اپنے ملک کو درست سمت میں لے کر جائیے
اردن ایک مختصر سا ملک ہے۔ پینتیس ہزار مربع میل پر مشتمل، اس کی آبادی لاہور شہر سے بھی قدرے کم ہے۔ مسلمان آبادی ستانوے فیصد (97%) ہے۔ یعنی مجموعی طور پر یہ ایک مسلمان خطہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اردن، اسرائیل کا ہمسایہ ہے۔ تین سو میل لمبا ملحقہ بارڈر، ویسٹ بینک سے شروع ہو کر بحیرہ مردار تک جاتا ہے۔
1994میں اسرائیل اور اردن کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا جس کے تحت اردن دریائے یرموک اور دریائے اردن سے اپنا آبی حصہ لینے میں کامیاب ہوا اور ساتھ ہی اپنا وسیع علاقہ جنگ کے بغیر حددرجہ پرامن طریقے سے واپس لے لیا۔ چند برس پہلے اردن جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اسرائیل اور اردن کے بارڈر پر ایک صنعتی علاقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس میں حیرت انگیز خصوصیات تھیں۔ کپڑے بنانے والی بڑی بڑی فیکٹریاں لگی ہوئی تھیں۔ تمام خام مال اسرائیل سے آتا تھا۔ کپڑا تیار ہونے کے بعد تاجر اسے پورے یورپ اور امریکا میں بغیر کسی ٹیکس کے برآمد کر سکتا تھا۔
یعنی اس انڈسٹریل اسٹیٹ میں کام کرنے کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کے تمام دروازے اردن کی مصنوعات کے لیے کھل چکے ہیں۔ اہم بات یہ بھی تھی کہ اس جگہ پر سب سے زیادہ ملیں پاکستانیوں کی تھیں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے بلکہ مجھے بھی نہیں آ رہا تھا کہ پاکستانی تاجر اس صنعتی علاقے سے سب سے زیادہ پیسے کما رہے تھے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف قومیت والے بزنس مین، اس انڈسٹریل اسٹیٹ سے استفادہ اٹھا رہے تھے۔ کیا وجہ تھی کہ وہ لوگ جن کا اردن سے کوئی تعلق نہیں تھا، اتنے سکون سے اسرائیل سے کاروبار کر رہے تھے۔ واحد وجہ اردن کی حکومت کی وہ پالیسی تھی جو ان کے لیے اپنے ملک میں خوشحالی اور امن کو فروغ دینے کی ضامن تھی۔ بغیر کسی جذباتیت یا نعرہ بازی کے انھوں نے اپنی قومی پالیسی اس طرح ترتیب دی ہے کہ اپنے ملک کو ہر طرح سے محفوظ کر چکے ہیں۔
نہ انھیں امریکا سے ڈر ہے، نہ اسرائیل سے لڑائی ہے، نہ روس ان کا دشمن ہے اور نہ فلسطینی ان سے خار کھاتے ہیں۔ قصہ کوتاہ یہ کہ اردن نے اپنی تمام توانائی اپنے ملک کے لیے وقف کر دی ہے اور آج پورے مشرق وسطیٰ میں وہ ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں نہ جنگ ہے نہ دہشت گردی کا خوف ہے بلکہ شدت پسندی بھی دور دور تک موجود نہیں ہے۔ اردن اپنے شہریوں کے لیے ہر طور پر محفوظ ملک ہے۔
ایک چھوٹا سا ملک جس نے دانشمندی سے اپنے علاقہ کو عام لوگوں کے لیے بہتر بنایا، تمام مسلمان ممالک کے لیے مثال بن چکا ہے۔ یہی معاملات یو اے ای اور سعودی عرب کے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کو ہر طرح کی شدت پسندی سے دور لے جا چکے ہیں۔ان کے شہری اپنی ریاستوں کی عقلمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے خوشحال سے خوشحال تر ہوتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب تو خیر بہت بڑا ملک ہے۔ دبئی جیسی شہری ریاست کا ٹریڈ سینٹر جو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ کلومیٹر کے برابر ہو گا۔ وہاں ہونے والا کاروبار، پاکستان کی مکمل جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔
اب اپنے ملک کی طرف آتا ہوں۔ قرض، دہشتگردی، منافقت، شدت پسندی اور خودکش حملوں میں گھرا ہوا یہ خطہ دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن چکا ہے۔ مانیے یا نہ مانیے، ہماری واحد شناخت دہشت گردی کے حوالے سے ہے۔ پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے کہ اس پورے خطے میں جہاں ہندوستان، افغانستان، ایران وجود رکھتے ہیں، دہشت گردی کو ایک پالیسی کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے ۔ ہمارے محافظوں پر دہشت گرد حملے کر رہے ہیں۔ پندرہ بیس برس پر محیط یہ اندرونی ہولناک جنگ اب مکمل طور پر بے قابو ہو چکی ہے۔ کے پی کے قبائلی علاقے اور بلوچستان، ایک خلفشار میں مبتلا ہیں۔ امن تو دور کی بات، اب اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی مشکل نظر آ رہا ہے۔
اس کی کیا وجہ ہے؟ سادہ سی بات ہے کہ جعلی لوریوں اور جھوٹی تاریخ سے ہماری وہ ذہن سازی کی گئی ہے کہ ہم سب سے کم اہمیت اپنے ہی ملک کو دیتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی، کشمیر فتح کرنا، اردگرد کے مسلمانوں پر ظلم ختم کروانا وغیرہ، ہمارے اولین مقاصد بن چکے ہیں۔ مگر منافقت پر غور فرمایئے کہ چین میں مسلمانوں کی نسل کشی پر ہم چوں تک نہیں کرتے۔ اگر ہمیں کسی چیز سے بے پروائی ہے تو وہ صرف اور صرف اپنا ملک ہے یعنی پاکستان ہمارے لیے صرف ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
