وقت کا دھارا
1995 میں بوسنیا میں ہونے والے جنگی مظالم کی داستانیں آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں
فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے وہ ایک دنیا کے سامنے ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کھلے عام کی جا رہی ہے۔ بدسلوکی کا کوئی ایک عمل نہیں بلکہ ایک فہرست ہے جو فلسطینی قیدیوں سے روا رکھی گئی ہے۔ ایسا ناروا سلوک 2024 کے اس ترقی یافتہ دور میں ہو رہا ہے جب سفید جھنڈے والوں کی کوئی کمی نہیں لیکن یہاں نقار خانے میں طوطی کی آواز سن ہی کون رہا ہے پھر بھی لوگ ہیں ابھی جہاں میں اچھے۔
ایک حراستی مرکز میں اسرائیلی فوجیوں نے ان اہل کاروں کو پکڑ لیا جو غزہ سے پکڑے گئے فلسطینی قیدیوں سے بدسلوکی کے مرتکب قرار پائے تھے ان سے تحقیقات کا عمل جاری تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے اس بارے میں بیان دیا ہی تھا کہ ان کی حمایت کے لیے اسرائیلی عوام کے بے قابو گھوڑے اس حراستی مرکز میں گھس آئے۔
ان کے خیال میں حراستی مرکز سدیہ تمان میں اگر ان ملزمان کے ساتھ کوئی کمی بیشی رہ گئی تو یہ معاملہ کہیں اِدھر ہی دبا نہ دیا جائے بظاہر اس ہلکے پھلکے واقعے کو اسرائیلی نیٹ ورک پر براہ راست دکھایا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے جذبات سے لبریز ان افراد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ بات اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ اسرائیل کے حراستی مراکز میں مظلوم فلسطینی جس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں، ان جنگی جرائم کو چھپانے کی کوشش تو شد و مد سے جاری ہے لیکن آخر کب تک یہ مظالم جاری رہیں گے،کیا ان تکالیف کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا یا اس کا کوئی علاج بھی ہے؟
اسرائیلی فوج کے سربراہ اس مبینہ بدسلوکی کے بارے میں کتنی بھی مذمت کیوں نہ کر لیں 9 فوجیوں کو حراست میں لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ چاہے ان کے حراستی مراکزکتنے ہی بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتے ہوں۔
سدیہ تمان کا حراستی مرکز جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد قائم کیا گیا تھا جہاں غزہ سے پکڑے گئے فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے۔ ان جنگی قیدیوں پر مظالم اور غیر انسانی سلوک کی خبریں اس وقت منظر عام پر کھل کر آئیں جب ایک وکیل نے ایک فلسطینی جنگی قیدی صحافی سے مختصر ملاقات کی جس میں اس صحافی نے جوکچھ سمجھا اور دیکھا وہ اپنے صحافیانہ کردار کے تحت عیاں کر دیا اور یوں بہت سے وہ راز بھی افشا ہو گئے جن پر پردہ ڈالا گیا تھا۔ بظاہرکبھی 9 توکبھی 8 فوجیوں کی صدائیں ابھر رہی ہیں جو ان جرائم میں ملوث تھے ابھی اورکیا کیا باقی ہے؟ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور وہ صحافی محمد عرب تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگیا۔
یوخائی افنی نامی اسرائیلی جیل آفیسرکو ایک فلسطینی 23 سالہ نوجوان ابراہیم نے موت کے گھاٹ اتارکر اس کی لاش کو آگ لگا دی۔ یوخائی افنی ایک بدنام اسرائیلی جیل آفیسر تھا جو جیل میں قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ ابراہیم بھی اسی تشدد کا شکار بنا۔ اپریل کے مہینے میں اسے اس قید سے نجات ملی تھی۔ اس امر میں بھی شبہات باقی ہیں لیکن خیال یہی ہے کہ ابراہیم نے افنی کو اسی کے گھر میں جان سے مارا۔ ایسا امر پہلی بار ہی ہوا ہے۔ کیا ایک نوجوان کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدام صہیونی طاقت کے لیے سوالیہ نشان ہے یا یہ محض ردعمل کے طور پر اختیار کیا گیا ہے؟کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد 21 ہزار کے قریب ہے۔ کیا کہانی پھر سے دہرائی نہیں جا رہی؟
1995 میں بوسنیا میں ہونے والے جنگی مظالم کی داستانیں آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں، ایک بڑی تعداد میں مظلوم مسلمان قیدیوں کو جس بے دردی سے مظالم کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، یہ ایک طویل بحث ہے، ان تمام جنگی جرائم کوکسی ایک کے سر ڈال کر آٹھ ہزار سے زائد مظلوم مسلمانوں کے خون کا قضیہ تمام کردیا گیا تھا، لیکن کیا آج کی دنیا اس بڑے سانحے کو بھول پائی ہے،کیا اس دور سے آج کے 2024 میں کوئی فرق دیکھنے میں آیا ہے؟ سوائے کووڈ کی وبا کے کہ جس نے دنیا میں مہنگائی کی شرح کو آسمان پر پہنچا دیا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 25-26 سالوں بعد بھی مسلمانوں کے لیے 1995 کا سال ویسے ہی ایستادہ ہے۔
جولائی کی گیارہ تاریخ 1995 کا وہ بدترین دن جب بوسنیا ہرزیگوینا پر سرب فوجوں نے قبضہ کیا تھا اور دس دنوں تک اجتماعی قتل کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک ان کی بربریت کی داستانوں میں رقم ہو چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت بھی اقوام متحدہ ایک بے بس چڑیا کی مانند پنجرے میں قید مہیم سی آواز میں '' بس کرو'' کی صدائیں لگا رہا تھا اور اس کی صدائیں بڑی طاقتوں کے ایوانوں میں کھوگئی تھیں اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، پر آج اقوام متحدہ کی چڑیا بھی اُڑ چکی ہے۔ طاقتور ایوان اب نڈر ہیں انھیں کسی کا کوئی خوف نہیں، ان کے محلات، مشنریز رواں دواں ہیں سب کچھ جل رہا ہے لیکن شاید طاقت کے نشے میں چُور وہ بھول چکے ہیں کہ ایک سپرپاور ہمیشہ سے ہی انھیں دیکھ رہی ہے، ان کی رسی ڈھیلی ہے اور جب اس کے کھینچنے کا وقت آئے گا تو ان کوکہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ رب العزت نے قرآن پاک میں کل دنیا کے انسانوں کے لیے تاریخ کے ان واقعات کا بھی ذکرکیا ہے جو پچھلی قوموں پر ان کے کرتوتوں کے باعث عذاب نازل کیے گئے تھے۔ ہر غرق ہونے والی قوم کی ایک خوبی بدرجہ اتم نظر آتی ہے اور وہ ہے غرور۔ اس کی ہر شکل بری ہے کیونکہ یہ رب العزت کو پسند نہیں، غرور و تکبر انسان کو پستیوں میں گرا دیتا ہے بالکل اس طرح جیسے کوئی جوان شاہ سوارکسی بوڑھے،کمزور انسان کو اس کی کمزوری اور بڑی عمر کے باعث ذلت کا سلوک کرے اور جب وہ خود اس عمرکو پہنچے تو کیا وہ کسی سے اچھے رویے کی توقع کر سکتا ہے؟ انسان کے پاس غرور و تکبر کا دورانیہ بھی بہت مختصر ہوتا ہے لیکن اس کے پچھتاوے اور حساب کتاب کے دن بہت طویل ہوتے ہیں، اس مادی دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔
ہم رات کو دن اور دن کو رات کے بدلنے کے عمل سے بھی نہیں سیکھتے، کیونکہ ہم قرآن پاک کا مطالعہ نہیں کرتے کہ اس میں پروردگار نے سب کچھ کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔ دنیا اپنا ٹائم پیریڈ مکمل کر رہی ہے، ہم سب کو اپنے اپنے حصے کے اعمالوں پر غورکرنا ہے، فکر کرنی ہے اور بچ بچا کر سنبھل کر چلنا ہے، برے لوگوں کے پیچھے لائن بنا کر چلنے سے ہم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اگر اچھے لوگوں کی لائن میں کوئی بھی نہیں تب بھی ہمت کر کے آگے بڑھنا ہوگا کہ یہ برے اور ظالم، طاقتور لوگوں کی طویل لائن سے کہیں بہتر ہے۔
