نیگلیریا فولیری
احتیاط ہی اس مہلک جرثومے سے بچا سکتی ہے
گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ شہریوں کی بڑی تعداد سوئمنگ پولز اور فارم ہاؤسز کا رخ کرتی ہے اور اس دوران پانی میں موجود مہلک جرثوما نیگلیریا فولیری ان کے دماغ پر حملہ کرسکتا ہے۔
تیراکی کا شوق رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ سوئمنگ پولز کے پانی میں مناسب مقدار کلورین شامل ہونے کا یقین کرلیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی نہ برتیں۔ موسمِ گرما میں یہ جرثوما انتہائی متحرک ہو جاتا ہے اور رواں برس ملک کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی کی وجہ سے محکمۂ صحّت نے سوئمنگ پولز میں نہانے اور گھروں میں پانی کے استعمال کے دوران احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کی ہے۔
نیگلیریا فولیری گرمیوں کے موسم میں تازہ پانی مثلاً جھیلوں، تالابوں، سوئمنگ پولز اور گھروں میں موجود واٹر ٹینکوں میں پرورش پاتا ہے۔ یہ ایسا امیبا ہے، جسے بہت زیادہ درجۂ حرارت میں زندہ رہنے اور پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ماہرین کے مطابق صاف پانی میں اس کی موجودگی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ گھروں میں موجود ایسے واٹر ٹینکوں میں جو کسی طرح سورج کی تپش کے باعث گرم ہوجائیں، آسانی سے پرورش پاتا ہے۔ اسی طرح یہ جرثوما ان سوئمنگ پولز میں پروان چڑھتا ہے، جن میں کلورین مناسب مقدار میں نہ شامل ہو۔ ضروری ہے کہ واٹر ٹینکوں اور پانی ذخیرہ کرنے کے بعد برتنوں پر ڈھکن رکھا جائے تاکہ یہ جرثوما ان میں داخل نہ ہو سکے۔
گھروں میں نہانے کے دوران ناک میں پانی ڈالنے اور دھونے کے دوران بھی یہ جرثوما دماغ تک پہنچ کر زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ یہ جرثوما ناک میں جذب ہوکر ایک رگ کے ذریعے دماغ میں چلا جاتا ہے۔ وہاں دماغ کے سامنے یعنی آنکھ کے اوپر کے حصے میں جمع ہونے کے بعد دماغ میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے متاثر کرتا ہے۔
نیگلیریا فولیری کی علامات نزلہ زکام کی طرح ہوتی ہیں۔ اس میں سر میں شدید درد ہوتا ہے اور پھر متأثرہ فرد کو سانس میں تکلیف محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ مریض گردن میں درد کی شکایت کرتا ہے اور پھر اس کی گردن اکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ دماغ کے اوپر موجود جھلی پر ورم آجانا ہے اور یہ اس خطرناک جرثومے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ یک خلوی جاندار اس جھلی کو چاٹ جاتا ہے اور پھر دماغ کے ٹشوز کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے مریض کی سانس رکنے لگتی ہے اور انسان کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس جرثومے سے متأثرہ 97 فی صد افراد کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ جرثوما انتہائی مہلک ہے اور اس کا کوئی باقاعدہ علاج موجود نہیں۔ اس سے بچنے کے لیے احتیاط ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق اس دماغ خور امیبا سے متاثرہ پانی پینے سے انفیکشن کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ کسی متأثرہ فرد سے دوسرے صحّت مند انسان کو منتقل ہونے والی بیماری نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق پانی کو ابال کر پینے یا اس میں کلورین ملانے سے موسمی بیماریوں سمیت نیگلیریا کے جرثومے سے بچا جا سکتا ہے۔ ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہو تو صرف ابلا ہوا یا کلورین ملا پانی داخل کریں۔ ٹھنڈے پانی میں اس کے پائے جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں اور اسی طرح نمکین پانی یعنی سمندر میں بھی نہیں پایا جاتا۔
تیراکی کا شوق رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ سوئمنگ پولز کے پانی میں مناسب مقدار کلورین شامل ہونے کا یقین کرلیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی نہ برتیں۔ موسمِ گرما میں یہ جرثوما انتہائی متحرک ہو جاتا ہے اور رواں برس ملک کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی کی وجہ سے محکمۂ صحّت نے سوئمنگ پولز میں نہانے اور گھروں میں پانی کے استعمال کے دوران احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کی ہے۔
نیگلیریا فولیری گرمیوں کے موسم میں تازہ پانی مثلاً جھیلوں، تالابوں، سوئمنگ پولز اور گھروں میں موجود واٹر ٹینکوں میں پرورش پاتا ہے۔ یہ ایسا امیبا ہے، جسے بہت زیادہ درجۂ حرارت میں زندہ رہنے اور پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ماہرین کے مطابق صاف پانی میں اس کی موجودگی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ گھروں میں موجود ایسے واٹر ٹینکوں میں جو کسی طرح سورج کی تپش کے باعث گرم ہوجائیں، آسانی سے پرورش پاتا ہے۔ اسی طرح یہ جرثوما ان سوئمنگ پولز میں پروان چڑھتا ہے، جن میں کلورین مناسب مقدار میں نہ شامل ہو۔ ضروری ہے کہ واٹر ٹینکوں اور پانی ذخیرہ کرنے کے بعد برتنوں پر ڈھکن رکھا جائے تاکہ یہ جرثوما ان میں داخل نہ ہو سکے۔
گھروں میں نہانے کے دوران ناک میں پانی ڈالنے اور دھونے کے دوران بھی یہ جرثوما دماغ تک پہنچ کر زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ یہ جرثوما ناک میں جذب ہوکر ایک رگ کے ذریعے دماغ میں چلا جاتا ہے۔ وہاں دماغ کے سامنے یعنی آنکھ کے اوپر کے حصے میں جمع ہونے کے بعد دماغ میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے متاثر کرتا ہے۔
نیگلیریا فولیری کی علامات نزلہ زکام کی طرح ہوتی ہیں۔ اس میں سر میں شدید درد ہوتا ہے اور پھر متأثرہ فرد کو سانس میں تکلیف محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ مریض گردن میں درد کی شکایت کرتا ہے اور پھر اس کی گردن اکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ دماغ کے اوپر موجود جھلی پر ورم آجانا ہے اور یہ اس خطرناک جرثومے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ یک خلوی جاندار اس جھلی کو چاٹ جاتا ہے اور پھر دماغ کے ٹشوز کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے مریض کی سانس رکنے لگتی ہے اور انسان کا بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس جرثومے سے متأثرہ 97 فی صد افراد کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ جرثوما انتہائی مہلک ہے اور اس کا کوئی باقاعدہ علاج موجود نہیں۔ اس سے بچنے کے لیے احتیاط ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق اس دماغ خور امیبا سے متاثرہ پانی پینے سے انفیکشن کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ کسی متأثرہ فرد سے دوسرے صحّت مند انسان کو منتقل ہونے والی بیماری نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق پانی کو ابال کر پینے یا اس میں کلورین ملانے سے موسمی بیماریوں سمیت نیگلیریا کے جرثومے سے بچا جا سکتا ہے۔ ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہو تو صرف ابلا ہوا یا کلورین ملا پانی داخل کریں۔ ٹھنڈے پانی میں اس کے پائے جانے کے امکانات کم ہوتے ہیں اور اسی طرح نمکین پانی یعنی سمندر میں بھی نہیں پایا جاتا۔