جہاں سے آزادی کے علم بلند ہوں گے اور پھر ہم پوری دنیا کو سرنگوں کر لیں گے۔ مگر یہ صرف ایک خام خیالی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ اور نہ ہی ہمیں ایسے جارحانہ نظریات کو اپنانے اور بڑھانے کو ترجیح دینی چاہیے۔ ہمارے ہر گلی محلہ میں ایسے شدت پسند لوگ موجود ہیں جو اپنی مذہبی تاویل کے تحت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کیا طالبان سے ہمدردی رکھنے والے افراد ہمارے ملک کے کونے کونے میں نہیں پھیلے ہوئے؟ کیا آج بھی لال قلعہ پر ہلالی پرچم لہرانے کا منصوبہ دلکش حیثیت نہیں رکھتا؟ کیا فرقہ واریت پرمبنی ایسی جماعتیں موجود نہیں ہیں جو اسلحہ سے لیس ہیں؟ حکمران ان تنظیموں سے ڈرتے ہیں۔
ان کے خلاف کارروائی سے اجتناب کرتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ سب کچھ ہندوؤں اور یہودیوں کی سازش ہے؟ ہماری مختلف حکومتوں اور اداروں نے بذات خود بڑے اہتمام سے اپنے ملک کی بیخ کنی فرمائی ہے۔ اور آج کوئی بھی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ لاقانونیت کا جن ملک کو تباہ کرنے کے بعد، اب سب کو چت کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مگر خم ٹھونک کر، درست تجزیہ کرنے کے لیے آج بھی کوئی تیار نہیں۔ اب تو خاکم بدہن، ملک ٹوٹنے کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ مگر آج بھی کوئی حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حضور! یہ بربادی ہم نے خود اپنے لیے محنت سے مول لی ہے۔ اور ہمیں اس امر کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس خطرناک کھیل میں ملک کا کیا حال ہو گیا ہے۔ قیامت تو یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں بھی ہم اپنے قومی دھارے کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ جب ہم خود اپنے ملک کو برباد کر چکے ہیں تو پھر کس چیز کا گلہ کریں بلکہ کس سے کریں۔
ہمارے اکابرین، دراصل اس ملک کے استحصال اور بدامنی سے مالی منفعت حاصل کرنے کے گرو ہیں۔ بجلی گھروں کے مالکان چالیس خاندان ہیں جنھوں نے عوام کو خون کے آنسو رلا دیے ہیں۔ اور وہ کچھ بھی تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور نہ ہی کوئی دھرنا یا مجمع ان کے مالی مفادات کو ختم کروا سکتا ہے۔ اس لیے کہ ان چالیس فراعین کے پاس پوری حکومتی اور ریاست طاقت ہے۔ اور کمال امر یہ بھی ہے کہ حالیہ دھرنا بھی وہ مذہبی جماعت دے رہی ہے جس کے تانے بانے اداروں کے مفادات سے میل کھاتے ہیں۔ کٹھ پتلی کے اس کھیل کا عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ابھی تک تو قرائن ملی بھگت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
بہرحال چھوڑیئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے دلیرانہ فیصلے کون کرے گا، جن سے قومی سلامتی اور صنعت وحرفت حددرجہ بہتر ہو جائے۔ دانشمندی پر مبنی یہ فیصلے عوام میں غیرمقبول ہوں گے۔ کیونکہ ستر برس سے لوگوں کی مخصوص طریقے سے ذہن سازی کی گئی ہے۔ اور اب وہ کوئی مختلف بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے جو ان کے مصنوعی نکتہ نظر کے خلاف ہو۔ ملک کی بربادی کو قبول کرنا انھیں درست لگتا ہے۔ مگر اپنے وطن کو بہتری کی طرف لے جانے کا راستہ یہود ونصاریٰ کی مدد کے علاوہ کچھ بھی نہیں؟ اکثر لوگ نسیم حجازی کے فکشن ناولوں کو اسلامی تاریخ کا منبع سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک پاکستان دنیا کا مرکز ہے اور یہیں سے کافروں کی بربادی کا سفر شروع ہو گا۔ آگے کیا عرض کروں۔ مگر دنیا ہمیں احمق تصور کرتی ہے۔ ہم واحد لوگ ہیں جو اپنے ملک دشمنی میں ہر حد، حب الوطنی کے نام پر عبور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہماری کشمیر پالیسی ہو یا افغانستان میں دخل اندازی ہو، ایران کے بارڈر پر غیرمعقول رویہ ہو یا مذہبی شدت پسندی کا داخلی رویہ ہو، ہم کسی طور پر بھی اب مثبت بدلاؤ کے قائل نہیں۔ ہمارے سے اردن بہتر ہے جس کے بادشاہ نے اپنے سرحدی دشمنوں کو دوست بنا کر کم ازکم اپنے ملک کو تو محفوظ کر لیا ہے۔ ہم تو اردن جیسے چھوٹے ملک سے بھی گئے گزرے ہیں! اور لگتا ہے کہ ہم اپنے یوم سوگ کو قریب تر لانے کی پوری جدوجہد کر رہے ہیں۔