افغان انٹیلی جنس حکام طالبان کی معاونت کر رہے ہیں رپورٹ کابل کو فراہم
سیکیورٹی مذاکرات کیلیے افغان وفد آج آئیگا، دونوں ممالک کے حکام سیکیورٹی صورتحال کاجائزہ لینے کنڑ بھی جائیں گے
افغانستان کا ایک اعلیٰ سطح وفد آج اسلام آباد پہنچے گا، سینئر فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں پر مشتمل یہ وفد پاکستانی حکام کے ساتھ دہشتگردی کیخلاف دوطرفہ تعاون اور دیگر اہم دفاعی و سلامتی کے امور پر بات چیت کریگا۔
یہ بات بدھکو دفتر خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے صحافیوں کو بریفنگ کے دوران بتائی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستانی سفارت کار نے بتایا کہ افغان وفد کا دورہ دراصل افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر رنگین دارفر سپانتا کے حالیہ دورے کا ''فالو اپ'' ہو گا جس میں دونوں ممالک نے اتفاق کیا تھا کہ دہشتگردوں کا بلاتخصیص اور امتیاز خاتمہ کیا جائیگا اور اس کیلیے سرحد کے دونوں اطراف اقدامات کیے جائیں گے، سفارتکار نے بتایا کہ افغان طالبان کے سینئر رہنما ملا عبدالغنی برادر ایک آزاد زندگی گزار رہے ہیں مگر وہ افغانستان نہیں جانا چاہتے۔
سفارت کار سے پوچھا گیا تھا کہ کرزئی انتظامیہ کی جانب سے افغان طالبان رہنمائوں کی رہائی کے مطالبے کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی کئی سینئر طالبان کمانڈر رہا کر چکا ہے جو افغان مفاہمتی عمل میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سفارت کار نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے کئی بار استدعا کی گئی کہ کنڑ اور نورستان میں تحریک طالبان پاکستان کی پناہ گاہیں ختم کی جائیں مگر افغان حکام کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فیورٹ ہے نہ ہی ہم کسی نام نہاد اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، شاید ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہوں مگر اب وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ آگے دیکھا جائے اور ماضی کو بھلا دیا جائے، ہم نے اپنے افغان دوستوں سے کہا ہے کہ دہشت گردوں پر انحصار نہ کریں ، مولوی فضل اللہ شاید آج آپ کے کچھ مقاصد کو پورا کرے مگر کل وہ اپنی بندوق کا رخ آپ کی طرف بھی کر سکتا ہے، تاریخ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ دہشت گرد کسی کے دوست یا بہی خواہ نہیں ہو سکتے۔ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ افغان نیشنل آرمی کے ڈی جی ایم او میجر افضل امان 6 رکنی وفد کی قیادت کریں گے ۔
پاکستانی حکام نے افغانستان کو ایسے ٹھوس شواہد اور ثبوت فراہم کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس تحریک طالبان کی مالی معاونت کیساتھ ساتھ ان کی تربیت اور اسلحہ کے حوالے سے ضروریات بھی پوری کررہی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنیوالے افغان قومی سلامتی کے مشیر رنگین دادفرسپاشا کیساتھ مولوی فضل اللہ کا معاملہ اٹھایا۔
ساتھ ہی کرزئی انتظامیہ کے اس اہم ترین رکن کو ایسی انٹیلی جنس رپورٹس، ثبوت اور شواہد فراہم کیے گئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس میں شامل بعض عناصر طالبان کی ہر طرح سے پشت پناہی کررہے ہیں ، یہ عناصر تحریک طالبان کی تربیت کے علاوہ انہیں اسلحہ وغیرہ اور مالی امداد بھی فراہم کررہے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے افغان قومی سلامی کے مشیر سے پرزور مطالبہ کیا کہ مولوی فضل اللہ کیخلاف نہ صرف فوری کارروائی کی جائے بلکہ افغان انٹیلی جنس کی جانب سے طالبان کی معاونت کا سلسلہ بھی فوری طور پر بند کیاجائے۔
یہ بات بدھکو دفتر خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے صحافیوں کو بریفنگ کے دوران بتائی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستانی سفارت کار نے بتایا کہ افغان وفد کا دورہ دراصل افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر رنگین دارفر سپانتا کے حالیہ دورے کا ''فالو اپ'' ہو گا جس میں دونوں ممالک نے اتفاق کیا تھا کہ دہشتگردوں کا بلاتخصیص اور امتیاز خاتمہ کیا جائیگا اور اس کیلیے سرحد کے دونوں اطراف اقدامات کیے جائیں گے، سفارتکار نے بتایا کہ افغان طالبان کے سینئر رہنما ملا عبدالغنی برادر ایک آزاد زندگی گزار رہے ہیں مگر وہ افغانستان نہیں جانا چاہتے۔
سفارت کار سے پوچھا گیا تھا کہ کرزئی انتظامیہ کی جانب سے افغان طالبان رہنمائوں کی رہائی کے مطالبے کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی کئی سینئر طالبان کمانڈر رہا کر چکا ہے جو افغان مفاہمتی عمل میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں سفارت کار نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے کئی بار استدعا کی گئی کہ کنڑ اور نورستان میں تحریک طالبان پاکستان کی پناہ گاہیں ختم کی جائیں مگر افغان حکام کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی فیورٹ ہے نہ ہی ہم کسی نام نہاد اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، شاید ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہوں مگر اب وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ آگے دیکھا جائے اور ماضی کو بھلا دیا جائے، ہم نے اپنے افغان دوستوں سے کہا ہے کہ دہشت گردوں پر انحصار نہ کریں ، مولوی فضل اللہ شاید آج آپ کے کچھ مقاصد کو پورا کرے مگر کل وہ اپنی بندوق کا رخ آپ کی طرف بھی کر سکتا ہے، تاریخ سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ دہشت گرد کسی کے دوست یا بہی خواہ نہیں ہو سکتے۔ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ افغان نیشنل آرمی کے ڈی جی ایم او میجر افضل امان 6 رکنی وفد کی قیادت کریں گے ۔
پاکستانی حکام نے افغانستان کو ایسے ٹھوس شواہد اور ثبوت فراہم کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس تحریک طالبان کی مالی معاونت کیساتھ ساتھ ان کی تربیت اور اسلحہ کے حوالے سے ضروریات بھی پوری کررہی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنیوالے افغان قومی سلامتی کے مشیر رنگین دادفرسپاشا کیساتھ مولوی فضل اللہ کا معاملہ اٹھایا۔
ساتھ ہی کرزئی انتظامیہ کے اس اہم ترین رکن کو ایسی انٹیلی جنس رپورٹس، ثبوت اور شواہد فراہم کیے گئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان انٹیلی جنس میں شامل بعض عناصر طالبان کی ہر طرح سے پشت پناہی کررہے ہیں ، یہ عناصر تحریک طالبان کی تربیت کے علاوہ انہیں اسلحہ وغیرہ اور مالی امداد بھی فراہم کررہے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے افغان قومی سلامی کے مشیر سے پرزور مطالبہ کیا کہ مولوی فضل اللہ کیخلاف نہ صرف فوری کارروائی کی جائے بلکہ افغان انٹیلی جنس کی جانب سے طالبان کی معاونت کا سلسلہ بھی فوری طور پر بند کیاجائے۔