غداری کیس پرویز مشرف کا دستخط شدہ ایمرجنسی حکم نامہ عدالت میں پیش

کابینہ ڈویژن کے افسر کلیم احمد نے پی سی او اور 3 نومبر کی ایمرجنسی سے متعلق اصل دستاویزات پیش کیں


ویب ڈیسک July 03, 2014
16 نومبر 2013 کو سابق صدر کیخلاف انکوائری مکمل ہوچکی ہے جبکہ ایف آئی اے کو اس کے بعد دستاویزات فراہم کی گئیں، وکیل صفائی فوٹو: فائل

سنگین غداری کیس میں کابینہ ڈویژن کے افسر نے سابق صدر پرویز مشرف کے دستخط شدہ 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے حکم نامے اور پی سی او کی اصل دستاویزات عدالت میں پیش کردیں۔


ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی بینج نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کی۔ دوران سماعت پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی جانب سے 4 گواہ پیش کئے گئے جن میں سے وکیل صفائی شوکت حیات نے 2 گواہوں پر جرح مکمل کرلی۔ پراسیکیوٹر کی جانب سے کابینہ ڈویژن کے افسر کلیم احمد شہزاد کو بطور گواہ پیش کیا جنہوں نے عدالت میں 3 نومبر 2007 کو لگائی جانے والی ایمرجنسی اوراعلیٰ عدلیہ کے ججز کے حلف کا حکم نامہ بھی پیش کیا جس میں سابق صدر پرویز مشرف کے دستخطوں کے ساتھ ایمرجنسی کا حکم نامہ بھی شامل ہے۔


سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل شوکت حیات نے گواہ پر جرح کرتے ہوئے کئی سوالات کئے جس پر کلیم احمد کا کہنا تھا کہ سابق صدر نے ایمرجنسی کے حکم نامے پر میرے سامنے دستخط نہیں کئے تاہم ایمرجنسی حکم نامے پر موجود دستخط سابق صدر پرویز مشرف کے ہی ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 4 دسمبر 2013 کو ایف آئی اے نے ان کے دفتر کا دورہ کیا اور ایمرجنسی سے متعلق دستاویزات مانگیں تاہم حکام کو 6 دسمبر کو 3 دستاویزات فراہم کی گئیں اور 18 دسمبر کو پرویز مشرف کے دستخط شدہ پی سی او کے حکم نامے کی کاپی مانگی گئی جو 19 دسمبر کو ایف آئی اے حکام کے حوالے کی گئی۔


پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی جانب سے ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن سراج احمد کو بھی بطور گواہ پیش کیا گیا اس موقع پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پی سی او،ایمرجنسی نفاذ اور صدارتی حکم نامے کی دستاویزات سیکریٹری کابینہ نے براہ راست وصول کیں جبکہ کابینہ ڈویژن نے ایمرجنسی حکم نامہ وصولی کی تاریخ لکھی اور نہ ہی وقت۔ پرویز مشرف کے وکیل شوکت حیات نے گواہ سے سوال کیا کہ آپ نے ایف آئی اے کو 3 بیان ریکارڈ کروائے ان میں نہ پرویز مشرف کا نام ہے اور نہ ہی انکوائری نمبر جس پر سراج احمد نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں یہ درست ہے کہ بیانات میں ملزم کا نام درج نہیں اور نہ انکوائری نمبر۔ وکیل صفائی نے ایک اور سوال کیا کہ 3، 4، 9 اور 19 دسمبر 2013 کو ایف آئی اے نے دستاویزات کیوں مانگیں جس پر گواہ نے کہا کہ اس بارے میں انہیں کچھ علم نہیں جبکہ وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ 16 نومبر 2013 کو سابق صدر کے خلاف انکوائری مکمل ہوچکی ہے اور کابینہ ڈویژن کی جانب سے ایف آئی اے کو اس کے بعد دستاویزات فراہم کی گئیں۔


سابق صدر کے وکیل شوکت حیات نے 2 گواہوں پر جرح مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ دیگر گواہان پر جرح مکمل کرنے کے لئے کچھ وقت دیا جائے اور سماعت ملتوی کی جائے جس پر عدالت نے کیس کی سماعت 8 جولائی تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