بنگلہ دیش جمہوریت یا آمریت
وزیراعظم شیخ حسینہ درحقیقت جمہوری عمل سے منتخب ہونے والی ایک آمر ہیں
پاکستانی صحافت میں بنگلہ دیش کی سیاست پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی جاتی ہے ،کیونکہ ہمارے ملک کا بنگلہ دیش سے برائے راست کوئی تعلق ہے نہ ہماری ملکی سرحدیں ایک دوسرے سے ملحقہ ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے آپسی رشتے کی تاریخ بیحد تلخ ہے ۔1947 میں جب برصغیر دو ملکوں میں بٹ گیا تھا تو بنگلہ دیش ہمارا مشرقی حصہ قرار پایا جس کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
اس بات کا موقعے کی تاک میں بیٹھے ہمارے دشمن ملک نے خوب فائدہ اٹھایا نتیجتاً آزادی کے چوبیسویں سال 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوگیا اور بنگلہ دیش ایک علیحدہ ملک کے طور پر وجود میں آیا۔ تب سے اب تک اس اذیت ناک علیحدگی کے سوا پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں بنگلہ دیش کے حوالے سے کوئی دوسری بات نہیں ہوتی ہے۔
پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات کو لے کر سیاسی تبصرے ماضی میں کم سننے کو ملے ہیں، جبکہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں ہونے والا بنگالی طلبا وطالبات کا متنازع کوٹہ سسٹم کے خلاف ملک گیر احتجاج ساتھ اس پر سال 2009 سے مسلسل سرزمینِ بنگال پر حکومت کرنے والی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی بے حسی اور آمرانہ رویے نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مرکوزکی ہوئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ حالیہ ہنگاموں سے قبل بنگلہ دیش میں راوی سب چین ہی چین لکھ رہا تھا بلکہ پچھلے کئی سالوں سے وہاں کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ بنگالی نوجوانوں کے پاس بھاری بھرکم ڈگریاں تو موجود ہیں لیکن ملک میں نوکریوں کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ اب تک یہ باتیں بنگلہ دیش کی سرحدی حدود سے باہر اس لیے زبان زدِ عام نہیں ہوئی تھیں کہ بنگالی میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
میڈیا کے ساتھ ساتھ ریاست کے باقی ماندہ ستون جیسے کہ مجلسِ قانون ساز، حکام اعلیٰ اور عدلیہ بھی بنگلہ دیشی وزیراعظم صاحبہ کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ ملک کا اس قدر برا حال ہے کہ بیروزگاری کے اژدھے کے ہمراہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکل کر مظلوم عوام کو سالم نگلنے کے درپے ہے۔ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائرکافی حد تک نیچے آگئے ہیں، جن کو مستحکم کرنے کیلئے سال 2022 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مدد طلب کی گئی تھی۔
شیخ حسینہ واجد پچھلے پندرہ سالوں سے وزیراعظم کے تحت پر براجمان ہیں اور نوے کی دہائی میں بھی وہ ایک بار اپنی حکومت بنا چکی ہیں، اگر وہ اپنی قوم کا صحیح معنوں میں درد رکھتیں تو اس طویل مدتی راج کے دوران بنگلہ دیش کو فرش سے عرش پر پہنچا سکتی تھیں مگر افسوس انھوں نے ایک نادر موقع گنوا کر صرف خوشامدیوں کا ٹولہ تشکیل دینے میں اپنا اور بنگلہ دیشی عوام کا قیمتی وقت ضائع کیا ہے۔
وزیراعظم شیخ حسینہ درحقیقت جمہوری عمل سے منتخب ہونے والی ایک آمر ہیں جن کے پورے دور حکومت میں جمہوریت کا حسن کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ بنگلہ دیش جو سترہ کروڑ افراد کی آبادی والا ملک ہے، وہاں اس کے قیام سے دور حاضر تک صرف دو سیاسی جماعتوں کو حکمرانی کے مواقعے نصیب ہوئے ہیں۔ ایک بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمٰن کی بنائی '' عوامی لیگ'' جو اب ان کی صاحبزادی شیخ حسینہ چلا رہی ہیں۔ دوئم '' بنگلہ دیش نیشنل پارٹی'' جس کی باگ ڈور ماضی میں خالدہ ضیاء اور حال میں طارق رحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔
لیکن بنگلہ دیش کے قیام سے ہی عوامی لیگ کی جانب سے بی این پی پر لگائے بیشمار الزامات اور دوران اقتدار اٹھائے انگنت غیر آئینی اقدامات نے بنگلہ دیش کو''ون پارٹی سسٹم'' بنا دیا ہے۔ جہاں دوسری سیاسی جماعتوں کی حکومت میں آنے کی گنجائش دانستہ ختم کی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں جمہوری معاملات شدید بگڑ چکے ہیں، ملک میں انتخابات بروقت منعقد ہوتے ہیں مگر دو مرتبہ ایسا ہوا کہ ان میں ایک ہی سیاسی جماعت نے حصہ لیا، اسی نے جیت کر اپنی حکومت بنائی اور حالیہ بنگلہ دیشی پارلیمینٹ تو بغیر اپوزیشن کے چل رہی ہے۔ سال 2009 سے 2018 کے درمیان حکومت نے تنقیدی آواز کو مٹانے کیلئے اپوزیشن کے دو ہزار افراد کا ماورائے عدالت قتل کیا اور بیس ہزار لوگوں کو مخالفت کرنے پر سال 2018 کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل گرفتارکر لیا تھا۔
وہاں رہنے والی ہندو اقلیت بھی شیخ حسینہ کی حکومت کی ستم ظریفی سے محفوظ ہے نہ ان کی املاک و عبادت گاہوں کو حکومت کی جانب سے خاص تحفظ حاصل ہے۔ بیشتر ہندو خاندن تنگ آکر بنگلہ دیش سے نقل مکانی کر چکے ہیں، عوام شیخ حسینہ واجد سے بیزارآچکی ہے یہی وجہ ہے کہ سال 2024 کے انتخابات میں محض 28 فیصد بنگالیوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔
پچھلے ماہ جون 2024 میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی طلبا وطالبات سراپا احتجاج سڑکوں پر نکل آئے، ابتداء میں اُن کا احتجاج پُرامن تھا مگر حکومت کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال نے حالات میں سنگینی پیدا کردی ہے، پورے ملک میں کرفیو نافذ ہے اور تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت تک بند کردیے گئے ہیں۔ حکومت نے بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی ہے،
حکومت اور مظاہرین کے درمیان جاری کشیدگی میں اب تک دو سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں، جبکہ مرنے والوں کی صحیح تعداد ابھی تک بھی واضح نہیں ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے ان ظالمانہ سلوک پر مظاہرین انھیں ایک آمر سے تشبیہ دے رہے ہیں، آخر ایسا کیا ہوا کہ بنگالی طلبا و طالبات اپنی درسگاہوں سے نکل کر سڑکوں پر اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر کھل کر حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؟
مظاہرے کی اصل وجہ بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں کے لیے مختص کیا گیا کوٹہ سسٹم ہے جس کا 30فیصد حصہ بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے لڑنے والے جنگجوں، ان کے بچوں اور پوتے، پوتیوں کو سرکاری نوکریاں دینے کیلئے مخصوص تھا۔ ملک میں نوکریوں کی ویسے ہی کمی ہے اور جو تھوڑی بہت ہیں وہ آزادی کے لیے لڑنے والوں کو دینا تو جائز تھا مگر اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ان کے خاندان کے افراد کو عنایت فرمانا باقی عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر 21 جولائی کو سماعت کی اور اپنا فیصلہ سنایا کہ آزادی کے جنگجوں کے خصوصی کوٹہ کو 30فیصد سے کم کر کے 5 فیصد پر لایا جائے۔ سپریم کورٹ نے اپنا فرض پورا کردیا مگر اب مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت احتجاج کے دوران گرفتارکیے گئے لوگوں کو رہا کرے، عوام سے معافی مانگے اور ان وزیروں کو معطل کرے جنھوں نے پرامن احتجاج کو خونی مظاہرے میں تبدیل کیا ہے۔ بنگلہ دیش اس وقت جیتا جاگتا سبق بنا ہوا ہے پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے بشرطیکہ وہ سب ہوش کے ناخن لینا چاہیں۔