عشق رسولﷺ کے لیے عمر بھر میں صرف ایک دن

مسلمان خواہ دارالکفر میں بھی رہتا ہو وہ مسلمان ہی ہوتا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

کبھی کہیں پڑھا تھا کہ زمین کے تمام درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر روشنائی تب بھی تیری حمد و ثناء بیان نہیں ہو سکتی اور میں تو ان لوگوں میں سے ہوں جن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہی بہت کم ہے۔

کئی الفاظ تو ایسے ہیں جو میں نے کبھی لکھے ہی نہیں، یوں میرے جیسا بے بضاعت انسان کسی ایسی ہستی کی تعریف کیا بیان کر سکتا ہے جس کی بے مثل زندگی اس کے ساتھیوں نے ساعت بہ ساعت بیان کر دی ہو ،کوئی نقطہ ،کوئی شوشا رہنے نہ دیا ہو، یوں انسانی تاریخ کی پہلی ہستی جس کی زندگی اس کے ساتھیوں نے لفظ بہ لفظ بیان کر دی۔

ایسے ایسے واقعات اور مشاہدات ملتے ہیں جو کوئی جانثار اور عاشق ہی بیان کر سکتا ہے مثلاً حضور پاک کی رفتار اور چال کہ یوں لگتا تھا جیسے کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔ میں اسی محمدﷺ کا غلام ہوں جس کی غلامی غائبانہ سہی ایک نعمت ہے۔

آپ نے اپنے ہم نشین ساتھیوں سے ایک بار فرمایا کہ تم تو میرے ساتھی اور رفیق ہو، میرے دوست تو وہ ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے، پھر ایک بار یہ بھی فرمایا کہ دیکھو ایک وقت آئے گا جب کوئی کہے گا کہ میرا سب کچھ لے لو مگر ایک بار حضور کی کھلی آنکھوں سے زیارت کرا دو مگر ایسا نہیں ہو سکے گا۔

تو میں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے روضہ کی جالی کے سامنے کھڑا ہوں، سعودی اہلکار مجھ سے کہتے ہیں کہ جو دعا ہے وہ قبلہ رو ہو کر مانگو، روضہ کی طرف منہ کر کے نہیں مگر میں تو دعا نہیں اس دربار میں فریاد کر رہا ہوں، یوں لگتا ہے میں سرور کائنات سرکار دو جہاں کے دربار میں ان کے سامنے کھڑا ہوں، بس بیچ میں صرف پتھر کی جالی حائل ہے۔

آقا اور غلام کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں جو عرض کر رہا ہوں میری اس فریاد کا ایک ایک لفظ سماعت مبارک تک پہنچ رہا ہے اور پھر نہ جانے کتنی دیر بے خودی کے اس عالم میں گم سم رہتا ہوں کہ دربار کا ایک کارندہ سختی کے ساتھ میرے کندھے کو پکڑ کر میرا منہ قبلہ کی طرف کر دیتا ہے۔ ایک غلام کا سلسلہ کلام اور فریاد ٹوٹ جاتا ہے، پھر میں اس ہستی کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں لوٹ آتا ہوں۔


ایک دن اچانک ایک ترقی پسند مارکسزم کا پیروکار ہونے کا دعوے دار میرا دوست احمد بشیر گھر پر ملنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ تم فلاں صاحب سے مل لو۔ میں یہ بات بس سن لیتا ہوں۔ چند دن بعد مرحوم احمد بشیر پھر آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اب تمہیں لینے آیا ہوں، میں ساتھ ہو لیتا ہوں اور وہ مجھے ایک صاحب کشف سید سرفراز شاہ کے ہاں لے جاتا ہے۔

میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تمہارے جیسے منکر کا ایسے لوگوں سے کیا تعلق؟ جواب دیتا ہے، چپ رہو اور پھر جب شاہ صاحب سے زندگی کی پہلی ملاقات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس تمہارے لیے ایک پیغام ہے جو میں پہنچانا چاہتا تھا، پھر وہ میری روضہ مبارک پر حاضری، میری فریاد اور میری آہ وزاری کا حوالے دے کر کہتے ہیں کہ تمہاری فریاد قبول ہوئی۔ شاہ صاحب میری درخواست کے الفاظ تک دہراتے ہیں اور پھر اس حیرت زدہ ملاقاتی کو مبہوت اور بے سدھ کر کے رخصت کی اجازت دیتے ہیں۔

تب سے اب تک میری زندگی اس آقائے ولی نعمت دونوں جہانوں کی رحمت کی کرم گستری میں گزر رہی ہے۔ کب تک ہے، مجھے معلوم نہیں لیکن میری اس فریاد کا ایک حصہ وہ تھا جو صرف دوسری دنیا میں مجھ پر ظاہر ہو گا، اگر میری ایسی قسمت ہوئی تو ورنہ اس دنیا میں اپنے آقا کا فضل و کرم قدم قدم پر دیکھ رہا ہوں۔ عجز و انکسار مگر تن کر زندگی بسر کر رہا ہوں۔

انسانوں کی پروا ختم ہو چکی ہے، اس کی جگہ انسانیت کی خدمت نے لے لی ہے۔ قلم سے مسلسل خدمت کر رہا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے جب تک دماغ میں سوچ کے سوتے زندہ ہیں اور ہاتھ میں سکت باقی ہے۔ میں اپنے آقا کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے رہوں گا۔ کیونکہ اس سے بڑا اعزاز اور کوئی نہیں ہے۔

حیرت ہے کہ آج پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف سے 'یوم عشق رسول' منایا جا رہا ہے۔ مغرب کی مسیحی دنیا والے اسی طرح یوم والدین وغیرہ منایا کرتے ہیں اور اس دن والدین یا کسی دوسرے کو یاد کرتے ہیں لیکن کیا کوئی مسلمان زندگی کے کسی صرف ایک دن عشق رسولﷺ کی سرکاری مشق کرتا ہے۔

مسلمان تو خدا اور رسول کا نام بے دھیانی میں بھی لیتا رہتا ہے۔ مسلمان صبح بیدار ہوتے ہی رسول پاک کا نام لیتا ہے اور اس سے دن بھر کے لیے برکت مانگتا ہے اور رات سوتے وقت درود شریف پڑھ کر آنکھ بند کرتا ہے۔ ایسے انسان کو اس کی پوری زندگی میں صرف ایک دن کے لیے عشق رسول کی دعوت دینا ایک بہت بڑی جسارت ہے۔

پیپلز پارٹی والوں کو علم نہیں کہ انھوں نے رسول پاکﷺ کو ایک دن تک محدود کرنے کی جرات کیسے کرلی ہے۔ مسلمان خواہ دارالکفر میں بھی رہتا ہو وہ مسلمان ہی ہوتا ہے، کجا کہ وہ رسول پاکﷺ کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کا شہری اور اس کا حکمران بھی ہو۔ بہرکیف ہر ایک کو اس کی نیت مبارک ہو، کسی کی زندگی میں صرف ایک جمعہ اور ایک دن ہی اس کے نصیب میں ہو اور کسی کا ہر دن آقا کی غلامی سے سرشار ہو۔ یہ اپنی اپنی قسمت اور اب تو ہمیں کافروں نے یاد دلایا ہے کہ تم کس کی امت ہو۔
Load Next Story