ہم بن گئے سراپااحتجاج

جمہوریت کے خلاف کارروائی کرنے پر موت ملتی ہے مگر اسلام پر ننگے حملے کرنے کی کوئی ممانعت نہیں


Syed Talat Hussain September 21, 2012
www.facebook.com/syedtalathussain.official

SIALKOT: مغرب کے تصورِ آزادیِ رائے کے دوہرے پن کے بارے میں اب مزید جاننے کی ضرورت نہیں۔ وہ معاشرے جو ''سب کچھ'' سامنے لانے کے اصول پر ہر کسی کو بے لاگ لیکچر دیتے ہیں۔

سگریٹ پینے کو اس وجہ سے ممنوع قرار دیتے ہیں کہ اِس عمل سے دوسروں کے حقوق مجروح ہوتے ہیں۔ جہاں پر ہماری سب سے برگزیدہ ہستی کو ایک غلیظ مہم کا نشانہ بنانے کی جستجو کو احسن عمل قرار دیا جاتا ہے۔

وہاں پر عدالت یہ حکم صادر کرتی ہے کہ کیمرج کی ایک شہزادی کی نیم برہنہ تصاویر کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی جائے کیونکہ اُس کی طبیعت اپنی حالت دیکھ کر کہیں مزید بگڑ نہ جائے۔

جرمنی میں ہٹلر کی کتاب کو پڑھنا قانوناََ جرم ہے مگر مقدس کتابوں کی بے حرمتی جائز ہے۔ یہودیوں کے ساتھ مظالم کی تاریخ میں مبالغہ کے شکوک کے اظہار پر کسی کو بھی 6 ماہ سے 3 سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ جمہوریت کے خلاف کارروائی کرنے پر موت ملتی ہے مگر اسلام پر ننگے حملے کرنے کی کوئی ممانعت نہیں۔

آپ ڈنمارک میں عالیشان اور درجنوں منزلہ عمارت تعمیر کر سکتے ہیں مگر مسجد کے لیے گنبد کھڑا کرنے پر آپ عبادت کی اجازت سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ مکمل طور پر برہنہ لوگ۔ عورتیں، مرد اور بچے۔ ہزاروں کی تعداد میں سمندر کے کنارے گھنٹوں دھوپ سینک سکتے ہیں مگر سر پر کپڑا رکھنا یعنی اسکارف پہننا ایک تہذیب کی توہین سمجھا جاتا ہے۔

ایک عقل سے عاری ناکارہ پادری زہر آلودہ بیانات اور تشدد آمیز رویوں کا پرچار کرتا ہے تو اُس کو آئینی تحفظ کی دیوار کے پیچھے چھپا کر بچا لیا جاتا ہے مگر امریکا کے خلاف محض تنقیدی بیان کو نفرت پھیلانے کے الزام میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور حکومت سے مطالبے شروع کر دیے جاتے ہیں کہ اِس عمل کو روکنا امریکا سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اشد ضروری ہے۔

مغرب میں ہر دہشت گرد کو پناہ مل سکتی ہے اگر اس کا رُخ مشرق کی طرف ہو۔ وکی لیکس کے مرکزی کردار کو ریاستی راز افشاں کرنے پر اتنا ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ جنوبی امریکا کے ایک ملک کے سفارتخانے میں پناہ لے کر خود کو محفوظ بناتا ہے مگر اپنے ثقافتی، مذہبی، دینی اور قومی حقوق کی بات کرنے والوں کو انتہاء پسند اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔

اپنا جھنڈا جلانے پر سفارتی احتجاج ہوتا ہے مگر قرآن پاک کو نذر آتش کرنے پر دو جملے بولنا بھی گوارہ نہیں۔ یہ وہ منافقت ہے جس کے خلاف عمومی جذبات اُمڈ کر سامنے آتے ہیں۔ نام نہاد گستاخانہ فلم اسی دہرے پن کا وہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی بچہ ہے جس کے پیٹ سے مغرب کی اسلامی د نیا سے متعلق پالیسی جنم لیتی ہے۔ صدر اوباما لاکھ پیغامات چلوائیں اور امریکی سفارتخانہ درجنوں ممالک کے ساتھ مل کر کتنے بھی جتن کر لے دُنیا میں اُن کے رویوں سے پیدا ہونے والا غصہ آسانی سے ٹھنڈا نہیں ہو گا۔

