادی ہے، قومیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو اضافی ہوتی ہے اور مختلف ادوار میں مختلف گروہ اسے مختلف معنی پہناتے ہیں اور وہ اسے طرح طرح کا رنگ دے سکتے ہیں لیکن قومیتوں کی اہمیت پر زور دینے کے لیے عموماً دو عوامل بنیاد بنتے ہیں یعنی زبان اور معاشی مفادات۔

اب یہاں سے میرے ہی سوال کی تیسری ذیلی شاخ یعنی قومیت کا مسئلہ کب زور پکڑتا ہے؟ تو ہوتا کچھ یوں ہے کہ جوں جوں پیداواری ذرایع بڑھتے ہیں توں توں ان کی ملکیت کا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے، پیداواری ذرایع صنعتوں سے لے کر معدنیات کی کان کنی تک اور زراعت میں پیش رفت سے لے کر...پیشوں میں ترقی تک پر مشتمل ہیں جیسے پہلے کہا گیا زبان اور معاشی مفادات ہی اہم ترین عوامل ہیں جو قومیتوں کے مسئلے کی بنیاد بنتے ہیں جس ایک زبان کے بولنے والے ذرایع پیداوار کے اصل مالکان یادفتری کارپرداز ان سے کسی نہ کسی صورت وابستہ ہوں وہ دوسری زبانیں بولنے والوں کے علاقوں میں بڑھتے ہوئے ذرایع پیداوار پر مختلف کاموں پر کھپتے چلے جاتے ہیں یوں یہ دو دھاری تلوار والا مسئلہ بن جاتا ہے ایک تو یہ کہ مقامی آبادی میں غیر مقامی آبادی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔

دوسرے یہ کہ مقامی اصل لوگوں کا حق دوسرے علاقوں اور دوسری زبان بولنے والوں کے اہل حتیٰ کہ نااہل لوگوں تک کی کھپت سے مسلسل کم ہوتا چلا جاتا ہے اس طرح نہ صرف انھیں آمدنی میں کم حصہ ملتا ہے بلکہ ان کے اختیارات میں بھی بتدریج یا بعض مراحل میں تیزی کے ساتھ صلب ہوکر غالب لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتے چلے جاتے ہیں، یہ ایسا ہی ہے کہ ایک صبح لاہور کا ایک شہری بازار جائے تو دودھ دہی کی دکان پر پہلوان کے بجائے سندھی ماٹھو تھادل لیے بیٹھا ہو، وہ دل گرفتہ ہوکر واپس لوٹ آئے گا، دفتر جانے کے لیے بس میں سوار ہوتے ہیں تو کنڈیکٹر سندھی پاتے ہیں یا بلوچ، سرائیکی جو پنجابی کم سمجھتا ہے نتیجہ الجھن، وہ سائیکل یا موٹربائیک پر ہیں، ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی ورزی ہو جاتی ہے۔

چالان کرنے والا ٹریفک کانسٹیبل سندھی ہے، آپ جتنی منت سماجت کر لیں نتیجہ وہی کہ اس کے پلے آپ کی مقامی زبان نہیں پڑتی، میں نے اس علاقے کا ذکر جہاں پنجابی زیادہ بولی جاتی ہے اور وہاں وہ آدمی جو کسی دوسرے صوبے کا ہے اس لیے بھی کیا کہ یہ مسئلہ بہت ہی عام ہے اب آپ مجھ کو یہ بتائیے کہ جب ایسی صورت حال ہر صوبے میں ہو جہاں کسی کی زبان کسی کی سمجھ میں نہیں آتی اور جو زبان آپ بولتے ہیں اگلا اس سے لاعلم ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے مافی الضمیر سے لے کر فیصلے تک تمام کام غلط ہو جائیں گے۔

