تفریق تقسیم
نیشنلزم اور سوشلزم کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے عرب دنیا میں فوجی بغاوتیں ہوئیں
MULTAN:
پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلم عوام کو تقسیم کرنے کا عمل زور و شور سے جاری رہا، سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد پوری عرب دنیا میں اسی حکمت عملی پر کام کیا گیا۔
مسلمانوں کے معمولی فقہی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے زر کے دروازے کھول دیے گئے۔ اس طرح عرب دنیا میں چھوٹی چھوٹی مغرب نواز ریاستوں کا وجود عمل میں آیا۔ پہلے مسلمانوں کے مسالک کے مابین فرق کو اجاگر کیا گیا۔
اپنے زر خرید لوگوں کے ذریعے تفریق اور تقسیم مسالک کی آگ بھڑکائی گئی، بعد ازاں اس کو ضرب دیا گیا، اس طرح مسالک کی تقسیم کی سرپرستی بھی کی گئی۔ سوشلسٹ بلاک کی آمد اور ان کی حامی ریاستوں نے اس تقسیم کے خلاف ایک باڑھ لگادی تھی کیونکہ نیشنلزم اور سوشلزم کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے عرب دنیا میں فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ اس طرح سامراجی مفادات پر کاری ضرب لگائی گئی۔
شمالی افریقہ اور عرب ممالک کی فوجی قیادتیں اسی کا مظہر ہیں۔ جمال عبدالناصر اور معمر قذافی اسی کی علامات تھیں اور کسی حد تک حافظ الاسد کو بھی انھی خطوط پر چلنے والا قرار دیا جاسکتا ہے۔ نہرسوئز کا بحران جمال ناصر کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جس کی سابق سوویت یونین نے حمایت کی تھی۔ شہنشاہِ ایران کا ایران پر تسلط خاص سامراجی حکمرانوں کا خاصا تھا جس کے اشارے پر بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔
بعض بلوچ سردار یہاں تک کہتے تھے کہ 1971 میں بلوچوں پر پہلا ریاستی حملہ شہنشاہِ ایران کے ایما پر کیا گیا۔ عرب نیشنلسٹ قوتوں کے زوال، ان کی آمرانہ اور مطلق العنانی کی وجہ اور پھر مغربی دنیا کے پروپیگنڈے کی بدولت وجود میں آیا اور یکے بعد دیگرے وہ حکومتیں زمیں بوس ہوتی گئیں۔
جمال عبدالناصر کی حکومت کے خلاف نام نہاد جمہوری حاکم حسنی مبارک کو مصر پر نازل کیا گیا، تاکہ اسرائیل کو محفوظ کیا جائے اور اب حسنی مبارک کا عفریت گیا تو اخوان المسلمین کی جمہوری حکومت وجود میں آگئی، جس کی سرپرستی امریکی حکومت کررہی ہے، حالانکہ سادہ لوح عوام یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کیا ہے؟
اس کے معنی درحقیقت کیا ہیں جو بھی جمہوری ملک معاشی طور پر کمزور ہوگا، اس کی جمہوریت کے خدوخال ان کو قرضہ دینے والے بناتے ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی وہی بناتے ہیں۔ عرب نیشنلزم کی لہر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دم توڑ گئی اور اس کی بوسیدہ عمارت کی ایک ایک اینٹ الگ ہوگئی۔ یہ عمل نہ صرف عرب ممالک میں ہوا بلکہ یوگوسلاویہ کا بھی یہی حشر ہوا۔
بوسنیا اور سربیا کی جنگ مسلم اور عیسائی تصادم بھی اسی کی ایک شاخ تھی جو لاکھوں انسانوں کی جان لے کر منطقی انجام کو پہنچی۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی کا انجام بھی سامنے ہے جو جمہوریت کے تیر سے شکار کیے گئے۔ عالمی پیمانے پر شیعہ سنّی فسادات مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کا ایک بہت کامیاب نسخہ ہے۔