یوم عشقِ رسولﷺ اس لحاظ سے انتہائی اہم تھا کہ ایک قومی رد عمل سامنے آیا جس سے بیرونی ممالک کو کم از کم اس امر کا احساس ہو جانا چاہیے کہ بعض معاملات پر لین دین ممکن نہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ اسلام اور رسول پاکﷺ کے خلاف چلنے والی مہم ہر اُس بنیاد کو تہس نہس کر دے گی جو تعاونِ باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔

مگر اس موقع پر ہمیں اپنے اندازِ احتجاج پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پچھلے روز جس فراخ دلی کے ساتھ دکانوں پر حملے کیے گئے اور عام شہریوں کو زد و کوب کیا گیا اُس سے نہ تو اسلام کا نام بلند ہوا ہے اور نہ ہی سنت رسولﷺ کے سنہری اصول کا احترام ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

ہنگاموں میں شریک نوجوانوں کی آنکھوں میں اُترا ہوا خون ہوس میں بدل دینے کے لیے صرف اتنا ہی موقع کافی تھا کہ سامنے والی دکان کا سامان لوٹ مار کے لیے کھلا پڑا ہوا ہے۔ سینما جلائے گئے، ٹول پلازوں کو نذرآتش کر دیا گیا اور گاڑیوں پر ایسے پتھر برسائے گئے کہ جیسے دشمن کے ہاتھیوں کا جھنڈ ہو جس کو کنکریوں سے بھس میں تبدیل کرنا فرض ہے۔

قیمتی جانیں اس خلفشار کی نذر ہو گئیں۔ تمام ملک ایک ایسے میدان میں تبدیل ہو گیا جس میں ہر کوئی کسی کو چیڑ پھاڑنے کی تلاش میں ہو اور گھر سے یہ عزم کر کے نکلا ہو کہ واپسی پر کم از کم اس کے ڈنڈے کے سرے خون آلودہ تو ضرور ہوں۔ مذہبی جماعتوں نے بھی اس اہم موقع کو سیاسی ضیافت میں تبدیل کر دیا اور اپنے وہ تمام شوق پورے کیے جس کا اُن کو پچھلے کئی سالوں سے موقع نہیں ملا تھا۔

مگر اس احتجاج میں تمام حصہ مذہبی سیاست یا عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات نے نہیں ڈالا۔ سڑکوں پر بپھرے ہوئے ہجوم میں ہزاروں کی تعداد میں وہ لوگ بھی موجود تھے جن کے لیے یہ حکومت اور اس کے تحت چلنے والا نظام مکمل طور پر بے معنی ہو گیا ہے۔ ریاست کے وجود کے وہ تمام اشارے جن سے عوامی رویوں کو خاص حد میں رکھا جاتا ہے اب غیر اہم ہو گئے ہیں۔

اگر پولیس روزمرہ کی زندگی میں کسی قسم کی سہولت مہیا کرنے سے قاصر ہے تو پھر رسول پاکﷺ کی شان میں گستاخی پر احتجاج کے روز وہ پتھر ہی کھائے گی۔ اگر راجہ پرویز اشرف کی کابینہ ملک بھر میں انصاف مہیا کرنے سے قاصر ہے تو اس کی جانب سے جاری شدہ پر امن احتجاج کی اپیل ٹھوکر مار کر پرے کر دی جائے گی۔

یوم عشقِ رسولﷺ محض خداوند تعالیٰ کے آخری اور سب سے پیارے نبیﷺ سے محبت کا اظہار اور اُن کے بارے میں گستاخانہ مہم پر احتجاج کا دن نہیں تھا۔ یہ دن مغرب کے دیرینہ دوغلے پن اور موجودہ نظام کی ناکامی کے بارے میں بھی ایک سخت بیان تھا۔ اس روز ہمیں اپنی طاقت بھی نظر آئی مگر اِس کے ساتھ وہ رویے بھی جن کی وجہ سے ہم غیر ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں