موبائل فون سروس بند کرنے کا غلط فیصلہ
موبائل فون سروس بند کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے
یوم عشق رسول ﷺ پر پورے ملک میں موبائل فون سروس بند رہی۔ اس وجہ سے ملک بھر کے لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع رہا۔
ٹی وی اسکرین پر جلائوگھیرائو کے مناظر دیکھ کر عوامی پریشانی مزید بڑھی کیونکہ کسی سے کوئی رابطہ ممکن نہیں تھا۔ ہمارے ہاں چوٹی کی سطح پر سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرنے کا چلن عام ہے۔
حکومت کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چند لوگوں سے مشورہ کرتی ہے اور اس فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا ہے۔ موبائل فون سروس بند کرنے کا فیصلہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔بظاہر یہ فیصلہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کیا گیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ عید کے موقعے پر دہشت گردی کا توڑ کرنے کے لیے بھی چاند رات کو ملک کے کئی بڑے شہروں میں موبائل فون سروس معطل کر دی گئی۔
لوگوں نے شدید پریشانی کے باوجود اس فیصلے کو محض اس لیے قبول کر لیا کہ چاند رات امن و امان سے گزر گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہ ہونے کا کریڈٹ موبائل سروس بند کرنے کے اپنے فیصلے کو قرار دیا۔
جمعے کو ''یوم عشق رسولؐ '' منانے کا سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے ایک بار پھر موبائل فون سروس بند کرادی۔ اس بار ملک کے 11 بڑے شہر ان کے اس فیصلے کی زد میں آئے۔ اس فیصلے سے کیا فائدہ ہوا؟ نہ تشدد رکا نہ قتل و غارت میں کمی آئی۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موبائل فون سروس بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔
ذرا سوچیے کہ اگرکسی خاندان کا کوئی فرد گھر سے باہر ہے اورکسی ایمرجنسی میں گرفتار ہو گیا ہے تو وہ کیا کرے گا ۔وہ بیچارہ اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ کر سکتا ہے اور نہ کسی دوست یا کسی ادارے تک رسائی ممکن ہے کیونکہ موبائل فون سروس بند ہے۔
اسی طرح اگر کسی کے گھر یا کسی بلڈنگ میں آگ بھڑک اٹھی ہے تو وہ تب بھی کسی سے کوئی رابطہ نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل فون سروس بند کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پوسٹ پیڈ سروس بند کرنے کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کیونکہ یہ سروس لینے والوں کا تمام ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ پری پیڈ کنکشن میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔
ہزاروں پری پیڈ سمیں اصل شناخت کی تصدیق کیے بغیر جاری کی گئی ہیں۔ انھیں ٹریس کرنے کی ضرورت ہے۔ موبائل فون بند کرنا ایسے ہی ہے جیسے ٹریفک حادثوں کے باعث یہ اعلان کر دیا جائے کہ کوئی گاڑی یا ٹرک سڑکوں پر نہیں چلے گا۔
امریکا اور یورپ میں بغیر تصدیق کے کوئی شخص موبائل سم نہیں لے سکتا۔ حکومت کو اس حوالے سے پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ مشکوک اور بغیر تصدیق جاری ہونے والی پری پیڈ سمیں منسوخ کر کے انھیں دوبارہ جاری کیا جائے اور پوری تصدیق کی جائے تو یہ مسئلہ با آسانی حل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے 'اس کے سدباب کے لیے انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
سیاسی جماعتوں اور مذہبی قیادت اپنے اپنے تعصبات اور مفادات سے باہرنکلے تو دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے۔ موبائل فون بند کرنے سے نہ تو دہشت گردوں کے باہمی رابطوں کو توڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی انھیں کسی ٹارگٹ کو ہٹ کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ موبائل فون سروس بند کرنے کی۔
ٹی وی اسکرین پر جلائوگھیرائو کے مناظر دیکھ کر عوامی پریشانی مزید بڑھی کیونکہ کسی سے کوئی رابطہ ممکن نہیں تھا۔ ہمارے ہاں چوٹی کی سطح پر سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرنے کا چلن عام ہے۔
حکومت کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چند لوگوں سے مشورہ کرتی ہے اور اس فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا ہے۔ موبائل فون سروس بند کرنے کا فیصلہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔بظاہر یہ فیصلہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کیا گیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ عید کے موقعے پر دہشت گردی کا توڑ کرنے کے لیے بھی چاند رات کو ملک کے کئی بڑے شہروں میں موبائل فون سروس معطل کر دی گئی۔
لوگوں نے شدید پریشانی کے باوجود اس فیصلے کو محض اس لیے قبول کر لیا کہ چاند رات امن و امان سے گزر گئی۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہ ہونے کا کریڈٹ موبائل سروس بند کرنے کے اپنے فیصلے کو قرار دیا۔
جمعے کو ''یوم عشق رسولؐ '' منانے کا سرکاری سطح پر اعلان کیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے ایک بار پھر موبائل فون سروس بند کرادی۔ اس بار ملک کے 11 بڑے شہر ان کے اس فیصلے کی زد میں آئے۔ اس فیصلے سے کیا فائدہ ہوا؟ نہ تشدد رکا نہ قتل و غارت میں کمی آئی۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موبائل فون سروس بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا۔
ذرا سوچیے کہ اگرکسی خاندان کا کوئی فرد گھر سے باہر ہے اورکسی ایمرجنسی میں گرفتار ہو گیا ہے تو وہ کیا کرے گا ۔وہ بیچارہ اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ کر سکتا ہے اور نہ کسی دوست یا کسی ادارے تک رسائی ممکن ہے کیونکہ موبائل فون سروس بند ہے۔
اسی طرح اگر کسی کے گھر یا کسی بلڈنگ میں آگ بھڑک اٹھی ہے تو وہ تب بھی کسی سے کوئی رابطہ نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل فون سروس بند کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پوسٹ پیڈ سروس بند کرنے کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کیونکہ یہ سروس لینے والوں کا تمام ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ پری پیڈ کنکشن میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔
ہزاروں پری پیڈ سمیں اصل شناخت کی تصدیق کیے بغیر جاری کی گئی ہیں۔ انھیں ٹریس کرنے کی ضرورت ہے۔ موبائل فون بند کرنا ایسے ہی ہے جیسے ٹریفک حادثوں کے باعث یہ اعلان کر دیا جائے کہ کوئی گاڑی یا ٹرک سڑکوں پر نہیں چلے گا۔
امریکا اور یورپ میں بغیر تصدیق کے کوئی شخص موبائل سم نہیں لے سکتا۔ حکومت کو اس حوالے سے پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ مشکوک اور بغیر تصدیق جاری ہونے والی پری پیڈ سمیں منسوخ کر کے انھیں دوبارہ جاری کیا جائے اور پوری تصدیق کی جائے تو یہ مسئلہ با آسانی حل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے 'اس کے سدباب کے لیے انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
سیاسی جماعتوں اور مذہبی قیادت اپنے اپنے تعصبات اور مفادات سے باہرنکلے تو دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے۔ موبائل فون بند کرنے سے نہ تو دہشت گردوں کے باہمی رابطوں کو توڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی انھیں کسی ٹارگٹ کو ہٹ کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ موبائل فون سروس بند کرنے کی۔