حکومت برآمدات بڑھانے کے لیے پرعزم
ملک کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن پیدا کر کے ہی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے
برآمدات زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا اہم ترین ذریعہ ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے برآمدات کے حجم میں اضافے کے لیے کبھی کوئی طویل المدتی پالیسی تشکیل دینے پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو، تین عشروں کے دوران ملکی برآمدات کا زیادہ سے زیادہ حجم20 سے25 ارب ڈالر سالانہ کے درمیان ہی رہا ہے، ماسوائے مالی سال2021۔22 کے جب31.7 ارب ڈالرکی برآمدات ہوئیں۔
ایسے حالات میں جب ملک کا صنعتی اور برآمدی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی اور دیگر مسائل کی وجہ سے صنعت کار صنعتیں بند کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کا کسی ٹھوس برآمدی پالیسی کے بغیرآیندہ تین برس میں ملکی برآمدات کا حجم60 ارب ڈالرسالانہ تک لے جانے کا اعلان زبانی جمع خرچ سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں۔ ملک کی معاشی مضبوطی برآمدات میں اضافے سے مشروط ہے مگر یہ اضافہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں صنعتی پیداوارکی رفتار تیز ہو۔
اس وقت ملک میں بجلی کی قیمت خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ گیس کی قیمت میں بھی گزشتہ ایک سال میں570 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹیکسوں کے حوالے سے بھی حکومت کی کوئی مستقل پالیسی نہیں، برآمدات میں دگنا اضافہ کیسے ممکن ہے؟ یہ امر انتہائی خوش آیند ہے کہ معیشت کی زبوں حالی، زرمبادلہ کی کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کی پریشان کن صورت حال میں ملکی برآمدات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ درآمدات اور برآمدات کے فرق کوکم کرنے، تجارتی خسارہ گھٹانے، سرمایہ کاری بڑھانے اورکرپشن کے خاتمے پر خصوصی توجہ کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں ریکارڈ کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ مالی2023-24 کے دوران30 ارب ڈالر سے زائد کی اشیاء برآمد کی گئیں اور اس میں بڑا حصہ زرعی اجناس کی برآمد کا تھا۔ حکومت اگر واقعی ملکی برآمدات میں اضافے کی خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے سستی توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ملک کا برآمدی شعبہ عالمی منڈی میں مسابقت پیدا کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو 50 کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر عطا کیے ہیں جس میں تھر میں دنیا کے کوئلے کے دوسرے بڑے (185 ارب ٹن) ذخائر، ریکوڈک میں تانبے کے پانچویں بڑے 6 ارب ٹن (22ارب پاؤنڈز مالیت ذخائر) اور سونے کے چھٹے بڑے42.5 ملین اونس (13ملین پاؤنڈ مالیت) کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائرکی مالیت 500ارب ڈالر ہے لیکن ہم بدقسمتی سے ان معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور دنیا کے سامنے کشکول لیے پھر رہے ہیں۔
ملک کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن پیدا کر کے ہی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے، یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے شارٹ ٹرم کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ پاکستان کی معیشت کنزیومر معیشت کا ماڈل بنی ہوئی ہے۔ کپڑوں کے بٹن سے لے کر جوتوں اور ملبوسات تک درآمدکیے جاتے ہیں، الیکٹرونکس کی تمام آئٹمز، تعمیراتی میٹریل بھی بڑی تعداد میں درآمد ہوتا ہے۔ آٹو موبائل کا شعبہ بھی زیادہ تر درآمدات پر انحصارکرتا ہے۔ فوڈ آئٹمزکی درآمد بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بننے کے بجائے اپنے مینو فیکچرنگ سیکٹرکو مضبوط کریں اور ترقی دیں۔