مثال کے طور پر کراچی میں اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے اب جب کسی دفتر میں کوئی سندھی یا پنجابی آفیسر تعینات ہو وہاں کوئی دکھیارا اپنی بپتا اس کو اردو میں سنائے تو وہ اس کے سر کے اوپر سے گزرے گی بہ نسبت اس کے جو وہ زبان جو آفیسر جانتا ہو، یہاں قومیتوں کا تضاد ہے چلیے یہ تو ایک تصور ہے اگر واقعتاً یہ عمل سال یا دو سال یا دس سال میں ہو جائے تو کیا رنج، نفرت، انتقام اور تمام تر منفی کیفیات کا پیدا ہونا غیر فطری ہو گا، نہیں ہرگز نہیں۔

اب آپ کو آپ کے یعنی کہ (قارئین) آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل گیا اب ترقی کے اس تاریخی مرحلے میں جب سرمایہ داری...رہی ہوتی ہے اور سرمایہ دارانہ رشتے پھل پھول رہے ہوتے ہیں اور غالب قومیت کے لوگ چھوٹی یا مغلوب قومیت کے اہل لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اس قومیت کے علاقے کے پیداواری اور انتظامی وسائل میں کھپتے چلے جاتے ہیں تو قومیت کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے۔

میں نے اپنے اس کالم میں دو تین جز صرف اس لیے ہی اس وبال کے لیے مختص کیے ہیں تا کہ کوئی بھی ذی نفس کسی شک و شبے میں نہ رہے، یعنی میں نے اپنے کالم کے آغاز میں تین چار عوامل بتا دیے ہیں جو میرے سوال ہی کی ذیلی شاخیں ہیں میرے ہی سوال کے آخری جز یعنی قومیت کا مسئلہ اٹھاتا کون ہے؟ تو جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ سرمایہ داری نظام کا ابھرتا ہوا تاریخی مرحلہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب قومیت کا مسئلہ زور پکڑتا ہے۔

سیدھی سی بات ہے کہ وہ سرمایہ دار جو جاگیرداری کے ٹوٹنے کے عمل سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور عموماً جاگیرداری سے سرمایہ داری کی طرف آتا ہے تو اسے وسیع تر اور موثر منڈی کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنی پیدا کردہ اشیا کی کھپت بھی وہ تبھی کر سکتا ہے جب آبادی سے روابط گہرے، واضح اور بے لاگ ہوں اور اس رابطے کے عمل میں یقینا مقامی درمیانہ طبقے کے اہل افراد ہی اسب سے اچھا اور بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس طرح یہ ابھرتا ہوا سرمایہ دار ہی ہوتا ہے جو درمیانے طبقے (متوسط) کے پڑھے لکھے، پرجوش، موثر لیکن بے روزگار نوجوانوں کے کندھوں پر رکھ کر اپنی بندوق چلاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات وہ بے حد چالاکی سے ''سیاسی طریقے'' پر اس عمل کو ہوا دے رہا ہوتا ہے اور بعض اوقات معاشی عدم توازن کا رونا رو کر قومیت کی رنجش کی آگ کو بھڑکا رہا ہوتا ہے۔

حقیقت میں اس کا مسئلہ ایک ہی ہوتا ہے یعنی منڈی پر قبضہ تا کہ سہل اور عام فہم زبان والی منڈی میں اس کے Products کی کھپت وسیع سے وسیع تر بنیادوں پر ہو، اچھا اب کیا ہوتا ہے یعنی یہ جو قومیتوں کے مسئلے ہیں یہ بالعموم کسی خاص طبقے کے حق میں سجایا کرتے ہیں ظاہر ہے کہ جب سرمایہ داری نظام ابھر رہا ہوتا ہے تو قومیت کا مسئلہ بھی اپنا سر اٹھا رہا ہوتا ہے اور سرمایہ دار ہی اس کا پشت پناہ ہوتا ہے چنانچہ قومیت کا مسئلہ سراسر سرمایہ دار بالخصوص قومی سرمایہ دار کے حق میں جاتا ہے جس میں وہ درمیانے طبقے کی بالائی پرت اور کسی حد تک نچلی پرت کو بھی شعوری طور پر حصہ دار بناتا ہے۔ قومیتوں کا مسئلہ معاشرے پر منفی اثرات یا کبھی مثبت بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں