فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی نئے موڑ پر
پاکستان میں حماس رہنما اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر یوم سوگ منایا گیا
حماس کے شہید رہنما اسماعیل ہانیہ کو اگلے روز قطر میں الوسیل قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ دوحہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی گئی ۔ دوحہ کی مرکزی مسجد کے امام محمد بن عبدالوہاب نے پڑھائی ہے۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد اپنے والد شیخ حمد بن خلیفہ کے ساتھ اسماعیل ہانیہ کی نمازہ جنازہ میں شرکت کے لیے آئے۔
نماز جنازہ ہزاروں سوگوار شریک ہوئے، سوگوار فلسطینی پرچم تھامے ہوئے تھے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے بھی دعا کی گئی ۔ شہید اسماعیل ھنیہ کی اہلیہ ، بیٹی اور بہونے اﷲ کی رضا اور تقدیر پر راضی ہونے کا اعلان بھی کیا۔ نماز جنازہ میں افغانستان کے نائب وزیر اعظم ،ترکیہ کے وزیرِ خارجہ، فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں، الفتح اور الجہاد کے اعلی وفود، حماس کی سیاسی و جہادی قیادت ، پاکستان سے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، حماس کے رہنما خالد مشعل سمیت کئی ملکوں کی اہم شخصیات اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اسماعیل ہانیہ کی تہران میں شہادت کیسے ہوئی ،اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ ایران میں کئی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں، ایرانی پاسداران کے حوالے سے میڈیا نے خبر دی ہے کہ انھیں قریب سے نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایران نے کہا ہے کہ امریکا کو اس حملے کا علم تھا۔ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، اصل حقائق سامنے آنے چاہیے کیونکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ ایران کے اندر پاسداران کے زیر کنٹرول علاقے میں ایک عالمی لیڈر کا قتل ہوجانا، اعلان جنگ سے کم نہیں ہے۔
دشمن واضح ہے لیکن دشمن کے آلہ کار اس سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ابھی تک یہ بھی واضع نہیں ہے کہ انھیں میزائل مار کر شہید کیا گیا؟ ڈرون کے ذریعے میزائل داغا گیا یا ان کے کمرے میں بارودی مواد رکھا گیا تھا؟ اسرائیل کے عزائم تو کسی سے ڈھکے چپھے نہیں ہے۔ اسرائیل سیکیورٹی فورس نے مسجد اقصیٰ کے 85سالہ امام شیخ عکرمہ صبری کو گرفتار کرلیا۔ ان کا جرم یہ کہ انھوں نے خطبہ جمعہ کے دوران شہید اسماعیل ہانیہ کی تعریف کی ہے۔
ایک صہیونی انتہاپسند اسرائیلی نے سوشل میڈیاپر شیخ عکرمہ کی اسرائیلی پرچم کے قریب بیٹھے تصویر بھی شیئر کی ہے اور طنزیہ انداز میں لکھا ہے کہ شیخ عکرمہ سے جھنڈے کے زیر سایہ تفتیش کی جارہی ہے ۔ ادھر عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے۔ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسرائیل کو بیلسٹک میزائلوں اور ڈورن حملوں سے بچانے کے لیے مزید دفاعی سامان بھیجنے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ امریکا نے کہا اسرائیل کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
امریکا نے جنگی بحری بیڑہ '' روزویلٹ'' خلیج فارس میں پہنچا دیا ۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور محمد الضیف کے بعد غزہ کی پٹی میں اسلامک جہاد موومنٹ کے ہتھیار ساز یونٹ کے نائب سربراہ محمد الجعبری کو بھی ایک فضائی حملے میں شہید کردیا گیا۔ اسلامک جہاد موومنٹ نے تاحال اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ اسرائیلی فوج نے الجزیرہ سے وابستہ صحافی اسماعیل الغول کو غزہ میں فوجی کارروائی کے دوران قتل کرنے کا اعتراف بھی کر لیا۔
ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل باقری نے کہا ہے کہ ایران اسماعیل ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے طریقہ کا جائزہ لے رہا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ایران کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا کیونکہ اس کی سرزمین پر ایک انتہائی اہم شخصیت کو شہید کیا گیا ہے۔ اب ایران کیا کرتا ہے، یہ دیکھنے کی بات ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ایرانی قیادت بھی اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ حالات انتہائی خطرناک نہج تک پہنچ چکے ہیں۔ ایران اور اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل پر حملوں کے خدشے کے پیش نظر امریکا سمیت متعدد ممالک کی ائیر لائنز نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں۔
ادھر عالمی اداروں کے لیے غزہ میں امداد کی ترسیل کو بڑھانا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ پوری آبادی شدید جسمانی اور ذہنی مسائل کا شکار ہے۔ غزہ میں فلسطینی بچوں نے اسرائیلی حملوں کے 300 سے زائد دنوں میں ناقابل بیان مظالم دیکھے ہیں ۔ ایک عالمی ایجنسی نے غزہ میں صدمے سے دوچار بچوں کے لیے سیکھنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری رہی۔ مزید د رجنوں فلسطینی شہید ہوگئے۔ ترکیہ صدر اردوان نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے بجائے جنگ کو وسیع تر خطے تک پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ہماری جوابی کارروائی کا انتظار کریں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ اسماعیل ھنیہ کا قتل غزہ جنگ بندی میں مذاکرات میں مددگار نہیں ہوگا۔
پاکستان میں حماس رہنما اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر یوم سوگ منایا گیا، پارلیمنٹ میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، قومی اسمبلی میں اسماعیل ہانیہ کے قتل کی مذمت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی، کابینہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کر لی، خیبرپختونخوا اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی جدو جہد کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں نماز جمعہ کے بعد غائبانہ نماز جنازہ میں وزیراعظم شہباز شریف، اسپیکرایاز صادق ،سابق اسپیکر راجہ پرویز اشرف ، بیرسٹر گوہر، عامر ڈوگر، مولاناعبدالغفور حیدری، محمود خان اچکزئی شریک ہوئے،قومی اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ فلسطین کی زمین مقتل گاہ اور قبرستان بن چکی ،آج عالمی انصاف اور ضمیر خود کٹہرے میں کھڑا ہے، قبل ازیں وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اورحماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے قتل کے خلاف قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی۔ ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی، اجلاس میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے مسجد الشہدا لاہور میں اسماعیل ہانیہ کی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت کی جس میں سیکڑوں افراد شریک ہوئے۔
حماس سربراہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر ملک بھر میں مظاہرے بھی کیے گئے،فلسطینوں کی فتح و نصرت کی دعائیں کی گئیں۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے باوجود اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی جنگ بندی کی قرارداد منظور ہو چکی ہے لیکن اس میں کئی قانونی ابہام ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل کی پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کا مجرم قرار دے چکی ہے۔
عالمی عدالت انصاف غزہ میں فوری جنگ بندی کا حکم بھی صادر کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ ایسے حالات میں اب سوال یہ ہے کہ فلسطینی تنظیمیں مزید کتنی دیر تک جنگ لڑتی ہیں۔ امریکا اور یورپی یونین کی پالیسی تو بالکل واضح ہے کہ وہ نیتن یاہو کی حکومت کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں لیکن اسرائیل کے ساتھ ہیں۔
اسرائیل کے تحفظ کے لیے وہ خطے میں جنگ بھی شروع کرا سکتے ہیں۔ چین، روس، انڈیا اپنے مالی اور معاشی مفادات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بناتے ہیں۔ ان ممالک سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ خود میدان میں آ کر فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکی اور یورپی ممالک کے خلاف صف آرا ہو جائیں۔
وہ سفارتی سطح پر حمایت کر سکتے ہیں یا پھر گوریلا تنظیموں کو ہتھیار مہیا کر سکتے ہیں۔ مسلم ممالک کو مالی مدد دے سکتے ہیں، دفاعی ہتھیار فراہم کر سکتے ہیں لیکن وہ جس طرح امریکا اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے، اس طرح فلسطینیوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ بوجھ فلسطین کی قیادت کو خود ہی اٹھانا پڑے گا۔ فلسطین کی قیادت بھی باہم تقسیم ہے۔
حماس، اسلامک جہاد اور قسام بریگیڈ کی سوچ اور نظریات پی ایل او اور الفتح کی سوچ اور فکر سے مختلف ہے۔ یہ وہ کمزوری ہے جس نے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ مسلم ممالک اپنے مسائل سے دوچار ہیں۔ عرب ملک کھلے طور پر حماس اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کے نظریات اور حکمت عملی کی حمایت نہیں کرتے۔ ایران کھل کر حماس کی حمایت کر رہا ہے لیکن اب ایران کو بھی اس حمایت کی تپش محسوس ہو سکتی ہے۔ اس تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہو رہا ہے۔ وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ فلسطینیوں کی قیادت باہمی اختلافات ختم کرے اور متحد ہو کر جدوجہد کرے تو ممکن ہے عرب ممالک ماضی کی طرح کھل کر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
نماز جنازہ ہزاروں سوگوار شریک ہوئے، سوگوار فلسطینی پرچم تھامے ہوئے تھے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے بھی دعا کی گئی ۔ شہید اسماعیل ھنیہ کی اہلیہ ، بیٹی اور بہونے اﷲ کی رضا اور تقدیر پر راضی ہونے کا اعلان بھی کیا۔ نماز جنازہ میں افغانستان کے نائب وزیر اعظم ،ترکیہ کے وزیرِ خارجہ، فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں، الفتح اور الجہاد کے اعلی وفود، حماس کی سیاسی و جہادی قیادت ، پاکستان سے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن، حماس کے رہنما خالد مشعل سمیت کئی ملکوں کی اہم شخصیات اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اسماعیل ہانیہ کی تہران میں شہادت کیسے ہوئی ،اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ ایران میں کئی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں، ایرانی پاسداران کے حوالے سے میڈیا نے خبر دی ہے کہ انھیں قریب سے نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایران نے کہا ہے کہ امریکا کو اس حملے کا علم تھا۔ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، اصل حقائق سامنے آنے چاہیے کیونکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ ایران کے اندر پاسداران کے زیر کنٹرول علاقے میں ایک عالمی لیڈر کا قتل ہوجانا، اعلان جنگ سے کم نہیں ہے۔
دشمن واضح ہے لیکن دشمن کے آلہ کار اس سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ابھی تک یہ بھی واضع نہیں ہے کہ انھیں میزائل مار کر شہید کیا گیا؟ ڈرون کے ذریعے میزائل داغا گیا یا ان کے کمرے میں بارودی مواد رکھا گیا تھا؟ اسرائیل کے عزائم تو کسی سے ڈھکے چپھے نہیں ہے۔ اسرائیل سیکیورٹی فورس نے مسجد اقصیٰ کے 85سالہ امام شیخ عکرمہ صبری کو گرفتار کرلیا۔ ان کا جرم یہ کہ انھوں نے خطبہ جمعہ کے دوران شہید اسماعیل ہانیہ کی تعریف کی ہے۔
ایک صہیونی انتہاپسند اسرائیلی نے سوشل میڈیاپر شیخ عکرمہ کی اسرائیلی پرچم کے قریب بیٹھے تصویر بھی شیئر کی ہے اور طنزیہ انداز میں لکھا ہے کہ شیخ عکرمہ سے جھنڈے کے زیر سایہ تفتیش کی جارہی ہے ۔ ادھر عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے۔ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسرائیل کو بیلسٹک میزائلوں اور ڈورن حملوں سے بچانے کے لیے مزید دفاعی سامان بھیجنے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ امریکا نے کہا اسرائیل کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
امریکا نے جنگی بحری بیڑہ '' روزویلٹ'' خلیج فارس میں پہنچا دیا ۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور محمد الضیف کے بعد غزہ کی پٹی میں اسلامک جہاد موومنٹ کے ہتھیار ساز یونٹ کے نائب سربراہ محمد الجعبری کو بھی ایک فضائی حملے میں شہید کردیا گیا۔ اسلامک جہاد موومنٹ نے تاحال اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ اسرائیلی فوج نے الجزیرہ سے وابستہ صحافی اسماعیل الغول کو غزہ میں فوجی کارروائی کے دوران قتل کرنے کا اعتراف بھی کر لیا۔
ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل باقری نے کہا ہے کہ ایران اسماعیل ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے طریقہ کا جائزہ لے رہا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ایران کو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا کیونکہ اس کی سرزمین پر ایک انتہائی اہم شخصیت کو شہید کیا گیا ہے۔ اب ایران کیا کرتا ہے، یہ دیکھنے کی بات ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ایرانی قیادت بھی اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ حالات انتہائی خطرناک نہج تک پہنچ چکے ہیں۔ ایران اور اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل پر حملوں کے خدشے کے پیش نظر امریکا سمیت متعدد ممالک کی ائیر لائنز نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں۔
ادھر عالمی اداروں کے لیے غزہ میں امداد کی ترسیل کو بڑھانا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ پوری آبادی شدید جسمانی اور ذہنی مسائل کا شکار ہے۔ غزہ میں فلسطینی بچوں نے اسرائیلی حملوں کے 300 سے زائد دنوں میں ناقابل بیان مظالم دیکھے ہیں ۔ ایک عالمی ایجنسی نے غزہ میں صدمے سے دوچار بچوں کے لیے سیکھنے کا پروگرام شروع کیا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری رہی۔ مزید د رجنوں فلسطینی شہید ہوگئے۔ ترکیہ صدر اردوان نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے بجائے جنگ کو وسیع تر خطے تک پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے ہماری جوابی کارروائی کا انتظار کریں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ اسماعیل ھنیہ کا قتل غزہ جنگ بندی میں مذاکرات میں مددگار نہیں ہوگا۔
پاکستان میں حماس رہنما اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر یوم سوگ منایا گیا، پارلیمنٹ میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، قومی اسمبلی میں اسماعیل ہانیہ کے قتل کی مذمت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی، کابینہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کر لی، خیبرپختونخوا اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی جدو جہد کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں نماز جمعہ کے بعد غائبانہ نماز جنازہ میں وزیراعظم شہباز شریف، اسپیکرایاز صادق ،سابق اسپیکر راجہ پرویز اشرف ، بیرسٹر گوہر، عامر ڈوگر، مولاناعبدالغفور حیدری، محمود خان اچکزئی شریک ہوئے،قومی اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ فلسطین کی زمین مقتل گاہ اور قبرستان بن چکی ،آج عالمی انصاف اور ضمیر خود کٹہرے میں کھڑا ہے، قبل ازیں وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اورحماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے قتل کے خلاف قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی۔ ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی، اجلاس میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے مسجد الشہدا لاہور میں اسماعیل ہانیہ کی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت کی جس میں سیکڑوں افراد شریک ہوئے۔
حماس سربراہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر ملک بھر میں مظاہرے بھی کیے گئے،فلسطینوں کی فتح و نصرت کی دعائیں کی گئیں۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے باوجود اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی جنگ بندی کی قرارداد منظور ہو چکی ہے لیکن اس میں کئی قانونی ابہام ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل کی پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کا مجرم قرار دے چکی ہے۔
عالمی عدالت انصاف غزہ میں فوری جنگ بندی کا حکم بھی صادر کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ ایسے حالات میں اب سوال یہ ہے کہ فلسطینی تنظیمیں مزید کتنی دیر تک جنگ لڑتی ہیں۔ امریکا اور یورپی یونین کی پالیسی تو بالکل واضح ہے کہ وہ نیتن یاہو کی حکومت کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں لیکن اسرائیل کے ساتھ ہیں۔
اسرائیل کے تحفظ کے لیے وہ خطے میں جنگ بھی شروع کرا سکتے ہیں۔ چین، روس، انڈیا اپنے مالی اور معاشی مفادات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بناتے ہیں۔ ان ممالک سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ خود میدان میں آ کر فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکی اور یورپی ممالک کے خلاف صف آرا ہو جائیں۔
وہ سفارتی سطح پر حمایت کر سکتے ہیں یا پھر گوریلا تنظیموں کو ہتھیار مہیا کر سکتے ہیں۔ مسلم ممالک کو مالی مدد دے سکتے ہیں، دفاعی ہتھیار فراہم کر سکتے ہیں لیکن وہ جس طرح امریکا اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے، اس طرح فلسطینیوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ بوجھ فلسطین کی قیادت کو خود ہی اٹھانا پڑے گا۔ فلسطین کی قیادت بھی باہم تقسیم ہے۔
حماس، اسلامک جہاد اور قسام بریگیڈ کی سوچ اور نظریات پی ایل او اور الفتح کی سوچ اور فکر سے مختلف ہے۔ یہ وہ کمزوری ہے جس نے فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ مسلم ممالک اپنے مسائل سے دوچار ہیں۔ عرب ملک کھلے طور پر حماس اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز کے نظریات اور حکمت عملی کی حمایت نہیں کرتے۔ ایران کھل کر حماس کی حمایت کر رہا ہے لیکن اب ایران کو بھی اس حمایت کی تپش محسوس ہو سکتی ہے۔ اس تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہو رہا ہے۔ وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ فلسطینیوں کی قیادت باہمی اختلافات ختم کرے اور متحد ہو کر جدوجہد کرے تو ممکن ہے عرب ممالک ماضی کی طرح کھل کر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