جنسی جرائم
پاکستانی معاشرے کی جو صورت حال ہے وہ انتہا درجے کے نشیب وفراز پر مبنی ہے
اگر اعداد وشمار کی بات کی جائے تب بھی جنسی جرائم، جنسی تشدد خاص طورپر بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہی ہورہا ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں ''رسوائی'' کے ڈرسے اکثر ایسے جرائم چھپا بھی لیے جاتے ہیں بلکہ جرائم کی روک تھام اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے مثال کارکردگی کی وجہ سے بھی اکثر لوگ چپ سادھ لینا بہتر سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کے پاس جانا خود کو مزید رسوا کرنا اورمزید آزار میں مبتلا کرنا ہے۔ یوں اگر اصل اعداد وشمار سامنے لائے جائیں تو انسان کے ہوش اڑ جاتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جنسی جرائم کے سوا کچھ اورہوتا بھی ہے کہ نہیں۔
ماہرین ، مدبرین اور دانا دانشورکچھ بھی فلسفے بگھاریں، نفسیاتی ، جنسیاتی اور نظریاتی دلائل کے طورمار باندھیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ سب معاشرتی ناہمواری کاشاخسانہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف تو دولت، ترقی اورجدیدیت کے ڈنکے اتنے زورسے بج رہے ہیں کہ کان پڑی آواز تو کیا، بسوں اور ٹرکوں کے ہارنز کی آواز تک سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ادھر ملک بھر میں عبادت گاہوں اور ان میں نصب لاؤڈ اسپیکروں کی اتنی بہتات ہوچکی ہے کہ کسی عبادت گاہ کی اینٹ رکھنے سے پہلے لاؤڈ اسپیکر چل پڑتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں تو شارٹ کٹسں کی اتنی بہتات ہوچکی ہے کہ سیدھے راستے پرچلنا حماقت کی ذیل میں آتا ہے اورجو لوگ سیدھے راستوں پر چلتے ہیں، ان کو نالائق ،نکمے، احمق کہا اورسمجھاجاتا ہے ۔
یہ بات توہم کئی کئی بار ان کالموں میں عرض کرتے رہے ہیں کہ ناہموار ، اوبڑ ،کھابڑ، پتھروں گڑھوں بھرے راستے پر جب گاڑی چلتی ہے تو نہ صرف اس کی چال بے ڈھنگی ہوجاتی ہے بلکہ گاڑیوں کے انجرپنجر بھی ڈھیلے ہوجاتے ہیں ۔ پرزے ٹوٹنے لگتے ہیں،ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں، حادثے رونما ہونے لگتے ہیں، سواریوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوجاتی ہے اوررفتار تو ظاہرہے کہ نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے، انجن جواب دے جاتے ہیں ،ٹائر بے کار ہو جاتے ہیں اوراس وقت ہم جس معاشرے کی سڑک پرچل رہے ہیں اس میں وہ سب کچھ ہورہا ہے جو ناہموار راستوںپر گاڑیوں اورمسافرکے ساتھ ہوتا ہے اوران رہزنوں، ڈاکوؤں کا تو ہم نے ذکر ہی نہیں کیا ہے جو ایسے راستوں پر جگہ جگہ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں یا رہبروں کا بھیس بنا کر مسافروں اور گاڑیوں کے مالکان کو لوٹتے ہیں۔
چوں کہ ہمارا رائج الوقت معاشرہ مکمل طورپر ایسے راستے جیسا بن چکا ہے یا بنایا جاچکا ہے اورپھر یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ کچھ شاطر لوگ اس راستے پر چلنے کے بجائے شارٹ کٹس راستوں سے گزر کر منزلوں تک پہنچ گئے ہیں،پہنچ رہے ہیں،پہنچائے جارہے ہیں، ایسے میں عام مسافرکیاکرے گا ، مجبوراً وہ بھی یا تو شارٹ کٹ اختیار کرے گا یادوسروں کو لوٹنا اوران سے ''سواریاں ''چھیننا شروع کردے ، اگر وہ پیدل ہے تو گدھے سوار اورسائیکل سوارکی سواری چھیننے گا ، سائیکل سوار ہے تو موٹر سائیکل چھینے گا، موٹر سائیکل سوار ہے تو موٹروالے سے موٹر چھینے گا یاکوشش کرے گا چاہے اس میں ''اس کی'' یا اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ چنانچہ اس وقت ہمارے پاکستانی معاشرے کی جو صورت حال ہے وہ انتہا درجے کے نشیب وفراز پر مبنی ہے۔ ایک طرف شارٹ کٹ اختیار کرنے والے پندرہ فی صد لوگ ہیں جو انسان سے بہت اونچے اورخدائی کے دعوے سے تھوڑے ''کم'' ہیں جب کہ دوسری طرف وہ پچاسی فی صد کالانعام ہیں جو انسانوں سے بہت نیچے اور جانوروں سے تھوڑے اونچے ہیں ۔
ظاہرہے کہ ایسے معاشروں میں شارٹ کٹ اختیار کرنے کارحجان دیوانگی کی حد تک سرایت کرجاتا ہے ۔ دوسرے جرائم پر تو میں اکثر بات کرتا رہا ہوں جو اس ناہموار معاشرے کالازمی نتیجہ ہیں اوران کا سب سے بڑا سرچشمہ حکمران طبقہ ہے لیکن جنسی جرائم، جنسی تشدد اورجنسی بے راہروی کا زہریلا پودا بھی اسی انتہائی ناہموار نظام اورمعاشرے سے پھوٹتا ہے ۔ایک طرف وہ خوشحال طبقہ ہے جو مغرب سے ''آزادی نسواں '' (دوسرے کئی فشن ایبل نعروں کی طرح) لے کر انتہائی زف طریقے پر استعمال کررہا ہے جس نے آزادی نسواں کی اصل روح کو مسخ کرکے عورت کو صرف اورصرف ایک ''جنس وجسم'' بنادیا ہے ۔بلکہ لچر پن اور بے حیائی کو کاروبار یا ایک انڈسڑی بنا دیا۔عورت کو صرف ''ایک جسم'' بنادیا جس کاکام صرف کاروبار کے تقاضے کے مطابق پہننا، چلنا اور باتیں کرنا ہے۔ ایک ایسا آئٹم جو صرف اورصرف ''مرد'' کو لبھائے چنانچہ ''عالمی مالی مافیا'' کے ہرپراڈکٹ کا''جزواعظم'' عورت کے جسم کی نمائش ہے اور اسے ہی معاشرے کاامرت دھارا بنادیا گیاہے ، شوبز کی دنیا تو ایک طرف اب تو سنا ہے، چند مہنگی فیسوں والی درسگاہوں میں لڑکے پینٹ کوٹ پہنے نظر آتے ہیں جب کہ لڑکیوں کا یونی فارم گھٹنوں سے اوپر تک کاسکرٹ ہوتا ہے ۔ ایسے میں معاشرے کے محروم ، بھوکے اورفرسٹیڈ لوگ کیاکریں گے۔ ''وہی'' جو کررہے ہیں۔
درمیان قطر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکئی ہشیار باش
ماہرین ، مدبرین اور دانا دانشورکچھ بھی فلسفے بگھاریں، نفسیاتی ، جنسیاتی اور نظریاتی دلائل کے طورمار باندھیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ سب معاشرتی ناہمواری کاشاخسانہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف تو دولت، ترقی اورجدیدیت کے ڈنکے اتنے زورسے بج رہے ہیں کہ کان پڑی آواز تو کیا، بسوں اور ٹرکوں کے ہارنز کی آواز تک سنائی نہیں دے رہی ہے۔ ادھر ملک بھر میں عبادت گاہوں اور ان میں نصب لاؤڈ اسپیکروں کی اتنی بہتات ہوچکی ہے کہ کسی عبادت گاہ کی اینٹ رکھنے سے پہلے لاؤڈ اسپیکر چل پڑتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں تو شارٹ کٹسں کی اتنی بہتات ہوچکی ہے کہ سیدھے راستے پرچلنا حماقت کی ذیل میں آتا ہے اورجو لوگ سیدھے راستوں پر چلتے ہیں، ان کو نالائق ،نکمے، احمق کہا اورسمجھاجاتا ہے ۔
