لاہور میں ہونے والی موسلادھار بارش نے 44 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ ایئرپورٹ کے علاقے میں 353 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ نشیبی علاقوں میں گھروں میں پانی داخل ہونے سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہا۔ سڑکوں پر پانی جمع ہونے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔ بجلی کا نظام متاثر ہوا اور 407 فیڈر ٹرپ کرگئے۔ دوسری جانب کشمیر، اسلام آباد، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، سندھ اور شمال مشرقی اور جنوب مشرقی بلوچستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔
مون سون میں تو ویسے ہی مُلک کے کئی علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آجاتی ہے اور عوام کو بڑے پیمانے پر نقصانات اُٹھانا پڑتے ہیں، لیکن لاہور اس حوالے سے خوش قسمت رہا کہ حکومت پنجاب کے سرکاری اداروں کی ٹیموں نے نکاسی آب کے لیے بروقت اور فعال کارروائیاں کیں۔ اسپتالوں اور دیگر علاقوں میں موجود بارشی پانی کا ریکارڈ وقت میں نکاس کیا گیا۔
واسا، ایل ڈی اے، لاہور ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ کے اشتراک عمل سے اقدامات کیے گئے، بجلی کے جو فیڈر ٹرپ کر گئے تھے ان کو بھی موثر حکمت عملی کے تحت بتدریج بحال کردیا گیا، اگر خدانخواستہ کراچی میں اتنی بارش ہوجاتی تو شہر اربن فیلڈنگ کا شکار ہوجاتا، جس کی بحالی میں کم ازکم سات دن لگ جاتے کیونکہ چند برس پہلے ایسی صورتحال کا سامنا شہر قائد کے عوام کرچکے ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب حکومت اور لاہور کی ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی قابل ستائش اور دوسری صوبائی حکومتوں اور شہری ودیہی انتظامیہ کے لیے قابل تقلید مثال کی حیثیت رکھتی ہے، جس کو رول ماڈل بنایا جانا چاہیے۔
گزشتہ کئی برسوں سے حکومتی اور متعلقہ اداروں کی غفلت و لاپروائی کے نتائج بُھگت رہے ہیں اور اب تو غربت و مہنگائی کے ستائے عوام کی قوتِ برداشت مکمل طور پر جواب دے چُکی ہے۔ پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہرگندگی کی لپیٹ میں ہیں۔ گلی، محلے سیوریج کے گندے پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں اور حکومتی مشینری تب حرکت میں آتی ہے، جب مکمل تباہی و بربادی ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد بھی قومی خزانے سے کروڑوں روپے محض آنیوں، جانیوں پر خرچ کردیے جاتے ہیں۔
گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر، خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث بارشوں کی شدت میں اضافے اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بچاؤ کے لیے موثر اقدامات کا فقدان ہے، حالانکہ ماہرین بارہا متنبہ کر چُکے ہیں کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ زمین، بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دَور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق غیر معمولی بارشیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہوئیں، جس سے بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ندی نالوں میں طغیانی، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں تیزی اور بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو مسلسل بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، جس کے باعث ہر سال بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات اُٹھانے پڑ رہے ہیں۔ موسمی تغیرات کے باعث بارشیں معمول سے ہٹ کر ہو رہی ہیں، جب کہ متعلقہ ادارے پیشگی منصوبہ بندی سے قاصر ہیں، جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ماہرینِ موسمیات کی پیش گوئی کے عین مطابق رواں برس مُلک کے طول وعرض میں غیر معمولی موسلا دھار بارشوں کے باعث کافی جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سر اُبھارنے والی قدرتی آفات سے جو10ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات کس قدر واضح اور شدید ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران ملک کے درجہ حرارت میں سالانہ0.63ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ پاکستان کے ساتھ لگنے والے بحیرہ عرب کے ساحلوں پر پانی کی سطح سالانہ ایک ملی میٹر کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