یہ نسخہ کامیابی سے شام میں استعمال کیا جارہا ہے اور اس کے اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہا۔ یہاں یہ آگ زیرِ زمین جل رہی ہے۔ ابھی فضل خدا سے اس نے شعلے کی شکل اختیار نہیں کی کیونکہ ملک کا ایک بڑا حسّاس طبقہ اس کا آخری انجام جانتا ہے، مگر ہمیشہ تدبیریں کام نہیں کرتیں۔ فارسی کی ایک مثل ہے ''تدبیر کند بندہ۔ تقدیر زند خندہ یعنی انسان تدبیر کرتا ہے مگر تقدیر اس پر ہنس رہی ہوتی ہے۔
ابھی یوٹیوب پر جو شیطانی فلم ''{Innocence of Muslims '' '' مسلمانوں کی نادانی'' دِکھائی گئی ہے، وہ نہ صرف لائقِ تکذیب ہے بلکہ انسانی اقدار کے خلاف بھی ہے۔ کیا کوئی فلم ہالوکاسٹ کے خلاف موضوع پر دِکھائی جاسکتی ہے۔
ہرگز نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیاطین صرف مسلمانوں کی دل آزاری کررہے ہیں، وہ بھی جمہوریت اور آزادی خیال کی ڈھال استعمال کررہے ہیں مگر مسلمان یقیناً ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے جس سے کرسچین یا یہودی دنیا کے جذبات بھڑکیں کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ ہمارے جلیل القدر نبیوں میں سے ہیں۔
مگر اس فلم کے آنے کے بعد مسلم دنیا جس طرح یک جا، ایک زبان ہو کر متحد ہوئی ہے، اس نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ ایک مغربی الیکٹرانک میڈیا سے یہ رپورٹ نشر ہوئی ہے کہ اس فلم کی وجہ سے عالمِ اسلام میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے شام کے واقعات پس پشت چلے گئے ہیں۔
گویا وہاں جو مسالک کی جنگ چل رہی تھی، اس کو شدید جھٹکا لگا ہے اور ممکن ہے کہ مسلمان دنیا اپنے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہوجائے اور اس کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ مسلمانوں نے تمام تفرقے مٹا کر ایک قرآن اور ایک نبیؐ کے لیے اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔
مغربی دنیا خصوصاً نیٹو ممالک اور ان میں سب سے بڑھ چڑھ کر فرانس نے لیبیا پر حملہ کروایا اور اتحاد کی رہنمائی کی مگر اسی لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت نہیں ہے، پھر بھی امریکی سفیر مع اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔
گو کہ یہ عمل قابلِ تحسین نہیں مگر بن غازی میں یہ واقعہ ہوا، جہاں سب سے پہلے قذافی کے خلاف بغاوت کی سرپرستی کی گئی۔ قتل و غارت گری کی حمایت خواہ ہمارے خلاف ہو یا کسی دوسرے کے خلاف ہرگز اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ فلم امریکی حکومت کی تیار کردہ نہیں ہے، نہ ہی وہاں کی فلمی صنعت کی پیداوار ہے۔
یہ ایک شاتم کی ہے جو ابھی بھی پرسکون ہے۔ ظاہر ہے مغربی دنیا کو آزادی کے نام پر جذبات اور خصوصاً مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ آزادیٔ اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مقدس چیزوں کا احترام نہ کریں اور جہالت یا مذہبی تعصب میں اندھے ہوجائیں۔ یہ فلم درحقیقت پہلے بن لادن کے خلاف بننے والی فلم کا چربہ ہے اور اس کو شیاطین نے تبدیل کرکے یوٹیوب پر جاری کیا۔ اس سلسلے میں مسلم دنیا کو کیا کرنا چاہیے تھا، اس پر کئی آراء ہیں۔
ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس فلم کو نظرانداز کردینا چاہیے تھا کیوں کہ اس طرح فلم کی تشہیر ہوتی ہے اور بنانے والے کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کی مذمت کرنی چاہیے اور تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بنانے والے کو سزا دی جائے، مگر لوگوں اور مسلم حکومتوں کو یہ آواز تو بلند کرنی چاہیے تھی کہ جس شخص نے مسلم دنیا میں آگ لگائی ہے۔
اس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے سزا دینی چاہیے تھی، کیونکہ آزادیٔ افکار کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ دوسرے کے افکار کی تکذیب کریں جب کہ اسلام نہ صرف باضابطہ ادیان میں سے ایک ہے بلکہ وہ دنیا کے ہر حصّے میں کم یا زیادہ موجود ہیں اور اس کے ماننے والے تمام نبیوں کا احترام کرتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اوباما کو ایران پر فوری حملے کا مشورہ دے رہے تھے، مگر اب یہ حملہ ممکن نہیں رہا، کیونکہ مسلم دنیا متحد ہوچکی ہے اور جمہوریت کی آڑ میں جو مہم عرب دنیا میں چلائی جارہی تھی، اس کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے، کیونکہ جس کو اﷲ بلند و برتر بنادیتا ہے، کسی شیطان کی گستاخی سے اس کی شان نہیں گھٹ سکتی۔ آنحضرت دنیا کی بلند ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ خود مغرب نے جب دنیا کی 100 بڑی شخصیات کی تحقیق کی تو سرفہرست انھوں نے محمدؐ کو جگہ دی۔
ان کا مقام کوئی گستاخ کم نہیں کرسکتا۔ بہرحال اس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ غم و غصے کے علاوہ اپنے نبیؐ سے محبت اور عقیدت کا حصّہ ہے۔ مغربی دنیا پرامن بقائے باہم کا پرچار تو کرتی ہے مگر عمل نہیں کرتی۔ یہ پہلو مغربی اور نیٹو ممالک سمجھ لیں تو مسلم دنیا سے ان کی مخالفت ختم ہوسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے تفریق، تقسیم اور ضرب کا فارمولا بھلانا ہوگا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلم عوام کو تقسیم کرنے کا عمل زور و شور سے جاری رہا، سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد پوری عرب دنیا میں اسی حکمت عملی پر کام کیا گیا۔
مسلمانوں کے معمولی فقہی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے زر کے دروازے کھول دیے گئے۔ اس طرح عرب دنیا میں چھوٹی چھوٹی مغرب نواز ریاستوں کا وجود عمل میں آیا۔ پہلے مسلمانوں کے مسالک کے مابین فرق کو اجاگر کیا گیا۔
اپنے زر خرید لوگوں کے ذریعے تفریق اور تقسیم مسالک کی آگ بھڑکائی گئی، بعد ازاں اس کو ضرب دیا گیا، اس طرح مسالک کی تقسیم کی سرپرستی بھی کی گئی۔ سوشلسٹ بلاک کی آمد اور ان کی حامی ریاستوں نے اس تقسیم کے خلاف ایک باڑھ لگادی تھی کیونکہ نیشنلزم اور سوشلزم کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے عرب دنیا میں فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ اس طرح سامراجی مفادات پر کاری ضرب لگائی گئی۔
شمالی افریقہ اور عرب ممالک کی فوجی قیادتیں اسی کا مظہر ہیں۔ جمال عبدالناصر اور معمر قذافی اسی کی علامات تھیں اور کسی حد تک حافظ الاسد کو بھی انھی خطوط پر چلنے والا قرار دیا جاسکتا ہے۔ نہرسوئز کا بحران جمال ناصر کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جس کی سابق سوویت یونین نے حمایت کی تھی۔ شہنشاہِ ایران کا ایران پر تسلط خاص سامراجی حکمرانوں کا خاصا تھا جس کے اشارے پر بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔
بعض بلوچ سردار یہاں تک کہتے تھے کہ 1971 میں بلوچوں پر پہلا ریاستی حملہ شہنشاہِ ایران کے ایما پر کیا گیا۔ عرب نیشنلسٹ قوتوں کے زوال، ان کی آمرانہ اور مطلق العنانی کی وجہ اور پھر مغربی دنیا کے پروپیگنڈے کی بدولت وجود میں آیا اور یکے بعد دیگرے وہ حکومتیں زمیں بوس ہوتی گئیں۔
جمال عبدالناصر کی حکومت کے خلاف نام نہاد جمہوری حاکم حسنی مبارک کو مصر پر نازل کیا گیا، تاکہ اسرائیل کو محفوظ کیا جائے اور اب حسنی مبارک کا عفریت گیا تو اخوان المسلمین کی جمہوری حکومت وجود میں آگئی، جس کی سرپرستی امریکی حکومت کررہی ہے، حالانکہ سادہ لوح عوام یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کیا ہے؟
اس کے معنی درحقیقت کیا ہیں جو بھی جمہوری ملک معاشی طور پر کمزور ہوگا، اس کی جمہوریت کے خدوخال ان کو قرضہ دینے والے بناتے ہیں اور ان کی خارجہ پالیسی وہی بناتے ہیں۔ عرب نیشنلزم کی لہر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دم توڑ گئی اور اس کی بوسیدہ عمارت کی ایک ایک اینٹ الگ ہوگئی۔ یہ عمل نہ صرف عرب ممالک میں ہوا بلکہ یوگوسلاویہ کا بھی یہی حشر ہوا۔
بوسنیا اور سربیا کی جنگ مسلم اور عیسائی تصادم بھی اسی کی ایک شاخ تھی جو لاکھوں انسانوں کی جان لے کر منطقی انجام کو پہنچی۔ لیبیا کے صدر معمر قذافی کا انجام بھی سامنے ہے جو جمہوریت کے تیر سے شکار کیے گئے۔ عالمی پیمانے پر شیعہ سنّی فسادات مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کا ایک بہت کامیاب نسخہ ہے۔
یہ نسخہ کامیابی سے شام میں استعمال کیا جارہا ہے اور اس کے اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہا۔ یہاں یہ آگ زیرِ زمین جل رہی ہے۔ ابھی فضل خدا سے اس نے شعلے کی شکل اختیار نہیں کی کیونکہ ملک کا ایک بڑا حسّاس طبقہ اس کا آخری انجام جانتا ہے، مگر ہمیشہ تدبیریں کام نہیں کرتیں۔ فارسی کی ایک مثل ہے ''تدبیر کند بندہ۔ تقدیر زند خندہ یعنی انسان تدبیر کرتا ہے مگر تقدیر اس پر ہنس رہی ہوتی ہے۔
ابھی یوٹیوب پر جو شیطانی فلم ''{Innocence of Muslims '' '' مسلمانوں کی نادانی'' دِکھائی گئی ہے، وہ نہ صرف لائقِ تکذیب ہے بلکہ انسانی اقدار کے خلاف بھی ہے۔ کیا کوئی فلم ہالوکاسٹ کے خلاف موضوع پر دِکھائی جاسکتی ہے۔
ہرگز نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شیاطین صرف مسلمانوں کی دل آزاری کررہے ہیں، وہ بھی جمہوریت اور آزادی خیال کی ڈھال استعمال کررہے ہیں مگر مسلمان یقیناً ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے جس سے کرسچین یا یہودی دنیا کے جذبات بھڑکیں کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ ہمارے جلیل القدر نبیوں میں سے ہیں۔
مگر اس فلم کے آنے کے بعد مسلم دنیا جس طرح یک جا، ایک زبان ہو کر متحد ہوئی ہے، اس نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ ایک مغربی الیکٹرانک میڈیا سے یہ رپورٹ نشر ہوئی ہے کہ اس فلم کی وجہ سے عالمِ اسلام میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے شام کے واقعات پس پشت چلے گئے ہیں۔
گویا وہاں جو مسالک کی جنگ چل رہی تھی، اس کو شدید جھٹکا لگا ہے اور ممکن ہے کہ مسلمان دنیا اپنے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہوجائے اور اس کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ مسلمانوں نے تمام تفرقے مٹا کر ایک قرآن اور ایک نبیؐ کے لیے اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔
مغربی دنیا خصوصاً نیٹو ممالک اور ان میں سب سے بڑھ چڑھ کر فرانس نے لیبیا پر حملہ کروایا اور اتحاد کی رہنمائی کی مگر اسی لیبیا میں معمر قذافی کی حکومت نہیں ہے، پھر بھی امریکی سفیر مع اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔
گو کہ یہ عمل قابلِ تحسین نہیں مگر بن غازی میں یہ واقعہ ہوا، جہاں سب سے پہلے قذافی کے خلاف بغاوت کی سرپرستی کی گئی۔ قتل و غارت گری کی حمایت خواہ ہمارے خلاف ہو یا کسی دوسرے کے خلاف ہرگز اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ فلم امریکی حکومت کی تیار کردہ نہیں ہے، نہ ہی وہاں کی فلمی صنعت کی پیداوار ہے۔
یہ ایک شاتم کی ہے جو ابھی بھی پرسکون ہے۔ ظاہر ہے مغربی دنیا کو آزادی کے نام پر جذبات اور خصوصاً مذہبی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ آزادیٔ اظہار کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مقدس چیزوں کا احترام نہ کریں اور جہالت یا مذہبی تعصب میں اندھے ہوجائیں۔ یہ فلم درحقیقت پہلے بن لادن کے خلاف بننے والی فلم کا چربہ ہے اور اس کو شیاطین نے تبدیل کرکے یوٹیوب پر جاری کیا۔ اس سلسلے میں مسلم دنیا کو کیا کرنا چاہیے تھا، اس پر کئی آراء ہیں۔
ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس فلم کو نظرانداز کردینا چاہیے تھا کیوں کہ اس طرح فلم کی تشہیر ہوتی ہے اور بنانے والے کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس کی مذمت کرنی چاہیے اور تیسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بنانے والے کو سزا دی جائے، مگر لوگوں اور مسلم حکومتوں کو یہ آواز تو بلند کرنی چاہیے تھی کہ جس شخص نے مسلم دنیا میں آگ لگائی ہے۔
اس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے سزا دینی چاہیے تھی، کیونکہ آزادیٔ افکار کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ دوسرے کے افکار کی تکذیب کریں جب کہ اسلام نہ صرف باضابطہ ادیان میں سے ایک ہے بلکہ وہ دنیا کے ہر حصّے میں کم یا زیادہ موجود ہیں اور اس کے ماننے والے تمام نبیوں کا احترام کرتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اوباما کو ایران پر فوری حملے کا مشورہ دے رہے تھے، مگر اب یہ حملہ ممکن نہیں رہا، کیونکہ مسلم دنیا متحد ہوچکی ہے اور جمہوریت کی آڑ میں جو مہم عرب دنیا میں چلائی جارہی تھی، اس کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے، کیونکہ جس کو اﷲ بلند و برتر بنادیتا ہے، کسی شیطان کی گستاخی سے اس کی شان نہیں گھٹ سکتی۔ آنحضرت دنیا کی بلند ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ خود مغرب نے جب دنیا کی 100 بڑی شخصیات کی تحقیق کی تو سرفہرست انھوں نے محمدؐ کو جگہ دی۔
ان کا مقام کوئی گستاخ کم نہیں کرسکتا۔ بہرحال اس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ غم و غصے کے علاوہ اپنے نبیؐ سے محبت اور عقیدت کا حصّہ ہے۔ مغربی دنیا پرامن بقائے باہم کا پرچار تو کرتی ہے مگر عمل نہیں کرتی۔ یہ پہلو مغربی اور نیٹو ممالک سمجھ لیں تو مسلم دنیا سے ان کی مخالفت ختم ہوسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے تفریق، تقسیم اور ضرب کا فارمولا بھلانا ہوگا۔