پاکستان ایک نظر میں جنسی طور پر ہراساں کرنا جرم ہے

قانوں سازی اپنی جگہ ایک درست عمل ہے مگر ہمارے معاشرے کو ذہنی تربیت اور کردار سازی کی بھی اشد ضرورت ہے ۔


ضمیر آفاقی July 03, 2014
قانوں سازی اپنی جگہ ایک درست عمل ہے مگر ہمارے معاشرے کو ذہنی تربیت اور کردار سازی کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ فوٹو فائل

کسی معاشرے کا مہذبپن دیکھنا ہو تو یہ دیکھو کہ اس معاشرے میں عورت اور بچے کس حالت میں اور ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ہماری ساری کی ساری شاعری، ڈرامے، ادب عورت کے گرد ہی گھومتا ہے یہاں تک کے ادب اور شاعری عورت کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے، کہنے کی حد تک عورت ماں ،بہن بیٹی ،بیوی ہے مگر مردوں کے معاشرے میں اسے صرف ایک ''جنس'' کے طور پر ہی دیکھا اور ٹریٹ کیا جاتا ہے ۔ جس کی اپنی نہ کوئی سوچ ہے اور نہ اس کی کوئی حثیت اور اہمیت اس کے لے قانوں سازی سے لیکر اس کے رہن سہن یہاں تک کہ اٹھنے بیٹھنے ،پڑھنے لکھنے تک کے فیصلے مرد حضرات کرتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی آبادی کا آدھا حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور اس آدھے حصے کو معاشرے میں وہ مقام ابھی تک نہیں مل سکا جس کی وہ مستحق ہے۔ نیپولین نے جانے کیا سوچ کر کہا تھا کہ؛
''تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا'' ۔

بظاہر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین نظرآتی ہیں کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے اسے ایک اچھی علامت تصور کیا جانا چاہے لیکن دوسری طرف خواتین کے ساتھ ان کے کام کرنے کی جگہوں دفاتر،ا سکول ، اسپتالوں حتیٰ کہ اسمبلیوں میں بھی جہاں قانون سازی ہوتی ہے میں ان کے ساتھ کس طرح کا شرمناک رویہ رکھا جاتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں، ہر جگہ خواتین کے ساتھ استحصال اور انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔

خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے خاتمے اور سزا کے لئے وطن عزیز میں قانون سازی کی کوششیں ڈکٹیٹر کے دور سے جاری تھیں لیکن قانون سازی کا مرحلہ گزشتہ دور(پی پی پی) کی حکومت میں مکمل ہوا ۔ 2008ء میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی روک تھام کا قانون عورتوں کے مسائل کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ۔ لیکن تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا صرف عورتوں کا مسئلہ نہیں بلکہ مرد بھی اس مسئلے کا شکار ہیں، انہیں بھی اسی طرح جنسی طور پرہراساں کیا جاتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر کسی عورت کو ہراساں کیا جائے تو پوری دنیا میں اس کی مظلومیت کا ڈنکا بچ جاتاہے۔ لیکن اگر کسی مرد کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی شکایات لے کر مالکان تک جاتا ہے تو اس آمر میں اسے بھی برابر کا شریک تصور کیا جاتا ہے۔

چنانچہ 2010ء میں مرداورعورت دونوں کیلئے قانون پاس ہوا جسے ایک اچھی کوشش قرار دیا جانا چاہے۔ اس قانون کے تحت اداروں کی انتظامیہ پر اس بات کی ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ ادارے کے کلچر کو تبدیل کرکے اسے عورتوں اورمردوں دونوں کیلئے باعزت بنائے، کیونکہ کام کرنے والی اکثر مرد و خواتین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جنسی خوف و ہراس ہے۔ یہ قانون اس ملک کی ترقی کیلئے ہرسطح پرعورتوں اور مردوں کو پوری طرح شرکت کرنے کیلئے نہ صرف راستے ہموارکرتا ہے بلکہ انہیں عزت وقار کے ساتھ جینے اور اپنے فرائض منصبی کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔

جنسی ہراسمنٹ کا مسئلہ ہمارے چاروں اطراف پھیلتا جارہا ہے۔ جس کے خاتمے کے لئے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے زیر اہتمام ''جنسی ہراساں کئے جانے کے قانون اور اس کے اطلاق'' کے موضوع پر منعقدہ تقریب میں مقررین نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ افراد کے وقار کا خیال رکھنے کے حوالے سے اقدامات کئے جانے چاہئے اور دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے قانون کو مزید موثر بنایا جانا چاہئے۔ جبکہ قانونی ماہر بابر ستار کا کہنا تھا کہ جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے حوالے سے کوئی موثر حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی، کسی بھی شخص کے مجرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے زیادہ سے زیادہ بس ملازمت سے فارغ کرنے کی ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ تاہم مشتبہ شخص کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جانی چاہئے۔

قانون سازی اپنی جگہ ایک درست عمل ہے مگر ہمارے معاشرے کو ذہنی تربیت اور کردار سازی کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ کیونکہ جب تک خواتین اور مردوں کو اپنے کام کرنے والے اداروں میں احساس تحفظ نہیں ہوگا وہ یونہی چپ چاپ خوف کے عالم میں زندگی گزارتے رہیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