موسمیات اور آب و ہوا کے ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ آنے والے برسوں میں ان اثرات کے تیزی سے بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔ ان پیش گوئیوں کے مطابق موسمیاتی واقعات، ماحولیاتی انحطاط اور فضائی آلودگی، یہ تینوں عوامل مل کر2050تک پاکستان کے جی ڈی پی میں18تا 20فیصد تک کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات لوگوں کے طرزِ رہائش اور ان کے ذرایع معاش پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں حصے دار نہیں ہیں، نہ ہی ان کا ان تبدیلیوں میں کوئی براہ راست عمل دخل ہے۔ اس کے باوجود ان ممالک کو ان تبدیلیوں کے اثرات و نتائج کو تسلیم کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جیسا کہ پاکستان اس وقت کررہا ہے۔
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے جو ہر سال مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ گرمی کی شدت اور بن موسم بارشوں نے پاکستان کی زرعی پیداوارکو شدید طور پر متاثرکیا ہے اور اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھ سکتی ہے اور اگر یہ بڑھی تو پاکستان جو پہلے ہی غذائی تحفظ کے لحاظ سے شدید خطرے کا شکار ہے، مزید مسائل میں گھر جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے برسوں میں اہم غذائی اور نقد آور فصلوں جیسے گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی کرچکا ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمیں بے حد محتاط ہوکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اس صورتِ حال کے منفی اثرات مُلکی معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں، جو حکومتوں اور انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث ہیں کہ حکومتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ سیلاب سے پیدا شدہ نقصانات کے ازالے پر صَرف کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب بلدیاتی، ضلعی اور صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی کا معیار بہتر ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے۔
بدانتظامی اور ادارہ جاتی اختیارات و فرائض میں عدم توازن کا خمیازہ عوام بُھگت رہے ہیں۔ میونسپل اور صوبائی محکموں کے افسران، ملازمین کی تعداد لاکھوں میں ہے، اُنھیں سرکاری خزانے سے تنخواہوں اور مراعات کی مَد میں ہر ماہ کئی ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کی کارکردگی کا معیار انتہائی پست ہے۔ ہر برس مون سون بارشوں سے پہلے حکومتی اور انتظامی سطح پر بڑے بڑے دعوے سامنے آتے ہیں، لیکن جب بارشیں ہوتی ہیں، تو ان دعوؤں کی سب قلعی کُھل جاتی ہے۔
ملک بھر میں شجر کاری کی مہم کا آغاز ہوچکا ہے،کسی علاقے میں درخت لگانے کا عمل، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کے خاتمے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، تو جنگلی حیات بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے اور جانوروں کی کئی نسلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ پھر ہریالی کی کمی کی وجہ سے فضا میں تازہ آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ ماہرین کے مطابق درخت، زمین پرکیل کی مانند ہوتے ہیں اور پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے، جس کا صرف4 فی صد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، بلکہ اگر درست اور سائنسی پیمائش کی جائے، تو شاید جنگلات کا رقبہ دو فی صد سے بھی کم نکلے۔ جنگلات کسی بھی علاقے کی آب و ہوا کو خوش گوار بناتے اور درجہ حرارت کی شدت میں کمی لاتے ہیں۔
نیز، یہ بارشیں برسانے کا بھی ذریعہ ہیں، کیوں کہ ان کے سبب ہوا میں آبی بخارات بڑھ جاتے ہیں۔ پھر درختوں کی جڑیں مٹی کوآپس میں جکڑے رکھتی ہیں، جس سے زمین کی زرخیزی قائم رہتی ہے۔ جنگلات کے نہ ہونے سے دریا اپنے ساتھ ریت اور مٹی کی بڑی مقدار بہا لے جاتے ہیں، جس سے ڈیمز یا جھیلیں سلٹ سے بَھر جاتی ہیں اور زراعت کے لیے پانی کا زیادہ ذخیرہ نہیں ہو پاتا۔ سیم و تھور زدہ علاقوں میں درخت بہت کارآمد ثابت ہوتے ہیں،کیوں کہ یہ زمین سے پانی جذب کر لیتے ہیں، جس سے زیرِ زمین پانی کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور اس کی سطح نیچے چلی جاتی ہے۔ ماہرین کی طرف سے تجویز پیش کی گئی ہے کہ درختوں اور جنگلوں کے تحفظات کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔
پاکستان کے ہر فرد کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنے حصے کا کردار بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمی معاملات کے ماہر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گاڑیوں اور مشینوں کا استعمال کم کرنا، پیدل چلنا، ورزش کرنا اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانا انفرادی سطح پر ایسے اقدامات ہیں، جن کے ہمارے ماحول اور موسموں پر مجموعی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