مفاہمت کا پیغام

لیکن تحریک انصاف کے دوستوں کے لہجے بدلے بدلے نظر آرہے ہیں


مزمل سہروردی August 01, 2024
[email protected]

تحریک انصاف کی اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی کی پالیسی میں کچھ تبدیلی نظر آرہی ہے۔ آج سے ایک ماہ پہلے بلکہ چند دن قبل تک بھی پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے آرمی چیف اور فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا رہا تھا۔

ایسی وڈیوز پوسٹ کی جا رہی تھیں جن سے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ جنگ کا ماحول بن رہا تھا۔ بیرون ملک تحریک انصاف کے حامی بھی مہم چلا رہے تھے۔تا ہم گزشتہ ہفتے ہم نے بانی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کی اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی پالیسی میں تبدیلی دیکھی ہے۔اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلی تبدیلی لہجے میںآئی ہے۔ پہلے جنگل کا بادشاہ جیسے القاب سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن اب بات آپ جناب تک پہنچ گئی ہے۔یہ کوئی چھوٹی تبدیلی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی سے بڑا گلہ ہی بد تمیزی کا ہے۔

پالیسی کی اسی تبدیلی کے تسلسل میں بانی تحریک انصاف نے اب یہ بھی کہا ہے کہ انھوں نے تو کبھی فوج مخالف مہم نہیں چلائی ہے'صرف تنقید کی ہے۔ تا ہم اب وہ فوج سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ فوج ایک رابطہ افسر مقرر کرے جو ان سے بات چیت اور مذاکرات کرنے کا مجاز ہو۔

مجھے تو ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ وہ جب سے اقتدار سے نکلے ہیں' فوج سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی جب سے آرمی چیف کا منصب سنبھالا ہے بانی تحریک انصاف تب سے ان سے ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف ان کے خلاف نو مئی کی سازش بھی کر رہے تھے اور دوسری طرف ان سے ملاقات کی کوشش بھی کرتے رہے۔ اب بھی آرمی چیف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھر پور مہم چلانے کے بعد وہ ان سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

کیا یہ کہنا کافی ہے کہ ہم نے کبھی فوج اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف مہم نہیں چلائی۔جب کہ تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کاؤنٹس پر یہ مواد اب بھی موجود ہے۔ اس مواد کی موجودگی میں کیسے بات ہو سکتی ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ بانی تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کو فی الحال فوج پر تنقید کرنے سے روک دیا ہے لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ یعنی ابہام رہا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے دوستوں کے لہجے بدلے بدلے نظر آرہے ہیں۔ کہیں نہ کہیں پالیسی میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان تو کئی ماہ پہلے ہی ایسی کسی بات چیت کو مسترد کر چکے ہیں۔ ویسے بھی فوج کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ سرکاری طور پر تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف سے بات چیت کے لیے کوئی نمایندہ یا فوکل پرسن مقرر کر دیا جائے۔

بہر حال میں سمجھتا ہوں فی الحال بات چیت ہو یا نہ ہو۔ بانی تحریک انصاف نے مفاہمت کی جو لائن لی ہے۔ اسے قائم رکھنا چاہیے۔ بات چیت کے لیے ماحول تیار کرنا تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کی ذمے داری ہے۔ یہ ماحول فوری نہیں بن سکتا۔ بہت تلخی پیدا ہو چکی ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ فوری کوئی بریک تھرو ممکن ہے۔ لیکن ماحول کو بنایا جائے اور قائم بھی رکھا جائے۔ بانی تحریک انصاف کو سمجھنا ہوگا کہ سب کچھ ان کی مرضی کے تحت نہیں ہو سکتا۔ وہ جب چاہیں لڑائی ہو جائے۔ جب چاہیں صلح ہو جائے۔ اب جب انھوں نے صلح کا فیصلہ کیا ہے تو انھیں دوسرے فریق کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے لیے محنت کرنی چاہیے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ امریکی کانگریس سے قرار داد اور اقوام متحدہ کے ایک گروپ سے قرار داد کے بعد بانی تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اب اسٹبلشمنٹ اور اس کی قیادت دباؤ میں ہے۔ اس لیے اب اگر مذاکرات اور بات چیت کی پیشکش کی جائے گی تو وہ دباؤ کی وجہ سے فوری مان جائیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اندازہ بھی غلط ہے۔ اس کی وجہ سے وہ دباؤ میں نہیں ہیں۔ لیکن زیادہ ناراض ضرور ہیں۔ آئی ایم ایف کے دفتر کے باہر مظاہرے ۔ برطانیہ میں اراکین پارلیمنٹ سے مذاکرات۔ یہ سب ناراضگی کا باعث ضرور ہیں۔ ان کی وجہ سے بات چیت رک سکتی ہے۔ اس کا ماحول نہیں بن سکتا۔

بہر حال میری رائے میں ابھی برف پگھلنا شروع ہوئی ہے۔ لیکن بات چیت کاماحول نہیں ہے۔ ابھی کوئی رعایت ممکن نہیں۔ اس لیے مجھے خدشہ ہے کہ چند دن بعد بانی تحریک دوبارہ محاذ آرائی کی طرف آجائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں ان میں زیادہ صبر نہیں ہے۔ وہ کہنے لگ جائیں گے کہ میں نے تو بات چیت کی کوشش کی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس لیے اب محاذ آرائی ہی ہوگی۔ پھر دوبارہ سے ہم محاذ آرائی دیکھنے لگیں گے۔ شاید اسٹبلشمنٹ اس کے لیے تیار ہے۔ انھیں اندازہ ہے مذاکرات ناکام ہو گئے تب بھی محاذ آرائی ہوگی۔ نہ ہوئے تب بھی محاز آرائی دوبارہ ہوگی۔ اس لیے خاموشی ہی بہتر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں