تعلیمی زبوں حالی اور حیوانیت
مرنے والے مرجاتے ہیں اور جینے والے لاکھوں کا بل دیکھ کر ادھ موئے یا پھر خودکشی کرلیتے ہیں
سندھ میں تقریباً 60,50 اسکول تقریباً چار دہائیوں سے اصطبل یا ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں۔ چرسی اور منشیات فروش اور عاد ی مجرم ہر جگہ پھیل گئے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ اگر ان ہی اسکولوں سے ملک و قوم کے بچے تعلیم حاصل کر کے نکلتے تو آج ہزاروں طلبا و طالبات، انجینئرز، ڈاکٹرز اور آئی ٹی کے ماسٹرز سامنے آتے اور اپنے وطن کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے، ملک خوشحالی وکامیابی کی دوڑ میں ترقی پذیر ملک کی بجائے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوجاتا،کیا آپ کو معلوم ہے؟ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کی کھیپ پورے ملک خصوصاً کراچی اور دوسرے کئی صوبوں میں کیسے پھیل گئی۔
یہاں صبح وشام وارداتیں اور قتل وغارت گری کا بازارگرم کیا جاتا ہے تو سنیے اور سر دھنیے، یہ وہ ہی بچے ہیں جن کے لیے اسکولوں کی تعمیر ہوئی تھی، جنہیں پڑھ لکھ کر اپنے وطن کے لیے کام کرنا تھا، چراغ سے چراغ کی رسم کو زندہ رکھنا تھا، آج وہ ملزم و مجرم بن کر سامنے آگئے ہیں، اسلحہ انہیں کون فراہم کرتا ہے اور انہیں باقاعدہ طور پرگرفتارکیوں نہیں کیا جاتا اور اگر وقتی طور پر پکڑ بھی لیے جاتے ہیں تو بہت جلد رہا کردیا جاتا ہے ۔ بات تو سمجھ میں آرہی ہے نہ، آخر عوام بھی باشعور ہیں، خوب جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ان کے سروں پر کس کا ہاتھ ہے، اب ایک سوال اور اٹھتا ہے،گشتی پولیس آج کل حرکت میں کیوں نہیں ہے ؟ انہیں کون سے کاموں کے لیے مقررکردیا گیا ہے اور میدان صاف اور ہر خطرے سے آزاد چھوڑ دیاگیا ہے۔
کیا جانتے ہیں آپ ؟ مقتولین کا گھرانہ برباد ہوجاتا ہے، ان گھروں میں نالے اور آہیں ہی رہ گئی ہیں، باقی سکون اور خوشی اہل قبور میں شامل ہوگئی ہے اپنی موت آپ مرگئی ہے بلکہ مار دی گئی ہے، اپنوں کی دردناک یادیں اور معاشی مسائل، بھوک، افلاس اور غموں نے ڈیرا ڈال لیا ہے اور اس پر ظلم یہ کہ رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے پوری کردی، حکومت کے پاس سب کچھ ہے ، بے شمار قیمتی گاڑیاں اور محل موجود ہیں، بینک اکاؤنٹ میں دولت اور ہیرے، چاندی کے انبار تجوریوں میں محفوظ ہیں، انہیں اپنے عوام کی اس ہی وجہ سے فکر نہیں کہ وہ اور ان کے خاندان خوش ہیں دولت کی ریل پیل ہے لیکن اس قدر بے حسی اور سخت دلی کا مظاہرہ کرنا زیب نہیں دیتا ہے،کیا موت ان کے تعاقب میں نہیں ہے،اللہ کے سامنے ایک دن سب کو حاضر ہونا ہے ۔ جنت اور جہنم میں داخلے کا ٹکٹ تو پہلے دن دفن ہونے کے ساتھ مل جاتا ہے، عذاب اور ثواب کے پھل سامنے آجاتے ہیں ۔
مہنگائی کرتے وقت حکومت نے کبھی یہ سوچا کہ غرباء و فقراء ، جن کی تنخواہیں اور روزگار کے ذریعے محدود ہیں، پیٹ بھرکر روٹی اور جسم پر کپڑا ہی مل جائے تو بہت ہے۔ اتنے بڑے بل بھیجنا گویا انہیں خودکشی کی دعوت دینا ہے، جن پھیری اور ٹھیلے والوں کا بل ڈیڑھ، دو ہزار سے زیادہ نہیں آتا ہے بلکہ بعض گھرانوں میں ایک بلب اور پنکھا چلانے پر محض سات آٹھ سو روپے کی ادائیگی، لیکن پھر اچانک ہلاکو خان زندہ ہوجاتا ہے اور اپنے لاؤ لشکرکے ساتھ پاکستان کے عوام کو روندتا ہوا دوڑتا چلا جاتا ہے، مرنے والے مرجاتے ہیں اور جینے والے لاکھوں کا بل دیکھ کر ادھ موئے یا پھر خودکشی کرلیتے ہیں،
بجلی کے بل کی وجہ سے بھائی نے بھائی کو قتل کردیا،غریب عورت نے تیزاب پی لیا،کسی نے موٹر سائیکل بیچ کر تو کسی نے اپنے گھر کی قیمتی اشیاء کو فروخت کرکے بل ادا کیا، زار و قطار روتے پیٹتے لوگ گھروں سے دربدر ہوگئے ہیں اور موسموں کی شدت، ہیٹ اسٹروک کے مسائل علیحدہ اے سی میں زندگی بسرکرنے والوں کے لیے افلاس کی خودکشی اور ٹرپتی ہوئی زندگی ایک بھر لو طمانچہ ہے، آواز آتی ہے لیکن چوٹ نہیں لگتی، چونکہ ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ کسی زمانے میں شہریوں کو یہ شکایت تھی کہ شاہراہوں اورگلی کوچوں میں کتوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، فقرا اور بھکاریوں نے بھی جینا حرام کردیا ہے، یہ مسائل ثانوی درجہ اختیار کرگئے ہیں اور اب حیوانیت کا نیا تماشہ لگ گیا ہے، جانوروں کی جگہ انسانوں نے لے لی ہے اور اس مہنگائی نے سب کا حال بھکاریوں کی طرح کردیا ہے، یہ عزت دار انا پرست کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ ایسے جینے کو موت پر ترجیح دیتے ہیں، اس وقت مجھے ایک اہم بات یاد آگئی ہے یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو خودکشی کر کے اپنی عاقبت کو برباد اور جہنم کا سودا کرلیتے ہیں۔
دیکھیے میرے ہم وطنو! دنیا کی زندگی بہت چھوٹی ہے، جیسے تیسے گزر ہی جاتی ہے، چونکہ اسے ختم ہونا ہے انسان فانی دنیا سے ابدی جہاں میں داخل ہوجاتا ہے یہ زندگی دائمی ہے،کبھی نہ ختم ہونے والی ہے تو جیسے بھی حالات ہوں صبر اور برداشت سے کام کریں، قاتل بنیں اور نہ مقتول، مطلب یہ ہے کہ اپنے معصوم بچوں اور بیوی کے قتل میں ملوث ہوکرآخر میں اپنی جان لے لیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کرائے کا مکان چھوڑیں، گھرگرہستی کو بھی یونہی رہنے دیں، پریس کلب کے سامنے یا کسی اور جگہ کانفرنس کریں اپنا دکھڑا بیان کریں تاکہ عزیز واقارب اور رشتے داروں کو بھی شرم آئے کہ ان کے ہوتے ہوئے وہ بے گھر بے خانماں ہوگئے ہیں۔
اگر کسی میں بھی غیرت اور خوف خدا ہوا تو وہ ضرور سہارا دیں گے، ہمارے ملک اور ہمارے شہر میں بے شمار صاحب ثروت موجود ہیں جو آواز سنتے ہی دوڑے چلے آتے ہیں اور دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے مدد کرتے ہیں، اگر ایسا نہ بھی ہو توکسی ادارے میں اپنے آپ کو جمع کروا دیں، خودکشی سے ہزار درجہ یہ طریقہ بہتر ہے۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے کہ وہ بجلی کے بم اپنے عوام پرکیوں گرا رہے ہیں؟ ان بلوں کی ادائیگی کی ذمہ داری وہ خود اٹھالیں۔ کے ای کو لگام دیں،آئی ایم ایف سے خود نمٹیں، آئی ایم ایف سے میٹنگ کر کے مسائل کو حل کریں۔ ان کے پاس تو پیسے کی کمی نہیں ہے، یہ محنت کش محنت مزدوری کر کے ملک کو استحکام بخشنے میں مددگار ہیں، بے چارے یہ مزدور اورکان کن کوئلے کی کانوں میں دن رات کام کرتے ہیں اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر سخت مشقت اٹھاتے ہیں۔
اس ہی طرح راج مزدور سخت گرمی میں رزق حلال کے لیے مشقت کرتے ہیں، سڑکیں اور عمارتوں کی تعمیر، غرض جنگل کو منگل بنانے میں ان کی ہی ریاضت کو دخل ہے کہ انہیں تنخواہوں کے علاوہ بونس اور عید، بقر عید کے کپڑے اور نقد رقم مہیا کرنا ناگزیر ہے، دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ یہ بیچارے کہاں جائیں ؟ اللہ نے آج آپ کو طاقتور بنادیا ہے، اختیار، دولت، پیسہ اور اقتدارکی مسند، لیکن کل یہ سب کچھ نہیں ہوگا، سب کا یہ ہی انجام ہوتا ہے۔ مثالوں سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں،کوئی پھانسی پر لٹکایا گیا ہے توکوئی جلا وطن ہوا یا پھر قتل کیا گیا، خاندان کے خاندان برباد ہوگئے، اب بھی وقت ہے اپنے آپ کو بدل لیں لوٹ جائیں اپنے رب کی طرف۔
یہاں صبح وشام وارداتیں اور قتل وغارت گری کا بازارگرم کیا جاتا ہے تو سنیے اور سر دھنیے، یہ وہ ہی بچے ہیں جن کے لیے اسکولوں کی تعمیر ہوئی تھی، جنہیں پڑھ لکھ کر اپنے وطن کے لیے کام کرنا تھا، چراغ سے چراغ کی رسم کو زندہ رکھنا تھا، آج وہ ملزم و مجرم بن کر سامنے آگئے ہیں، اسلحہ انہیں کون فراہم کرتا ہے اور انہیں باقاعدہ طور پرگرفتارکیوں نہیں کیا جاتا اور اگر وقتی طور پر پکڑ بھی لیے جاتے ہیں تو بہت جلد رہا کردیا جاتا ہے ۔ بات تو سمجھ میں آرہی ہے نہ، آخر عوام بھی باشعور ہیں، خوب جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ ان کے سروں پر کس کا ہاتھ ہے، اب ایک سوال اور اٹھتا ہے،گشتی پولیس آج کل حرکت میں کیوں نہیں ہے ؟ انہیں کون سے کاموں کے لیے مقررکردیا گیا ہے اور میدان صاف اور ہر خطرے سے آزاد چھوڑ دیاگیا ہے۔
کیا جانتے ہیں آپ ؟ مقتولین کا گھرانہ برباد ہوجاتا ہے، ان گھروں میں نالے اور آہیں ہی رہ گئی ہیں، باقی سکون اور خوشی اہل قبور میں شامل ہوگئی ہے اپنی موت آپ مرگئی ہے بلکہ مار دی گئی ہے، اپنوں کی دردناک یادیں اور معاشی مسائل، بھوک، افلاس اور غموں نے ڈیرا ڈال لیا ہے اور اس پر ظلم یہ کہ رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے پوری کردی، حکومت کے پاس سب کچھ ہے ، بے شمار قیمتی گاڑیاں اور محل موجود ہیں، بینک اکاؤنٹ میں دولت اور ہیرے، چاندی کے انبار تجوریوں میں محفوظ ہیں، انہیں اپنے عوام کی اس ہی وجہ سے فکر نہیں کہ وہ اور ان کے خاندان خوش ہیں دولت کی ریل پیل ہے لیکن اس قدر بے حسی اور سخت دلی کا مظاہرہ کرنا زیب نہیں دیتا ہے،کیا موت ان کے تعاقب میں نہیں ہے،اللہ کے سامنے ایک دن سب کو حاضر ہونا ہے ۔ جنت اور جہنم میں داخلے کا ٹکٹ تو پہلے دن دفن ہونے کے ساتھ مل جاتا ہے، عذاب اور ثواب کے پھل سامنے آجاتے ہیں ۔
مہنگائی کرتے وقت حکومت نے کبھی یہ سوچا کہ غرباء و فقراء ، جن کی تنخواہیں اور روزگار کے ذریعے محدود ہیں، پیٹ بھرکر روٹی اور جسم پر کپڑا ہی مل جائے تو بہت ہے۔ اتنے بڑے بل بھیجنا گویا انہیں خودکشی کی دعوت دینا ہے، جن پھیری اور ٹھیلے والوں کا بل ڈیڑھ، دو ہزار سے زیادہ نہیں آتا ہے بلکہ بعض گھرانوں میں ایک بلب اور پنکھا چلانے پر محض سات آٹھ سو روپے کی ادائیگی، لیکن پھر اچانک ہلاکو خان زندہ ہوجاتا ہے اور اپنے لاؤ لشکرکے ساتھ پاکستان کے عوام کو روندتا ہوا دوڑتا چلا جاتا ہے، مرنے والے مرجاتے ہیں اور جینے والے لاکھوں کا بل دیکھ کر ادھ موئے یا پھر خودکشی کرلیتے ہیں،
بجلی کے بل کی وجہ سے بھائی نے بھائی کو قتل کردیا،غریب عورت نے تیزاب پی لیا،کسی نے موٹر سائیکل بیچ کر تو کسی نے اپنے گھر کی قیمتی اشیاء کو فروخت کرکے بل ادا کیا، زار و قطار روتے پیٹتے لوگ گھروں سے دربدر ہوگئے ہیں اور موسموں کی شدت، ہیٹ اسٹروک کے مسائل علیحدہ اے سی میں زندگی بسرکرنے والوں کے لیے افلاس کی خودکشی اور ٹرپتی ہوئی زندگی ایک بھر لو طمانچہ ہے، آواز آتی ہے لیکن چوٹ نہیں لگتی، چونکہ ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ کسی زمانے میں شہریوں کو یہ شکایت تھی کہ شاہراہوں اورگلی کوچوں میں کتوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، فقرا اور بھکاریوں نے بھی جینا حرام کردیا ہے، یہ مسائل ثانوی درجہ اختیار کرگئے ہیں اور اب حیوانیت کا نیا تماشہ لگ گیا ہے، جانوروں کی جگہ انسانوں نے لے لی ہے اور اس مہنگائی نے سب کا حال بھکاریوں کی طرح کردیا ہے، یہ عزت دار انا پرست کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ ایسے جینے کو موت پر ترجیح دیتے ہیں، اس وقت مجھے ایک اہم بات یاد آگئی ہے یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو خودکشی کر کے اپنی عاقبت کو برباد اور جہنم کا سودا کرلیتے ہیں۔
دیکھیے میرے ہم وطنو! دنیا کی زندگی بہت چھوٹی ہے، جیسے تیسے گزر ہی جاتی ہے، چونکہ اسے ختم ہونا ہے انسان فانی دنیا سے ابدی جہاں میں داخل ہوجاتا ہے یہ زندگی دائمی ہے،کبھی نہ ختم ہونے والی ہے تو جیسے بھی حالات ہوں صبر اور برداشت سے کام کریں، قاتل بنیں اور نہ مقتول، مطلب یہ ہے کہ اپنے معصوم بچوں اور بیوی کے قتل میں ملوث ہوکرآخر میں اپنی جان لے لیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کرائے کا مکان چھوڑیں، گھرگرہستی کو بھی یونہی رہنے دیں، پریس کلب کے سامنے یا کسی اور جگہ کانفرنس کریں اپنا دکھڑا بیان کریں تاکہ عزیز واقارب اور رشتے داروں کو بھی شرم آئے کہ ان کے ہوتے ہوئے وہ بے گھر بے خانماں ہوگئے ہیں۔
اگر کسی میں بھی غیرت اور خوف خدا ہوا تو وہ ضرور سہارا دیں گے، ہمارے ملک اور ہمارے شہر میں بے شمار صاحب ثروت موجود ہیں جو آواز سنتے ہی دوڑے چلے آتے ہیں اور دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے مدد کرتے ہیں، اگر ایسا نہ بھی ہو توکسی ادارے میں اپنے آپ کو جمع کروا دیں، خودکشی سے ہزار درجہ یہ طریقہ بہتر ہے۔ حکومت کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے کہ وہ بجلی کے بم اپنے عوام پرکیوں گرا رہے ہیں؟ ان بلوں کی ادائیگی کی ذمہ داری وہ خود اٹھالیں۔ کے ای کو لگام دیں،آئی ایم ایف سے خود نمٹیں، آئی ایم ایف سے میٹنگ کر کے مسائل کو حل کریں۔ ان کے پاس تو پیسے کی کمی نہیں ہے، یہ محنت کش محنت مزدوری کر کے ملک کو استحکام بخشنے میں مددگار ہیں، بے چارے یہ مزدور اورکان کن کوئلے کی کانوں میں دن رات کام کرتے ہیں اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر سخت مشقت اٹھاتے ہیں۔
اس ہی طرح راج مزدور سخت گرمی میں رزق حلال کے لیے مشقت کرتے ہیں، سڑکیں اور عمارتوں کی تعمیر، غرض جنگل کو منگل بنانے میں ان کی ہی ریاضت کو دخل ہے کہ انہیں تنخواہوں کے علاوہ بونس اور عید، بقر عید کے کپڑے اور نقد رقم مہیا کرنا ناگزیر ہے، دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ یہ بیچارے کہاں جائیں ؟ اللہ نے آج آپ کو طاقتور بنادیا ہے، اختیار، دولت، پیسہ اور اقتدارکی مسند، لیکن کل یہ سب کچھ نہیں ہوگا، سب کا یہ ہی انجام ہوتا ہے۔ مثالوں سے تاریخ کے صفحات سیاہ ہیں،کوئی پھانسی پر لٹکایا گیا ہے توکوئی جلا وطن ہوا یا پھر قتل کیا گیا، خاندان کے خاندان برباد ہوگئے، اب بھی وقت ہے اپنے آپ کو بدل لیں لوٹ جائیں اپنے رب کی طرف۔