ایک حراستی مرکز میں اسرائیلی فوجیوں نے ان اہل کاروں کو پکڑ لیا جو غزہ سے پکڑے گئے فلسطینی قیدیوں سے بدسلوکی کے مرتکب قرار پائے تھے ان سے تحقیقات کا عمل جاری تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے اس بارے میں بیان دیا ہی تھا کہ ان کی حمایت کے لیے اسرائیلی عوام کے بے قابو گھوڑے اس حراستی مرکز میں گھس آئے۔
ان کے خیال میں حراستی مرکز سدیہ تمان میں اگر ان ملزمان کے ساتھ کوئی کمی بیشی رہ گئی تو یہ معاملہ کہیں اِدھر ہی دبا نہ دیا جائے بظاہر اس ہلکے پھلکے واقعے کو اسرائیلی نیٹ ورک پر براہ راست دکھایا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے جذبات سے لبریز ان افراد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ بات اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ اسرائیل کے حراستی مراکز میں مظلوم فلسطینی جس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں، ان جنگی جرائم کو چھپانے کی کوشش تو شد و مد سے جاری ہے لیکن آخر کب تک یہ مظالم جاری رہیں گے،کیا ان تکالیف کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا یا اس کا کوئی علاج بھی ہے؟
اسرائیلی فوج کے سربراہ اس مبینہ بدسلوکی کے بارے میں کتنی بھی مذمت کیوں نہ کر لیں 9 فوجیوں کو حراست میں لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ چاہے ان کے حراستی مراکزکتنے ہی بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتے ہوں۔
سدیہ تمان کا حراستی مرکز جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد قائم کیا گیا تھا جہاں غزہ سے پکڑے گئے فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے۔ ان جنگی قیدیوں پر مظالم اور غیر انسانی سلوک کی خبریں اس وقت منظر عام پر کھل کر آئیں جب ایک وکیل نے ایک فلسطینی جنگی قیدی صحافی سے مختصر ملاقات کی جس میں اس صحافی نے جوکچھ سمجھا اور دیکھا وہ اپنے صحافیانہ کردار کے تحت عیاں کر دیا اور یوں بہت سے وہ راز بھی افشا ہو گئے جن پر پردہ ڈالا گیا تھا۔ بظاہرکبھی 9 توکبھی 8 فوجیوں کی صدائیں ابھر رہی ہیں جو ان جرائم میں ملوث تھے ابھی اورکیا کیا باقی ہے؟ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور وہ صحافی محمد عرب تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگیا۔
یوخائی افنی نامی اسرائیلی جیل آفیسرکو ایک فلسطینی 23 سالہ نوجوان ابراہیم نے موت کے گھاٹ اتارکر اس کی لاش کو آگ لگا دی۔ یوخائی افنی ایک بدنام اسرائیلی جیل آفیسر تھا جو جیل میں قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ ابراہیم بھی اسی تشدد کا شکار بنا۔ اپریل کے مہینے میں اسے اس قید سے نجات ملی تھی۔ اس امر میں بھی شبہات باقی ہیں لیکن خیال یہی ہے کہ ابراہیم نے افنی کو اسی کے گھر میں جان سے مارا۔ ایسا امر پہلی بار ہی ہوا ہے۔ کیا ایک نوجوان کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدام صہیونی طاقت کے لیے سوالیہ نشان ہے یا یہ محض ردعمل کے طور پر اختیار کیا گیا ہے؟کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد 21 ہزار کے قریب ہے۔ کیا کہانی پھر سے دہرائی نہیں جا رہی؟