تیل اورگیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ تھرکے کوئلے کے ذخائر ریکوڈک اور سینڈک کی چھپی ہوئی دولت کو ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنانے پر پابندی عائد اور بنجر، بے آباد زمینوں کو زیرکاشت لانے کے لیے قابل عمل اقدامات کیے جائیں، جبکہ برآمدات دوست پالیسیوں کی تشکیل بھی ناگزیر ہے۔ حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسی اور ٹیکس نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، برآمدی شعبے کو بے جا ٹیکسوں سے بھی چھٹکارا دلانا ہوگا۔ ہمارے قومی مزاج میں ماضی سے سیکھنے کے رویے کا فقدان ہے، ہم تاریخ کو قصہ کہانی سے بڑھ کر دیکھنے کے عادی نہیں، فی زمانہ یہ خوفناک رویہ ہے جس سے بچنا ہوگا۔
فیصلے چاہے معاشی ہوں یا سیاسی ماضی سے سیکھنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ قومی معیشت اس وقت بے یقینی کی جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، اس سے نجات کے لیے کاروباری حلقوں اور عوام میں ٹھوس حقائق کی بنیاد پر یہ اعتماد پیدا کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کا معاشی مستقبل روشن اور اس منزل کا حصول بہتر منصوبہ بندی اور درست اقدامات کے ذریعے سے کسی بڑی دشواری کے بغیر ممکن ہے۔
پاکستان میں زیر زمین پٹرول کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن ابھی تک ہم ان سے استفادہ نہیں کر سکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2023ء تک جون 2024ء کے دوران پاکستان نے 47کھرب 81ارب روپے کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کی ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران صرف 41کھرب 81ارب 63کروڑ روپے کی درآمد کے باعث 14.33فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ جہاں تک خام تیل کی بات ہے تو 90لاکھ 54ہزار 5سو میٹرک ٹن یعنی کروڈ آئل گزشتہ مالی سال درآمد کیا' اس کے بالمقابل مالی سال یعنی جولائی 2022 تا جون 2023ء کے دوران 78لاکھ 23ہزار 3سو میٹرک ٹن کروڈ آئل درآمد کیا گیا یوں 15.74فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔
60ارب ڈالرکی برآمدات کرنا کوئی بڑی بات نہیں، ہم ریجنل ٹریڈ کے ذریعے سے اپنی برآمدات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی اقتصادی ٹیم ملکی برآمدات کو دگنا کرنے کے اپنے منصوبے کو ہر ممکن تیز رفتاری سے پایہ تکمیل تک پہنچائے تاکہ مایوسیوں کے اندھیرے میں امیدکے چراغ روشن ہوں۔ ہم اپنے ہی خطے کے ممالک کی پالیسیوں کا موازنہ کر کے ملک کی معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کرسکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں اپنا آپ بدلنا ہوگا۔
ایسے حالات میں جب ملک کا صنعتی اور برآمدی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی اور دیگر مسائل کی وجہ سے صنعت کار صنعتیں بند کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کا کسی ٹھوس برآمدی پالیسی کے بغیرآیندہ تین برس میں ملکی برآمدات کا حجم60 ارب ڈالرسالانہ تک لے جانے کا اعلان زبانی جمع خرچ سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں۔ ملک کی معاشی مضبوطی برآمدات میں اضافے سے مشروط ہے مگر یہ اضافہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں صنعتی پیداوارکی رفتار تیز ہو۔
اس وقت ملک میں بجلی کی قیمت خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ گیس کی قیمت میں بھی گزشتہ ایک سال میں570 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹیکسوں کے حوالے سے بھی حکومت کی کوئی مستقل پالیسی نہیں، برآمدات میں دگنا اضافہ کیسے ممکن ہے؟ یہ امر انتہائی خوش آیند ہے کہ معیشت کی زبوں حالی، زرمبادلہ کی کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کی پریشان کن صورت حال میں ملکی برآمدات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ درآمدات اور برآمدات کے فرق کوکم کرنے، تجارتی خسارہ گھٹانے، سرمایہ کاری بڑھانے اورکرپشن کے خاتمے پر خصوصی توجہ کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں ریکارڈ کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ مالی2023-24 کے دوران30 ارب ڈالر سے زائد کی اشیاء برآمد کی گئیں اور اس میں بڑا حصہ زرعی اجناس کی برآمد کا تھا۔ حکومت اگر واقعی ملکی برآمدات میں اضافے کی خواہاں ہے تو اسے سب سے پہلے سستی توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ملک کا برآمدی شعبہ عالمی منڈی میں مسابقت پیدا کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو 50 کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر عطا کیے ہیں جس میں تھر میں دنیا کے کوئلے کے دوسرے بڑے (185 ارب ٹن) ذخائر، ریکوڈک میں تانبے کے پانچویں بڑے 6 ارب ٹن (22ارب پاؤنڈز مالیت ذخائر) اور سونے کے چھٹے بڑے42.5 ملین اونس (13ملین پاؤنڈ مالیت) کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائرکی مالیت 500ارب ڈالر ہے لیکن ہم بدقسمتی سے ان معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور دنیا کے سامنے کشکول لیے پھر رہے ہیں۔
ملک کی درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن پیدا کر کے ہی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے، یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے شارٹ ٹرم کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ پاکستان کی معیشت کنزیومر معیشت کا ماڈل بنی ہوئی ہے۔ کپڑوں کے بٹن سے لے کر جوتوں اور ملبوسات تک درآمدکیے جاتے ہیں، الیکٹرونکس کی تمام آئٹمز، تعمیراتی میٹریل بھی بڑی تعداد میں درآمد ہوتا ہے۔ آٹو موبائل کا شعبہ بھی زیادہ تر درآمدات پر انحصارکرتا ہے۔ فوڈ آئٹمزکی درآمد بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کی منڈی بننے کے بجائے اپنے مینو فیکچرنگ سیکٹرکو مضبوط کریں اور ترقی دیں۔
تیل اورگیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ تھرکے کوئلے کے ذخائر ریکوڈک اور سینڈک کی چھپی ہوئی دولت کو ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنانے پر پابندی عائد اور بنجر، بے آباد زمینوں کو زیرکاشت لانے کے لیے قابل عمل اقدامات کیے جائیں، جبکہ برآمدات دوست پالیسیوں کی تشکیل بھی ناگزیر ہے۔ حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسی اور ٹیکس نظام میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، برآمدی شعبے کو بے جا ٹیکسوں سے بھی چھٹکارا دلانا ہوگا۔ ہمارے قومی مزاج میں ماضی سے سیکھنے کے رویے کا فقدان ہے، ہم تاریخ کو قصہ کہانی سے بڑھ کر دیکھنے کے عادی نہیں، فی زمانہ یہ خوفناک رویہ ہے جس سے بچنا ہوگا۔
فیصلے چاہے معاشی ہوں یا سیاسی ماضی سے سیکھنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ قومی معیشت اس وقت بے یقینی کی جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، اس سے نجات کے لیے کاروباری حلقوں اور عوام میں ٹھوس حقائق کی بنیاد پر یہ اعتماد پیدا کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کا معاشی مستقبل روشن اور اس منزل کا حصول بہتر منصوبہ بندی اور درست اقدامات کے ذریعے سے کسی بڑی دشواری کے بغیر ممکن ہے۔
پاکستان میں زیر زمین پٹرول کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ لیکن ابھی تک ہم ان سے استفادہ نہیں کر سکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2023ء تک جون 2024ء کے دوران پاکستان نے 47کھرب 81ارب روپے کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کی ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران صرف 41کھرب 81ارب 63کروڑ روپے کی درآمد کے باعث 14.33فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ جہاں تک خام تیل کی بات ہے تو 90لاکھ 54ہزار 5سو میٹرک ٹن یعنی کروڈ آئل گزشتہ مالی سال درآمد کیا' اس کے بالمقابل مالی سال یعنی جولائی 2022 تا جون 2023ء کے دوران 78لاکھ 23ہزار 3سو میٹرک ٹن کروڈ آئل درآمد کیا گیا یوں 15.74فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔
60ارب ڈالرکی برآمدات کرنا کوئی بڑی بات نہیں، ہم ریجنل ٹریڈ کے ذریعے سے اپنی برآمدات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی اقتصادی ٹیم ملکی برآمدات کو دگنا کرنے کے اپنے منصوبے کو ہر ممکن تیز رفتاری سے پایہ تکمیل تک پہنچائے تاکہ مایوسیوں کے اندھیرے میں امیدکے چراغ روشن ہوں۔ ہم اپنے ہی خطے کے ممالک کی پالیسیوں کا موازنہ کر کے ملک کی معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کرسکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں اپنا آپ بدلنا ہوگا۔