یہ بات توہم کئی کئی بار ان کالموں میں عرض کرتے رہے ہیں کہ ناہموار ، اوبڑ ،کھابڑ، پتھروں گڑھوں بھرے راستے پر جب گاڑی چلتی ہے تو نہ صرف اس کی چال بے ڈھنگی ہوجاتی ہے بلکہ گاڑیوں کے انجرپنجر بھی ڈھیلے ہوجاتے ہیں ۔ پرزے ٹوٹنے لگتے ہیں،ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں، حادثے رونما ہونے لگتے ہیں، سواریوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوجاتی ہے اوررفتار تو ظاہرہے کہ نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے، انجن جواب دے جاتے ہیں ،ٹائر بے کار ہو جاتے ہیں اوراس وقت ہم جس معاشرے کی سڑک پرچل رہے ہیں اس میں وہ سب کچھ ہورہا ہے جو ناہموار راستوںپر گاڑیوں اورمسافرکے ساتھ ہوتا ہے اوران رہزنوں، ڈاکوؤں کا تو ہم نے ذکر ہی نہیں کیا ہے جو ایسے راستوں پر جگہ جگہ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں یا رہبروں کا بھیس بنا کر مسافروں اور گاڑیوں کے مالکان کو لوٹتے ہیں۔
چوں کہ ہمارا رائج الوقت معاشرہ مکمل طورپر ایسے راستے جیسا بن چکا ہے یا بنایا جاچکا ہے اورپھر یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ کچھ شاطر لوگ اس راستے پر چلنے کے بجائے شارٹ کٹس راستوں سے گزر کر منزلوں تک پہنچ گئے ہیں،پہنچ رہے ہیں،پہنچائے جارہے ہیں، ایسے میں عام مسافرکیاکرے گا ، مجبوراً وہ بھی یا تو شارٹ کٹ اختیار کرے گا یادوسروں کو لوٹنا اوران سے ''سواریاں ''چھیننا شروع کردے ، اگر وہ پیدل ہے تو گدھے سوار اورسائیکل سوارکی سواری چھیننے گا ، سائیکل سوار ہے تو موٹر سائیکل چھینے گا، موٹر سائیکل سوار ہے تو موٹروالے سے موٹر چھینے گا یاکوشش کرے گا چاہے اس میں ''اس کی'' یا اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ چنانچہ اس وقت ہمارے پاکستانی معاشرے کی جو صورت حال ہے وہ انتہا درجے کے نشیب وفراز پر مبنی ہے۔ ایک طرف شارٹ کٹ اختیار کرنے والے پندرہ فی صد لوگ ہیں جو انسان سے بہت اونچے اورخدائی کے دعوے سے تھوڑے ''کم'' ہیں جب کہ دوسری طرف وہ پچاسی فی صد کالانعام ہیں جو انسانوں سے بہت نیچے اور جانوروں سے تھوڑے اونچے ہیں ۔
ظاہرہے کہ ایسے معاشروں میں شارٹ کٹ اختیار کرنے کارحجان دیوانگی کی حد تک سرایت کرجاتا ہے ۔ دوسرے جرائم پر تو میں اکثر بات کرتا رہا ہوں جو اس ناہموار معاشرے کالازمی نتیجہ ہیں اوران کا سب سے بڑا سرچشمہ حکمران طبقہ ہے لیکن جنسی جرائم، جنسی تشدد اورجنسی بے راہروی کا زہریلا پودا بھی اسی انتہائی ناہموار نظام اورمعاشرے سے پھوٹتا ہے ۔ایک طرف وہ خوشحال طبقہ ہے جو مغرب سے ''آزادی نسواں '' (دوسرے کئی فشن ایبل نعروں کی طرح) لے کر انتہائی زف طریقے پر استعمال کررہا ہے جس نے آزادی نسواں کی اصل روح کو مسخ کرکے عورت کو صرف اورصرف ایک ''جنس وجسم'' بنادیا ہے ۔بلکہ لچر پن اور بے حیائی کو کاروبار یا ایک انڈسڑی بنا دیا۔عورت کو صرف ''ایک جسم'' بنادیا جس کاکام صرف کاروبار کے تقاضے کے مطابق پہننا، چلنا اور باتیں کرنا ہے۔ ایک ایسا آئٹم جو صرف اورصرف ''مرد'' کو لبھائے چنانچہ ''عالمی مالی مافیا'' کے ہرپراڈکٹ کا''جزواعظم'' عورت کے جسم کی نمائش ہے اور اسے ہی معاشرے کاامرت دھارا بنادیا گیاہے ، شوبز کی دنیا تو ایک طرف اب تو سنا ہے، چند مہنگی فیسوں والی درسگاہوں میں لڑکے پینٹ کوٹ پہنے نظر آتے ہیں جب کہ لڑکیوں کا یونی فارم گھٹنوں سے اوپر تک کاسکرٹ ہوتا ہے ۔ ایسے میں معاشرے کے محروم ، بھوکے اورفرسٹیڈ لوگ کیاکریں گے۔ ''وہی'' جو کررہے ہیں۔
درمیان قطر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکئی ہشیار باش