ہیپاٹائٹس قابل علاج ہے ہر فرد اپنا ٹیسٹ ضرور کرائے ڈاکٹر سعد خالد نیاز
معروف ماہر امراض جگر ومعدہ، سابق نگراں وزیر صحت سندھ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر SIAGڈاکٹر سعد خالد نیاز سے گفتگو
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہیپاٹائٹس کے مرض کی شرح بہت بلند ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2022 کے اختتام پر پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی مجموعی تعداد سوا کروڑ سے زائد تھی اور ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک تھا۔
تشویش ناک امر یہ ہے کہ ہر سال ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ڈیڑھ لاکھ کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کیا ہے؟ کیوں لاحق ہوتا ہے؟ کیا یہ قابل علاج مرض ہے اور اس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟ یہ اور اس مرض سے جڑے دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے معروف ماہر امراض جگر ومعدہ سابق نگراں وزیر صحت سندھ اور سول اسپتال کراچی میں قائم سندھ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اینڈواسکوپی اینڈ گیسٹرو انٹیرولوجی ( ایس آئی اے جی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سعد خالد نیاز سے گفتگو کی جس کی تفصیلات قارئین کی نذر ہیں۔
ہیپاٹائٹس کیا ہے اور یہ کس وجہ سے لاحق ہوتا ہے؟
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ انسان کے جگر میں ہونےو الی سوزش کو ہیپاٹائٹس کہتے ہیں۔ کسی فرد کے ہیپاٹائٹس کا شکار ہونے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے ایک وائرس ہے۔ جن وائرسوں کی وجہ سے ہیپاٹائٹس لاحق ہوتا ہے ان کی بھی دو اقسام ہیں: ایک اے اور ای وائرس۔ عام طور پر لوگوں کو جو یرقان ( جوائنڈس) ہوتا ہے وہ اے اور ای کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ قلیل المیعاد ہوتا ہے اور ازخود ختم ہوجاتا ہے، اس میں کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر اس یرقان میں مبتلا ننانوے فیصد افراد خود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی کو قے ہورہی ہو تو اس صورت میں ڈرپ لگانے کی ضرورت پڑسکتی ہے بصورت دیگر صرف مائعات کا استعمال اور آرام کرنے سے انسان ٹھیک ہوجاتا ہے۔
ہیپاٹائٹس کی پریشان کُن اقسام کون سی ہیں؟
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا لاحق ہونا فکر کی بات ہوتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی ہیپاٹائٹس اے اور ای سے اس طرح مختلف ہوتے ہیں کہ یہ اقسام آہستہ آہستہ جگر کو نقصان پہنچا کراسے ناکارہ کرسکتی ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہیپاٹائٹس کی یہ اقسام بہت ہی خاموشی سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہیں اور اسے محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہوگیا ہے۔ انسان اپنے جسم میں یہ وائرس لیے بالکل نارمل انداز میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور جب تک جگر میں زیادہ نقصان نہ ہوجائے اس وقت تک ان کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔
ہیپاٹائٹس اے اور ای، ہیپاٹائٹس بی اور سی سے اس طرح بھی مختلف ہیں کہ اول الذکر دو اقسام کا تعلق پانی سے ہے یعنی یہ آلودہ پانی سے فرد کو لاحق ہوتی ہیں، لیکن بی اور سی کا تعلق خون سے ہوتا ہے۔ یعنی خون کی منتقلی چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو یہ اقسام اس کے ذریعے لاحق ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ ان میں ایک وائرس ڈی بھی ہوتا ہے جو انہی لوگوں کو لاحق ہوتا ہے جنہیں ہیپاٹائٹس بی ہو۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ متاثرہ افراد کی اکثریت میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا وائرس متاثرہ فرد کے جسم میں اپنی جگہ بنالیتا ہے اور مذکورہ فرد اپنی نارمل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے اسے خون کے ٹیسٹ کی ضرورت پیش آجائے تو اس وقت ہیپاٹائٹس کی تشخیص ہوتی ہے۔ بیرون ملک جانے کے لیے لوگ جب خون کے ٹیسٹ کراتے ہیں تو اس وقت بھی کئی لوگوں پر انکشاف ہوتا ہے کہ انہیں تو ہیپاٹائٹس ہے۔ یا کسی کی فیملی میں کوئی ہیپاٹائٹس سے متاثرہ فرد ہے اور اس نے احتیاطاً خون کا ٹیسٹ کرایا تو وہ مثبت آگیا۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگوں کو یرقان نہیں ہوتا اور جہاں تک علامات ظاہر ہوتی ہیں تو درحقیقت وہ جگر میں بڑی خرابی یا جگر کے ناکارہ ہونے کی علامات ہوتی ہیں۔ ان علامات میں پیٹ میں پانی بھرجانا، خون کی الٹی ہونا یا درد ہونا۔ درد ان لوگوں کو ہوتا ہے جو جگر کے سرطان میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کے مطابق ہمارے معاشرے میں اگر ایک کروڑ لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی اور سی ہو تو ان میں سے پچانوے فیصد کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ انہیں یہ مرض لاحق ہے۔ اور باقی پانچ فیصد میں بھی ہیپاٹائٹس کی کوئی خصوصی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، بس بدن میں تھکاوٹ، کمزوری وغیرہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ علامات ہیپاٹائٹس کی نہیں ہوتیں بلکہ جگر کے ناکارہ ہوجانے کی ہوتی ہیں اور اسی لیے ہیپاٹائٹس کو ' خاموش قاتل ' بھی کہا جاتا ہے۔
کیا ہیپاٹائٹس بی اور سی قابل علاج ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ ہیپاٹائٹس کی یہ دونوں اقسام قابل علاج ہیں۔ بالخصوص ہیپاٹائٹس سی کا بارہ ہفتوں پر مشتمل بہت ہی شافی علاج دستیاب ہے جو سستا بھی ہے اور ہیپاٹائٹس سی کے 97 فیصد مریض شفایاب ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں اس وقت جتنی بھی دیگر بیماریاں ہیں ان سب میں بہتر علاج ہیپاٹائٹس سی کا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی کے علاج کے حوالے سے ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ اس کا بھی بہت اچھا علاج موجود ہے تاہم جس طرح ذیابیطس یا بلڈپریشر میں مبتلا مریض کو مستقل دوا لینی پڑتی ہے اور وہ ٹھیک رہتا ہے اسی طرح ہیپاٹائٹس بی کے مریض کو بھی مستقل دوا استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کے بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس مرض سے مکمل نجات مل جاتی ہے اور پھر انہیں مزید دوا نہیں لینی پڑتی۔
ہیپاٹائٹس کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس سلسلے میں ڈاکٹر سعدخالد نیاز نے بتایا کہ پہلے ہیپاٹائٹس کا علاج ٹیکوں کے ذریعے کیاجاتا تھا مگر اب اورل ٹریٹمنٹ موجود ہے اور کھانے کے لیے دوائیں دی جاتی ہیں جن کے کوئی خاص سائیڈ ایفیکٹس بھی نہیں ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے بیشتر مریض بارہ ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مرض کون سی اسٹیج پر ہے مگر بیشتر مریض تین ماہ کے علاج سے تندرست ہوجاتے ہیں۔
کیا ہیپاٹائٹس کا علاج مہنگا ہے؟ اور مفت میں علاج کہاں سے کرایا جاسکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس کے علاج کی سہولیات فراہم کرنے پر حکومت سندھ کی خاص توجہ ہے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے کافی کام کیا ہے۔ ہم اس سلسلے میں حکومت سندھ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ گذشتہ سال بھی ہم نے حکومت سندھ کے ساتھ ایک پائلٹ پروجیکٹ کیا تھا اور اس وقت بھی دو پائلٹ پروجیکٹ میں سے ایک تکمیل کے قریب ہے۔ اس پائلٹ پروجیکٹ کے تحت قنبر شہداد کوٹ میں ساڑھے پانچ لاکھ کی آبادی کی اسکریننگ کی گئی ہے اور اسی طرح کراچی کے ضلع کیماڑی میں بھی لوگوں کی اسکریننگ کا عمل جاری ہے اور ساڑھے تین چار لاکھ لوگوں میں سے نصف کی اسکریننگ کی جاچکی ہے۔
