کھانے میں احتیاط دواؤں کا درست استعمال روزہ آسان بنا دے گا

رمضان میں ایک ہی دفعہ پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں، اپنے کھانے کو تین حصوں میں تقسیم کردیں، پانی زیادہ استعمال کریں

شوگر اور دل کے مریض اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے اپنی ادویات کی خوراک ایڈجسٹ کروالیں، ایکسپریس فورم میں ڈاکٹرز کی تجاویز۔ فوٹو : ظہور الحق

ISLAMABAD:
رمضان کے مہینے کی آمد آمد ہے۔

قرآن حکیم نے روزے کا مقصد تقویٰ بیان کیا ہے روزے کے دینی مقاصد اپنی جگہ اہم ہیں مگر روزے کا دوسرا پہلو جسمانی اور طبی بھی ہے سحری اور افطاری کے درمیان کھانے پینے کا وقفہ انسانی جسم کو فضلات سے پاک اور خون کو صاف کرتا ہے۔ روزہ دار میں مرض کے مقابلے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔

اگر کھانے پینے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے تو روزے سے انسانی جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ ایکسپریس فورم میں ڈاکٹرز، حکیم اور عالم دین سے سیر حاصل گفتگو میں روزے کے فوائد اور خوراک اور ادویات کے استعمال پر بحث ہوئی۔ فورم کے شرکاء ڈاکٹر علی محمد اعوان، ڈاکٹر محمد ریاض، حکیم راحت نسیم سوہدروی اور مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان کے امیر لاہور مولانا محمدفاروق احمد قادری ضیائی شامل تھے۔



شرکاء فورم نے کہا کہ آج کے دور کی تمام بیماریاں خوراک کے نظام کی تبدیلی سے منسلک ہیں۔ شوگر، موٹاپا، دل کے امراض اور دماغی امراض کا رمضان کے مہینے میں علاج ممکن ہے۔ شوگر کا مریض اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے روزے رکھ سکتا ہے کیونکہ دوا کا ردوبدل ڈاکٹر کا کام ہے مریض یہ بالکل نہ کرے کہ روزے میں صبح کی دوا شام اور شام کی دوا سحری کے وقت کردے۔ بلڈ پریشر اور شوگر کی دوا کا ناغہ نہ کریں اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اس کا وقت طے کریں پانی کا استعمال زیادہ کریں۔ اگر بلڈ پریشر نارمل ہو یا دوا سے قابو میں ہو تو لسی، سکنجبین اور دودھ کا استعمال کریں۔ کھانا جسم میں سٹور نہیں ہوتا اس لیے زیادہ کھانا صرف نقصان دیتا ہے۔



البتہ پانی جسم میں سٹور ہوجاتا ہے اس لیے پانی اور مشروبات زیادہ استعمال کرنے چاہئیں۔ کمرشل ڈرنک اور دودھ سوڈا کا استعمال پیٹ میں گیس پیدا کرتا ہے۔ سحری کے وقت اگر پراٹھا کھانا ہے تو زیتون کے تیل کا پراٹھا کھائیں۔ رمضان میں ہارٹ اٹیک کی شرح بڑھ جاتی ہے جس کی بڑی وجہ سحری اور افطاری میں کھانے کی بے اعتدالی ہوتی ہے۔ شوگر اور دل کے مریض رمضان میں ایک دفعہ پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیں بلکہ ڈیڑھ گھنٹے کے وقفے سے اگر تھوڑا تھوڑا کرکے تین دفعہ کھائیں تو طبیعت ہشاش بشاش رہے گی اور بیماری بھی جسم پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ ایکسپریس فورم کے شرکاء نے جو گفتگو کی وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

محمد فاروق احمد قادری رضوی ضیائی (امیر مرکزی جماعت اہل سنت لاہور)

اللہ فرماتا ہے ''اے ایمان والو تم پر روزے فرض کردیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار ہوجاؤ''۔ روزہ ہماری روح پر اثر انداز ہوتا ہے ہم کھانے پینے سے جتنے دور ہوں گے روحانیت کے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔ جب بھوک لگے گی تو دوسرے کی بھوک کا احساس ہوگا جب پیاس لگے گی تو دوسرے کی پیاس کا احساس ہوگا۔