1995 میں بوسنیا میں ہونے والے جنگی مظالم کی داستانیں آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں، ایک بڑی تعداد میں مظلوم مسلمان قیدیوں کو جس بے دردی سے مظالم کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، یہ ایک طویل بحث ہے، ان تمام جنگی جرائم کوکسی ایک کے سر ڈال کر آٹھ ہزار سے زائد مظلوم مسلمانوں کے خون کا قضیہ تمام کردیا گیا تھا، لیکن کیا آج کی دنیا اس بڑے سانحے کو بھول پائی ہے،کیا اس دور سے آج کے 2024 میں کوئی فرق دیکھنے میں آیا ہے؟ سوائے کووڈ کی وبا کے کہ جس نے دنیا میں مہنگائی کی شرح کو آسمان پر پہنچا دیا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 25-26 سالوں بعد بھی مسلمانوں کے لیے 1995 کا سال ویسے ہی ایستادہ ہے۔
جولائی کی گیارہ تاریخ 1995 کا وہ بدترین دن جب بوسنیا ہرزیگوینا پر سرب فوجوں نے قبضہ کیا تھا اور دس دنوں تک اجتماعی قتل کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک ان کی بربریت کی داستانوں میں رقم ہو چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت بھی اقوام متحدہ ایک بے بس چڑیا کی مانند پنجرے میں قید مہیم سی آواز میں '' بس کرو'' کی صدائیں لگا رہا تھا اور اس کی صدائیں بڑی طاقتوں کے ایوانوں میں کھوگئی تھیں اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، پر آج اقوام متحدہ کی چڑیا بھی اُڑ چکی ہے۔ طاقتور ایوان اب نڈر ہیں انھیں کسی کا کوئی خوف نہیں، ان کے محلات، مشنریز رواں دواں ہیں سب کچھ جل رہا ہے لیکن شاید طاقت کے نشے میں چُور وہ بھول چکے ہیں کہ ایک سپرپاور ہمیشہ سے ہی انھیں دیکھ رہی ہے، ان کی رسی ڈھیلی ہے اور جب اس کے کھینچنے کا وقت آئے گا تو ان کوکہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ رب العزت نے قرآن پاک میں کل دنیا کے انسانوں کے لیے تاریخ کے ان واقعات کا بھی ذکرکیا ہے جو پچھلی قوموں پر ان کے کرتوتوں کے باعث عذاب نازل کیے گئے تھے۔ ہر غرق ہونے والی قوم کی ایک خوبی بدرجہ اتم نظر آتی ہے اور وہ ہے غرور۔ اس کی ہر شکل بری ہے کیونکہ یہ رب العزت کو پسند نہیں، غرور و تکبر انسان کو پستیوں میں گرا دیتا ہے بالکل اس طرح جیسے کوئی جوان شاہ سوارکسی بوڑھے،کمزور انسان کو اس کی کمزوری اور بڑی عمر کے باعث ذلت کا سلوک کرے اور جب وہ خود اس عمرکو پہنچے تو کیا وہ کسی سے اچھے رویے کی توقع کر سکتا ہے؟ انسان کے پاس غرور و تکبر کا دورانیہ بھی بہت مختصر ہوتا ہے لیکن اس کے پچھتاوے اور حساب کتاب کے دن بہت طویل ہوتے ہیں، اس مادی دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔
ہم رات کو دن اور دن کو رات کے بدلنے کے عمل سے بھی نہیں سیکھتے، کیونکہ ہم قرآن پاک کا مطالعہ نہیں کرتے کہ اس میں پروردگار نے سب کچھ کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔ دنیا اپنا ٹائم پیریڈ مکمل کر رہی ہے، ہم سب کو اپنے اپنے حصے کے اعمالوں پر غورکرنا ہے، فکر کرنی ہے اور بچ بچا کر سنبھل کر چلنا ہے، برے لوگوں کے پیچھے لائن بنا کر چلنے سے ہم کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اگر اچھے لوگوں کی لائن میں کوئی بھی نہیں تب بھی ہمت کر کے آگے بڑھنا ہوگا کہ یہ برے اور ظالم، طاقتور لوگوں کی طویل لائن سے کہیں بہتر ہے۔