ڈاکٹر سعد خالد نے بتایا کہ اب عالمی ادارہ صحت کی سفارش یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اسکرین کریں، پھر ان کے ٹیسٹ کریں اور متاثرہ افراد کا علاج کریں۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انشااللہ ان پائلٹ پروجیکٹس کے اچھے نتائج حاصل ہوں گے، کیونکہ پوری آبادی کے وہیں ٹیسٹ بھی کیے گئے، پی سی آر کیا گیا اور متاثرہ افراد کو دوائیں بھی دی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارا ارادہ ہے کہ اسی طرح ہر چھ مہینے میں تین اضلاع میں اسکریننگ، ٹیسٹ اور علاج کی سہولت مہیا کی جائے، اور 2030 تک ہیپاٹائٹس سی کی بلند شرح کے حامل اضلاع میں سے اس حکمت عملی کے ذریعے ہیپاٹائٹس سی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
کیا بچے بھی ہیپاٹائٹس کا شکار ہوتے ہیں؟
جی بالکل، بچے ہیپاٹائٹس بی اور سی دونوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ( حفاظتی ٹیکہ ) لگوائی جانی چاہیے، تاکہ وہ اس وائرس سے محفوظ ہوجائیں البتہ ہیپاٹائٹس سی کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ اگر والدہ کو ہیپاٹائٹس ہے تو پھر نومولود کو ہیپاٹائٹس بی کا ٹیکہ ضرور لگوایا جانا چاہیے۔
ہیپاٹائٹس سے متاثرہ فرد کو کس قسم کی خوراک لینی چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ یہ نکتہ بہت اہم ہے جس کے بارے میں لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ جب تک جگر بالکل خراب نہیں ہوجاتا اس وقت تک کسی قسم کے پرہیز کے ضرورت نہیں ہے۔ جگر کی خرابی کی صورت میں جب کہ پیٹ میں پانی آجائے تو اس وقت نمک سے پرہیز کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی پرہیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تاہم اگر جگر کی خرابی کے ساتھ کسی کو کوئی اور مرض بھی لاحق ہے، مثلاً کسی کو ذیابیطس ہے تو پھر اسے ذیابیطس کے غذائی پرہیز کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہیپاٹائٹس بی، سی اور اے اور ای کے لیے بھی کسی پرہیز کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے کوئی سائنسی شواہد موجود ہیں کہ ہیپاٹائٹس میں پرہیز کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان ہے کہ یرقان ہونے کی صورت میں گوشت بند کردیا جاتا ہے۔ اس سے الٹا مریض کے جسم میں پروٹین مزید کم ہوجاتے ہیں، اور یہ بات مریض کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
کراچی اور سندھ میں ہیپاٹائٹس کے مریض مفت علاج کہاں سے کراسکتے ہیں؟
اس بارے میں ڈاکٹرسعد خالد کا کہنا تھا کہ دی ہیلتھ فاؤنڈیشن کے تحت ایس آئی اے جی( سندھ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اینڈواسکوپی اینڈ گیسٹرو انٹیرولوجی ) میں ہم مریضوں کے ٹیسٹ بھی کرتے ہیں اور مکمل علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سندھ کا ہیپاٹائٹس پروگرام چل رہا ہے جہاں پی پی ایچ آئی کے تحت پرائمری ہیلتھ کیئر مراکز میں اسکریننگ اور علاج کی خدمات بلامعاوضہ فراہم کی جاتی ہیں۔ پھر ہیپاٹائٹس پروگرام کے جو اپنے مراکز ہیں وہاں بھی تشخیص اور علاج کی سہولیات دستیاب ہیں۔
ڈاکٹر سعد خالد نے مزید بتایا کہ حکومت سندھ کے ساتھ ہمارے پائلٹ پروجیکٹس کے ذریعے بھی لوگوں کو مفت اسکریننگ ، تشخیص اور علاج کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، تاہم ان پروجیکٹس میں کچھ مشکلات بھی پیش آئیں کیونکہ تمام علاقے قابل رسائی نہیں ہیں۔
اس ضمن میں انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق ہیپاٹائٹس کی تشخیص اور علاج کی راہ میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں۔ قنبر شہداد کوٹ میں سیلاب آنے کی وجہ سے یہ پائلٹ پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہوا، پھر پتا چلا کہ ہر جگہ وائی فائی کی سہولت موجود نہیں تھی تو کیسے تمام چیزوں کو ٹیبلٹ پر لایا جائے۔
پھر پی سی آر کا مرحلہ آیا تو پتا چلا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے جبکہ پی سی آر کی مشین کے لیے ایئرکنڈیشنڈ اور مخصوص درجہ حرارت برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ دوردراز علاقوں سے سیمپل لے بھی لیں تو وہ پی سی آر مشین تک آئے گا، وہاں ٹیسٹ ہوگا اور پھر مریضوں تک دوائیں کیسے پہنچیں گی۔ تو ان تمام مشکلات کو ہم نے دور کرنے کی کوشش ہے۔
ہیپاٹائٹس سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہیپاٹائٹس سے بچ سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی سے تو ہم حفاظتی ٹیکے لگوا کر محفوظ رہ سکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کو یہ ٹیکے لگوانے چاہیئں جو اتنے مہنگے نہیں ہیں کہ ہم لگوا نہ سکیں۔
اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے لیے غیرضروری انجکشن نہ لگوائیں۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے عوام الناس میں شعور آگیا ہے کہ بلاضرورت ٹیکے نہ لگوائے جائیں اور ہر بار ٹیکوں کے لیے نئی یا ڈسپوزایبل سرنج استعمال ہو۔
دوسرا یہ کہ غیرضروری بلڈٹرانسفیوژن (انتقال خون) سے بھی دور رہیں۔ کوشش کریں کہ بلا ضرورت خون کی منتقلی نہ ہو اور اگر ناگزیر ہو تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو خون آپ کو چڑھایا جارہا ہے وہ درست طریقے سے اسکرین کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ بڑے اداروں سے خون لیا جائے اور وہیں لگوالیا جائے۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے مزید کہا کہ تمام حاملہ خواتین کا ہیپاٹائٹس بی کا ٹیسٹ ہونا چاہیے اور ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں آخری تین مہینے میں ان کا ہیپاٹائٹس کا علاج شروع ہوجانا چاہیے، اس طرح ہونےو الے بچے کے ہیپاٹائٹس کا شکار ہونے کا رسک مزید کم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ شوہر یا بیوی کے شریک حیات کی ہیپاٹائٹس کی ویکسی نیشن ضرور ہونی چاہیے۔ اور اگر گھر میں کسی ایک فرد کو ہیپاٹائٹس بی ہے تو گھر کے تمام افراد کا ٹیسٹ اور ویکسی نیشن ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ دانتوں کا علاج کرانے جائیں تو اس بات کا یقین کرلیں کہ ڈینٹسٹ کے اوزار اور آلات جراثیم سے پاک ( اسٹریلائزڈ) ہوں۔ اس سلسلے میں ہمارے ڈاکٹر حضرات کو خود بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے اوزار وغیرہ صحیح طور پر جراثیم سے پاک کیے گئے ہوں۔
اسی طرح جب حجام کے پاس جائیں تو یہ یقین کرلیں کہ وہ جو ریزر اور بلیڈ استعمال کررہا ہے وہ جراثیم سے پاک کیا گیا ہے۔ پھر ہماری خواتین بیوٹی پارلرز میں جاتی ہیں تو وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہاں جو چیز دوبارہ استعمال ہورہی ہے اور جو تیز دھار ہے اسے اسٹیرلائزڈ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی شرح خاصی بلند ہے تو اس لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا احتیاط پر عمل کیا جائے۔
ہیپاٹائٹس کی تشخیص کا آسان طریقہ
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی تشخیص کے لیے سب سے آسان طریقہ ہے کہ آپ جاکر خون کا عطیہ دیں۔ اس سے جہاں ایک طرف کسی انسان کی جان بچانے کے لیے خون عطیہ کرنے پر رب کائنات آپ سے راضی ہوگا وہیں یہ فائدہ ہوگا کہ آپ کا ہیپاٹائٹس بی اور سی کا ٹیسٹ بھی بلامعاوضہ ہوجائے گا۔ اگر نیگیٹیو آجائے تو خون عطیہ کردیں اور مثبت آنے کی صورت میں پتا چل جائے گا کہ آپ کو ہیپاٹائٹس ہے تو پھر اس کا علاج کرائیں۔
تشویش ناک امر یہ ہے کہ ہر سال ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ڈیڑھ لاکھ کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کیا ہے؟ کیوں لاحق ہوتا ہے؟ کیا یہ قابل علاج مرض ہے اور اس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟ یہ اور اس مرض سے جڑے دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے معروف ماہر امراض جگر ومعدہ سابق نگراں وزیر صحت سندھ اور سول اسپتال کراچی میں قائم سندھ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اینڈواسکوپی اینڈ گیسٹرو انٹیرولوجی ( ایس آئی اے جی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سعد خالد نیاز سے گفتگو کی جس کی تفصیلات قارئین کی نذر ہیں۔
ہیپاٹائٹس کیا ہے اور یہ کس وجہ سے لاحق ہوتا ہے؟
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ انسان کے جگر میں ہونےو الی سوزش کو ہیپاٹائٹس کہتے ہیں۔ کسی فرد کے ہیپاٹائٹس کا شکار ہونے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے ایک وائرس ہے۔ جن وائرسوں کی وجہ سے ہیپاٹائٹس لاحق ہوتا ہے ان کی بھی دو اقسام ہیں: ایک اے اور ای وائرس۔ عام طور پر لوگوں کو جو یرقان ( جوائنڈس) ہوتا ہے وہ اے اور ای کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ قلیل المیعاد ہوتا ہے اور ازخود ختم ہوجاتا ہے، اس میں کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر اس یرقان میں مبتلا ننانوے فیصد افراد خود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی کو قے ہورہی ہو تو اس صورت میں ڈرپ لگانے کی ضرورت پڑسکتی ہے بصورت دیگر صرف مائعات کا استعمال اور آرام کرنے سے انسان ٹھیک ہوجاتا ہے۔
ہیپاٹائٹس کی پریشان کُن اقسام کون سی ہیں؟
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا لاحق ہونا فکر کی بات ہوتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی ہیپاٹائٹس اے اور ای سے اس طرح مختلف ہوتے ہیں کہ یہ اقسام آہستہ آہستہ جگر کو نقصان پہنچا کراسے ناکارہ کرسکتی ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہیپاٹائٹس کی یہ اقسام بہت ہی خاموشی سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہیں اور اسے محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہوگیا ہے۔ انسان اپنے جسم میں یہ وائرس لیے بالکل نارمل انداز میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے اور جب تک جگر میں زیادہ نقصان نہ ہوجائے اس وقت تک ان کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔
ہیپاٹائٹس اے اور ای، ہیپاٹائٹس بی اور سی سے اس طرح بھی مختلف ہیں کہ اول الذکر دو اقسام کا تعلق پانی سے ہے یعنی یہ آلودہ پانی سے فرد کو لاحق ہوتی ہیں، لیکن بی اور سی کا تعلق خون سے ہوتا ہے۔ یعنی خون کی منتقلی چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو یہ اقسام اس کے ذریعے لاحق ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ ان میں ایک وائرس ڈی بھی ہوتا ہے جو انہی لوگوں کو لاحق ہوتا ہے جنہیں ہیپاٹائٹس بی ہو۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ متاثرہ افراد کی اکثریت میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا وائرس متاثرہ فرد کے جسم میں اپنی جگہ بنالیتا ہے اور مذکورہ فرد اپنی نارمل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے اسے خون کے ٹیسٹ کی ضرورت پیش آجائے تو اس وقت ہیپاٹائٹس کی تشخیص ہوتی ہے۔ بیرون ملک جانے کے لیے لوگ جب خون کے ٹیسٹ کراتے ہیں تو اس وقت بھی کئی لوگوں پر انکشاف ہوتا ہے کہ انہیں تو ہیپاٹائٹس ہے۔ یا کسی کی فیملی میں کوئی ہیپاٹائٹس سے متاثرہ فرد ہے اور اس نے احتیاطاً خون کا ٹیسٹ کرایا تو وہ مثبت آگیا۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگوں کو یرقان نہیں ہوتا اور جہاں تک علامات ظاہر ہوتی ہیں تو درحقیقت وہ جگر میں بڑی خرابی یا جگر کے ناکارہ ہونے کی علامات ہوتی ہیں۔ ان علامات میں پیٹ میں پانی بھرجانا، خون کی الٹی ہونا یا درد ہونا۔ درد ان لوگوں کو ہوتا ہے جو جگر کے سرطان میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کے مطابق ہمارے معاشرے میں اگر ایک کروڑ لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی اور سی ہو تو ان میں سے پچانوے فیصد کو پتا ہی نہیں ہوگا کہ انہیں یہ مرض لاحق ہے۔ اور باقی پانچ فیصد میں بھی ہیپاٹائٹس کی کوئی خصوصی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، بس بدن میں تھکاوٹ، کمزوری وغیرہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ علامات ہیپاٹائٹس کی نہیں ہوتیں بلکہ جگر کے ناکارہ ہوجانے کی ہوتی ہیں اور اسی لیے ہیپاٹائٹس کو ' خاموش قاتل ' بھی کہا جاتا ہے۔
کیا ہیپاٹائٹس بی اور سی قابل علاج ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ ہیپاٹائٹس کی یہ دونوں اقسام قابل علاج ہیں۔ بالخصوص ہیپاٹائٹس سی کا بارہ ہفتوں پر مشتمل بہت ہی شافی علاج دستیاب ہے جو سستا بھی ہے اور ہیپاٹائٹس سی کے 97 فیصد مریض شفایاب ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں اس وقت جتنی بھی دیگر بیماریاں ہیں ان سب میں بہتر علاج ہیپاٹائٹس سی کا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی کے علاج کے حوالے سے ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ اس کا بھی بہت اچھا علاج موجود ہے تاہم جس طرح ذیابیطس یا بلڈپریشر میں مبتلا مریض کو مستقل دوا لینی پڑتی ہے اور وہ ٹھیک رہتا ہے اسی طرح ہیپاٹائٹس بی کے مریض کو بھی مستقل دوا استعمال کرنی پڑتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کے بہت کم مریض ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس مرض سے مکمل نجات مل جاتی ہے اور پھر انہیں مزید دوا نہیں لینی پڑتی۔
ہیپاٹائٹس کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس سلسلے میں ڈاکٹر سعدخالد نیاز نے بتایا کہ پہلے ہیپاٹائٹس کا علاج ٹیکوں کے ذریعے کیاجاتا تھا مگر اب اورل ٹریٹمنٹ موجود ہے اور کھانے کے لیے دوائیں دی جاتی ہیں جن کے کوئی خاص سائیڈ ایفیکٹس بھی نہیں ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے بیشتر مریض بارہ ہفتوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مرض کون سی اسٹیج پر ہے مگر بیشتر مریض تین ماہ کے علاج سے تندرست ہوجاتے ہیں۔
کیا ہیپاٹائٹس کا علاج مہنگا ہے؟ اور مفت میں علاج کہاں سے کرایا جاسکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس کے علاج کی سہولیات فراہم کرنے پر حکومت سندھ کی خاص توجہ ہے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے کافی کام کیا ہے۔ ہم اس سلسلے میں حکومت سندھ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ گذشتہ سال بھی ہم نے حکومت سندھ کے ساتھ ایک پائلٹ پروجیکٹ کیا تھا اور اس وقت بھی دو پائلٹ پروجیکٹ میں سے ایک تکمیل کے قریب ہے۔ اس پائلٹ پروجیکٹ کے تحت قنبر شہداد کوٹ میں ساڑھے پانچ لاکھ کی آبادی کی اسکریننگ کی گئی ہے اور اسی طرح کراچی کے ضلع کیماڑی میں بھی لوگوں کی اسکریننگ کا عمل جاری ہے اور ساڑھے تین چار لاکھ لوگوں میں سے نصف کی اسکریننگ کی جاچکی ہے۔
ڈاکٹر سعد خالد نے بتایا کہ اب عالمی ادارہ صحت کی سفارش یہ ہے کہ آپ لوگوں کو اسکرین کریں، پھر ان کے ٹیسٹ کریں اور متاثرہ افراد کا علاج کریں۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انشااللہ ان پائلٹ پروجیکٹس کے اچھے نتائج حاصل ہوں گے، کیونکہ پوری آبادی کے وہیں ٹیسٹ بھی کیے گئے، پی سی آر کیا گیا اور متاثرہ افراد کو دوائیں بھی دی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب ہمارا ارادہ ہے کہ اسی طرح ہر چھ مہینے میں تین اضلاع میں اسکریننگ، ٹیسٹ اور علاج کی سہولت مہیا کی جائے، اور 2030 تک ہیپاٹائٹس سی کی بلند شرح کے حامل اضلاع میں سے اس حکمت عملی کے ذریعے ہیپاٹائٹس سی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
کیا بچے بھی ہیپاٹائٹس کا شکار ہوتے ہیں؟
جی بالکل، بچے ہیپاٹائٹس بی اور سی دونوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ( حفاظتی ٹیکہ ) لگوائی جانی چاہیے، تاکہ وہ اس وائرس سے محفوظ ہوجائیں البتہ ہیپاٹائٹس سی کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ اگر والدہ کو ہیپاٹائٹس ہے تو پھر نومولود کو ہیپاٹائٹس بی کا ٹیکہ ضرور لگوایا جانا چاہیے۔
ہیپاٹائٹس سے متاثرہ فرد کو کس قسم کی خوراک لینی چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ یہ نکتہ بہت اہم ہے جس کے بارے میں لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ جب تک جگر بالکل خراب نہیں ہوجاتا اس وقت تک کسی قسم کے پرہیز کے ضرورت نہیں ہے۔ جگر کی خرابی کی صورت میں جب کہ پیٹ میں پانی آجائے تو اس وقت نمک سے پرہیز کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی پرہیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تاہم اگر جگر کی خرابی کے ساتھ کسی کو کوئی اور مرض بھی لاحق ہے، مثلاً کسی کو ذیابیطس ہے تو پھر اسے ذیابیطس کے غذائی پرہیز کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہیپاٹائٹس بی، سی اور اے اور ای کے لیے بھی کسی پرہیز کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے کوئی سائنسی شواہد موجود ہیں کہ ہیپاٹائٹس میں پرہیز کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر سعد خالد کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان ہے کہ یرقان ہونے کی صورت میں گوشت بند کردیا جاتا ہے۔ اس سے الٹا مریض کے جسم میں پروٹین مزید کم ہوجاتے ہیں، اور یہ بات مریض کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
کراچی اور سندھ میں ہیپاٹائٹس کے مریض مفت علاج کہاں سے کراسکتے ہیں؟
اس بارے میں ڈاکٹرسعد خالد کا کہنا تھا کہ دی ہیلتھ فاؤنڈیشن کے تحت ایس آئی اے جی( سندھ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اینڈواسکوپی اینڈ گیسٹرو انٹیرولوجی ) میں ہم مریضوں کے ٹیسٹ بھی کرتے ہیں اور مکمل علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سندھ کا ہیپاٹائٹس پروگرام چل رہا ہے جہاں پی پی ایچ آئی کے تحت پرائمری ہیلتھ کیئر مراکز میں اسکریننگ اور علاج کی خدمات بلامعاوضہ فراہم کی جاتی ہیں۔ پھر ہیپاٹائٹس پروگرام کے جو اپنے مراکز ہیں وہاں بھی تشخیص اور علاج کی سہولیات دستیاب ہیں۔
ڈاکٹر سعد خالد نے مزید بتایا کہ حکومت سندھ کے ساتھ ہمارے پائلٹ پروجیکٹس کے ذریعے بھی لوگوں کو مفت اسکریننگ ، تشخیص اور علاج کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، تاہم ان پروجیکٹس میں کچھ مشکلات بھی پیش آئیں کیونکہ تمام علاقے قابل رسائی نہیں ہیں۔
اس ضمن میں انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق ہیپاٹائٹس کی تشخیص اور علاج کی راہ میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں۔ قنبر شہداد کوٹ میں سیلاب آنے کی وجہ سے یہ پائلٹ پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہوا، پھر پتا چلا کہ ہر جگہ وائی فائی کی سہولت موجود نہیں تھی تو کیسے تمام چیزوں کو ٹیبلٹ پر لایا جائے۔
پھر پی سی آر کا مرحلہ آیا تو پتا چلا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے جبکہ پی سی آر کی مشین کے لیے ایئرکنڈیشنڈ اور مخصوص درجہ حرارت برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ دوردراز علاقوں سے سیمپل لے بھی لیں تو وہ پی سی آر مشین تک آئے گا، وہاں ٹیسٹ ہوگا اور پھر مریضوں تک دوائیں کیسے پہنچیں گی۔ تو ان تمام مشکلات کو ہم نے دور کرنے کی کوشش ہے۔
ہیپاٹائٹس سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہیپاٹائٹس سے بچ سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی سے تو ہم حفاظتی ٹیکے لگوا کر محفوظ رہ سکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کو یہ ٹیکے لگوانے چاہیئں جو اتنے مہنگے نہیں ہیں کہ ہم لگوا نہ سکیں۔
اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے لیے غیرضروری انجکشن نہ لگوائیں۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے عوام الناس میں شعور آگیا ہے کہ بلاضرورت ٹیکے نہ لگوائے جائیں اور ہر بار ٹیکوں کے لیے نئی یا ڈسپوزایبل سرنج استعمال ہو۔
دوسرا یہ کہ غیرضروری بلڈٹرانسفیوژن (انتقال خون) سے بھی دور رہیں۔ کوشش کریں کہ بلا ضرورت خون کی منتقلی نہ ہو اور اگر ناگزیر ہو تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو خون آپ کو چڑھایا جارہا ہے وہ درست طریقے سے اسکرین کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ بڑے اداروں سے خون لیا جائے اور وہیں لگوالیا جائے۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے مزید کہا کہ تمام حاملہ خواتین کا ہیپاٹائٹس بی کا ٹیسٹ ہونا چاہیے اور ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں آخری تین مہینے میں ان کا ہیپاٹائٹس کا علاج شروع ہوجانا چاہیے، اس طرح ہونےو الے بچے کے ہیپاٹائٹس کا شکار ہونے کا رسک مزید کم ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ شوہر یا بیوی کے شریک حیات کی ہیپاٹائٹس کی ویکسی نیشن ضرور ہونی چاہیے۔ اور اگر گھر میں کسی ایک فرد کو ہیپاٹائٹس بی ہے تو گھر کے تمام افراد کا ٹیسٹ اور ویکسی نیشن ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ دانتوں کا علاج کرانے جائیں تو اس بات کا یقین کرلیں کہ ڈینٹسٹ کے اوزار اور آلات جراثیم سے پاک ( اسٹریلائزڈ) ہوں۔ اس سلسلے میں ہمارے ڈاکٹر حضرات کو خود بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے اوزار وغیرہ صحیح طور پر جراثیم سے پاک کیے گئے ہوں۔
اسی طرح جب حجام کے پاس جائیں تو یہ یقین کرلیں کہ وہ جو ریزر اور بلیڈ استعمال کررہا ہے وہ جراثیم سے پاک کیا گیا ہے۔ پھر ہماری خواتین بیوٹی پارلرز میں جاتی ہیں تو وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہاں جو چیز دوبارہ استعمال ہورہی ہے اور جو تیز دھار ہے اسے اسٹیرلائزڈ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی شرح خاصی بلند ہے تو اس لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا احتیاط پر عمل کیا جائے۔
ہیپاٹائٹس کی تشخیص کا آسان طریقہ
ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی تشخیص کے لیے سب سے آسان طریقہ ہے کہ آپ جاکر خون کا عطیہ دیں۔ اس سے جہاں ایک طرف کسی انسان کی جان بچانے کے لیے خون عطیہ کرنے پر رب کائنات آپ سے راضی ہوگا وہیں یہ فائدہ ہوگا کہ آپ کا ہیپاٹائٹس بی اور سی کا ٹیسٹ بھی بلامعاوضہ ہوجائے گا۔ اگر نیگیٹیو آجائے تو خون عطیہ کردیں اور مثبت آنے کی صورت میں پتا چل جائے گا کہ آپ کو ہیپاٹائٹس ہے تو پھر اس کا علاج کرائیں۔