حضور پاکؐ نے فرمایا رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے، بھائی چارے کا مہینہ ہے، ہمدردی کا مہینہ ہے، صبر میں انسان روحانیت کی منازل طے کرتا ہے حدیث شریف ہے کہ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اوردوسری خوشی اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ روزہ رکھنے سے انسان کی روح قوی ہوتی ہے، تراویح پڑھنے، سخاوت کرنے، کم بولنے، نوافل ادا کرنے اور قرآن پڑھنے سے روح کو غذا ملتی ہے۔

افطاری اور سحری کے متعلق حکم ہے کہ جو بھی روزہ رکھنا چاہے وہ کسی نہ کسی حلال شے سے سحری کرے حضورؐ کا فرمان ہے کہ مومن کی بہترین سحری کھجور ہے اور جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے کیونکہ یہ برکت ہے اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطاری کرے کیونکہ پانی بھی بندے کو پاک کرنے والا ہے۔



حضور اکرمؐ نے حضرت سعد بن معاذؓ کے گھر افطاری کی اور پھر فرمایا تمہارے ہاں روزہ داروں نے روزہ افطار کیا نیک لوگوں نے کھانا کھایا اور فرشتوں نے تم پر رحمت بھیجی۔ سحری اور افطاری میں کھجور، دودھ اور پانی کا استعمال کرنا ایک تو سحری اور افطاری کے عمل میں مدد کرتا ہے اور نیت کے مطابق سنت نبویؐ پر عمل بھی ہوتا ہے۔

حضورؐ فرماتے ہیں رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اللہ ہمیں رمضان میں شیطانیت سے ٹکرانے اور صالح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ رمضان کی آمد پر ہمیں نام نہاد بیمار بن کر ماہ برکت کا استقبال نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس مہینے میں ہمیں اپنی روح اور جسم کی تسکین کیلئے اس کا ایمانی جذبے سے استقبال کرنا چاہیے کیونکہ روزہ رکھنے سے نہ جسم کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی جسم میں کام کرنے کی طاقت کم ہوتی ہے اس کی مثال غزوہ بدر ہے جب 17 رمضان کو مکہ کے کفار سے جنگ کرکے مسلمانوں نے یہ اعلان کردیا کہ ہم روزہ رکھنے سے کمزور نہیں ہوئے بلکہ ایمانی لحاظ سے مزید مضبوط ہوگئے۔ مسلمانوں نے ماہ رمضان میں کئی فتوحات حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ روزہ جسمانی اور روحانی لحاظ سے انتہائی فائدہ مند ہے۔

حکیم راحت نسیم سوہدروی (سینئر نائب صدر پاکستان ایسوسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن)

اس سال موسم گرما کے روزے ہیں جن میں پسینہ زیادہ آتا ہے اور جسم کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ افطاری کے وقت لیموں کی سکنجبین' لسی اور کچی لسی کا زیادہ استعمال کریں اسی طرح سحری کے وقت بھی کچی لسی یا لسی کا زیادہ سے زیادہ استعمال سے روزدار گرمی کی سختی سے بھی بچ سکتا ہے اور اس میں پانی کی کمی ہونے کا بھی احتمال نہیں ہوتا۔

روزہ ہائی بلڈ پریشر' موٹاپا' نزلہ زکام' گیس رحاح اور ڈپریشن کا قدرتی علاج ہے۔ اس سے قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ افطاری کے وقت دودھ' شہد اور پھل کا استعمال کریں' پکوڑوں' سموسوں اور کچوریوں سے پرہیز کریں۔ ایک خاص وقت تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔ لیکن یہ اصل مقصد نہیں ہے بلکہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے قرآن حکیم نے روزہ کا مقصد تقویٰ بیان کیا ہے۔

اسلام دین فطرت ہے اور فطرت کا ہر عمل انسان کی فلاح کے لئے ہے اس طرح روزہ کے دینی مقاصد اپنی جگہ مسلم مگر جسمانی یعنی طبی پہلو سے بھی انسان کے لئے مفید ہے صبح سحری سے افطاری یعنی نماز مغرب تک فاقہ نہیں بلکہ وقفہ روزہ ہے' روزہ میں کھانے پینے اور دیگر خواہشات کا جو وقفہ ہوتا ہے وہ جسم کو فضلات سے پاک اور خون کوصاف کرتا ہے روزہ دار میں حرص اور مرض سے مقابلے کی قوت پیدا ہوتی ہے اس لئے نفس کے تزکیے کے لئے روزے فرض کئے گئے۔ روزہ فاقہ نہیں ہے بلکہ صرف صبح سے شام تک کھانے پینے میں وقفہ ہے اور وقفہ سے جسم کو اس وقت تک کوئی نقصان نہیں پہنچتا جب تک ایک خاص حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔

تمام حیوانی اجسام میں یہ قدرتی اصول علاج رائج ہے کہ وہ تمام اشیاء جن میں زندگی کے آثار مفقود ہوں اور فرسودگی پائی جائے جسم سے خارج کر دینے چاہئیں روزہ سے جسم کی ان قوتوں کو فائدہ ہوتا ہے جو مضر اور غیر حیات بخش عناصر کو جسم سے خارج کرتے ہیں گویا قوت ہضم جو ان عناصر کو برسر پیکار رکھتی ہے ان سے فارغ ہو کر قوت مدافعت میں شامل ہو کر اسے مضبوط بنا دیتا ہے۔ کیلیفورنیا کے (امریکہ) ایک ڈاکٹر لوگان نے لکھا کہ وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو روزہ رکھ کر صحت یاب ہو جاتے ہیں اس طرح دیگر معالجین اور لوگوں کے تجربات سامنے آئے تو مغرب کے ماہرین طب و سائنس اس جانب متوجہ ہوئے اور کھلم کھلا اعترف کیا کہ روزہ (ترک ازالہ خوردونوش) بہت سے امراض کا علاج ہے۔



مختصراً یہ کہ روزہ نہ صرف انسان کو متعدد امراض میں فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ محفوظ بھی رکھتا ہے رمضان المبارک روئے زمین پر بسنے والے مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کا مہینہ ہے اور جسمانی کثافتوں سے نجات کی جانب ایک اہم قدم بھی۔ روزہ کا پابند انسان ہر طرح چاق و چوبند اور تندرست رہتا ہے اس بابرکت مہینہ میں دینی پہلو کے ساتھ ساتھ جسمانی فوائد کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ روزہ کو اس کی روح کے مطابق رکھا جائے قلیل غذا کا اصول اختیار کریں' ضبط نفس کا مظاہرہ کریں سحری و افطاری میں معمول کی سادہ غذا لی جائے البتہ غذا ایسی ہو جس میں صحت کے لئے متوازن اجزاء ہوں۔

مگر ہمارے ہاں روزہ کے مطلوبہ طبی فوائد اس لئے نہیں حاصل ہو پاتے کہ ہم لوگ ماہ رمضان المبارک میں کھانے پینے کا بجٹ دو گنا کر دیتے ہیں جس سے روزہ کے دینی اور طبی پہلو دونوں کے مقاصد پورے نہیں ہوتے کیونکہ زائد از ضرورت غذا کو جلانے کے لئے اور اسے بدن سے خارج کرنے کے لائق بنانے کیلئے اعضائے ہضم کو زیادہ توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے جو اعضاء اس عمل میں زیادہ کام کرتے ہیں اس سے اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔

ہمارے ہاں افطاری اور افطار دعوتوں میں سموسے، کچوریاں، پکوڑے وغیرہ بکثرت استعمال ہوتے ہیں گھروں میں بھی انواع اقسام کے کھانے تیار ہوتے ہیں اس طرح معدہ بوجھل ہوتا ہے اور اسے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے نماز تراویح میں طبیعت میں اضمحلال محسوس ہوتا ہے اور بھوک کم ہو جاتی ہے چند دنوں میں نقاہت کا احساس ہونے لگتا ہے حالانکہ روزہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سادہ غذا سے روزہ رکھا جائے۔

اس طرح افطار بھی سادہ کیا جائے، کھجور یا دودھ زیادہ مناسب ہے۔ کھجور حضور ؐ کی مرغوب غذا ہے اور حیاتین سے بھرپور ہے اور جلد جزوبدن بن جاتی ہے۔ نماز مغرب کے بعد معمول کا سادہ سالن روٹی لی جائے۔ پھر کوئی پھل لے سکتے ہیں۔ روزہ میں مرغن اشیاء' پراٹھے' چاول' پکوڑے' سموسے' کچوریاں وغیرہ سے پرہیز کریں۔


ڈاکٹر محمد علی اعوان (شوگر سپیشلسٹ)

روزہ ہر حالت میں شفا ہے۔ گو بیمار کو روزے میں چھوٹ دی گئی لیکن حکم ہے کہ بہتر ہے کہ روزہ رکھو۔ بیمار اگر اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرلیں اور اس کی ہدایات پر عمل کریں تو وہ آسانی سے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک بات معمول ہے کہ ادویات کھانے والے مریض رمضان میں اپنی مرضی سے صبح کی دوا شام کو اور شام والی دوا سحری کے وقت کھالیتے ہیں جو درست طریقہ کار نہیں ہے۔

دوا کھانے والے اپنے ڈاکٹر کے پاس جائیں اور جس طرح ڈاکٹر دوا ایڈجسٹ کرے رمضان میں اس طریقے سے دوا کھائیں۔ ضروری نہیں کہ روزے میں شوگر کم ہی ہو یہ ہائی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ جگرکی چربی پگھل کر شوگر پیدا کرتی ہے۔ شوگر کے مریض پانی کی کمی کی وجہ سے قوما میں جاسکتے ہیں۔ پانی کی کمی سے فالج ہونے کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ دل کے امراض میں مبتلا افراد اگر سحری یا افطاری کے وقت زیادہ کھالیں تو ہارٹ اٹیک کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ دل اور شوگر کے مریضوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ افطاری کے وقت کھجور اور مشروب سے روزہ کھولیں اور پھر نماز پڑھنے سے پہلے ہلکا کھانا کھائیں اور پھر تراویح پڑھنے کے بعد کچھ ہلکا سا کھانا لیں۔

اس طرح اگر افطاری کے بعد کھانے کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کھائیں گے تو طبیعت بوجھل بھی نہیں ہوگی۔ دل پر بوجھ نہیں پڑے گا اور شوگر بھی نارمل رہے گی۔ تراویح کے بعد ہلکا کھانا کھا کر سو جائیں پھر جب سحری کیلئے اٹھیں تو سحری میں بھی کھانا دو حصوں میں تقسیم کرکے کھائیں۔ سو کر اٹھیں تو پھل کھائیں اور اس کے ایک گھنٹے بعد ہلکا کھانا کھائیں لیکن ساتھ کم از کم دو لیٹر پانی ضرور پئیں۔ زیادہ کھالینے سے ضروری نہیں کہ آپ کو بھوک نہ لگے کیونکہ جسم کھانے کو سٹور نہیں کرتا لیکن جسم میں پانی سٹور کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ویسے بھی روزہ دار مریض کو کھانے کی کمی یا بھوک سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن اگر پانی کی کمی ہوجائے تو یہ بات خطرناک ہوتی ہے دل کے مریضوں کو سب سے زیادہ ہارٹ اٹیک روزوں میں ہی ہوتے ہیں۔

آپ کی خوراک میں روزانہ 700 ملی لیٹر تک مشروبات شامل ہونے چاہئیں لیکن ان میں کمرشل ڈرنک شامل نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ان میں گیس ہوتی ہے جو پیٹ میں گیس پیدا کرکے طبیعت خراب کرتی ہے۔ مشروبات میں سکنجبین، لسی، جوس وغیرہ ہونے چاہئیں۔ خوراک میں زیادتی کی وجہ سے دل اور شوگر کے مریض بدہضمی کا شکار ہوسکتے ہیں دل اور شوگر کے مریض رمضان میں کم کھا کر اپنی بیماری پر قابو پاسکتے ہیں۔



مریضوں کو کھانا جلدی جلدی نہیں کھانا چاہیے بلکہ آہستہ آہستہ، مزہ لے کر اور چبا کر ایک گھنٹے کے دورانیے میں کھانا ختم کریں تو وہ بوجھل پن کی بجائے فرحت محسوس کریں گے۔ بہت سی بیماریاں نسل در نسل چلتی ہیں۔ ہمارے ملک میں 20 سال کی عمر میں ہی دل کی بیماریاں شروع ہوجاتی ہیں۔

رمضان میں کچی چینی والی چیزوں کا استعمال بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ سحری کے وقت روٹی اور سالن لینا چاہیے اگر پراٹھا کھانا ہے تو زیتون کے تیل کا پراٹھا کھائیں، ساتھ تھوڑا سا دہی ضرور استعمال کریں۔ شوگر کے جو مریض انسولین لگاتے ہیں یا گولیاں کھاتے ہیں وہ افطاری کے وقت کھجور سے روزہ افطار کرکے الٹرا شارٹ ایکٹنگ انسولین لگائیں یا وہ گولی کھائیں جو الٹرا شارٹ ایکٹنگ ہو اس کا اثر آدھا گھنٹہ رہتا ہے افطاری اور کھانے کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ رکھیں۔

شارٹ ایکٹنگ انسولین لگائیں یا شارٹ ایکٹنگ گولیاں استعمال کریں۔ تراویح کے دوران بھی پانی پیتے رہیں اور اس دوران ڈیڑھ لٹر تک پانی پئیں۔ سحری سے پہلے انٹرمیڈیٹ ایکٹنگ انسولین لگائیں اور سحری میں پانی اور مشروبات لسی وغیرہ کا کھل کر استعمال کریں۔ شارٹ ایکٹنگ انسولین اور گولیاں سحری میں نہ لیں۔

ڈاکٹر محمد ریاض (ماہر امراض دل)

ہمارے پڑھنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کھانا ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانا چاہیے اگر آپ اپنے معدے کو زیادہ بھرلیں گے تو وہ کھانا جزو بدن بننے کی بجائے وبال جسم بن جاتا ہے۔ ایک اوسط وزن کے انسان کی روانہ کی ضرورت 1800 سے 2200 کیلوریز ہوتی ہے جوکہ کسی بھی پاکستانی گھر کے تین کھانوں میں موجود ہوتی ہے۔

اب جب سحری اور افطاری کرنی ہے تو اس کے لیے کوئی زیادہ تردد کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کچھ کیلوریز کم بھی ہوجائیں تو کوئی مسئلہ نہیں جسم پورے سال کے سٹور کی ہوئی چربی کو استعمال میں لاکر جزو بدن بنالیتا ہے اور اس کمی کو پورا کردیتا ہے اور پھر جسم کی طہارت جو روزے سے ہوتی ہے وہ اسی سٹور کو جگر کے ذریعے استعمال میں لانے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ عمل انسان کو فالج اور دل کے امراض سے پورا سال بچا کر رکھتا ہے۔



دل کی بیماریاں عام طور پر رمضان میں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی وجہ زیادہ کھانا ہی ہے۔ ہم معدے کا اتنا زور لگوا دیتے ہیں کہ خون کا تمام تر بہاؤ معدے کی طرف ہوجاتا ہے اور تھوڑا سا پہلے سے کمزور دل ایک دم کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جسے ہم دل کادورہ کہتے ہیں۔ کھانے کے بعد غنودگی اسی عمل کی مثال ہے۔ کیونکہ کھانے کے بعد دماغ کو خون کی سپلائی کم ہوجاتی ہے۔

گرمیوں میں (گرم موسم) میں جسم کو سردیوں کے مقابلے میں کم خوراک (کیلوریزی )چاہیے ہوتی ہے اس لیے قدرتی مشروبات لسی، دودھ کی لسی اور لیموں پانی کا استعمال زیادہ کریں۔ گرمیوں میں پانی پسینے کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے اور چکنائی والی چیزیں اور زیادہ پیاس لگاتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کھانا سحری افطاری کا ہو یا عام دنوں کا سنت کے مطابق کھانا چاہیے۔ایک حصہ کھانا،ایک حصہ پانی،ایک حصہ ہوا کے لیے بھی خالی رکھناچاہیے ان گیسز کے لیے جو انہضام کے عمل کے دوران پیدا ہوتی ہیں ورنہ کھٹی ڈکاروں اور معدے کے السر جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

جن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے

٭ پکوڑے، سموسے، کچوریاں اور تلی ہوئی اشیا
٭ مرغن غذائیں جیسے بریانی، کڑاہی گوشت وغیرہ
٭ کمرشل مشروبا ت(Synthetic) استعمال نہ کریں یہ زیادہ پیاس لگاتے ہیں
٭ بیکری کی بنی تمام چیزوں سے احتیاط کریں
٭ بازاری کھانے بالکل نہ کھائیں
٭ زیادہ مصالحے استعمال نہ کریں
٭ گھی اور آئل کا استعمال کم سے کم کریں

جو چیزیں کھانی چاہئیں

٭ چپاتی اور گھر کا بنا کم مصالحے والا سالن
٭ کھجور، دودھ، نان کمرشل مشروبات
٭ فروٹ چاٹ، چنا اور لوبیا چاٹ، دہی بڑے
٭ سحری میں کسی بھی قسم کا پھل
٭ پراٹھا کھانا ہے تو زیتون کے تیل کا کھائیں
٭ دودھ سے بنی اشیاء مثلاً دہی، لسی، پنیر سحری کے وقت ضرور استعمال کریں
٭ شوربے والا گوشت یا سبزی ڈال کر پکایا ہوا گوشت
Load Next Story