اسمٰعیل ہنیہ کی قربانی اور راستہ
تاریخ کا سفر ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔ عزم، استحکام اور قربانی کی نئی نئی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں
اسمٰعیل ہنیہ رخصت ہوئے۔ اس دنیا میں جو آیا ہے، اسے یہاں سے جانا ہی ہے لیکن کم لوگوں کی رخصتی ایسی ہوتی ہے جو واقعہ بن جاتی ہے۔ بہت سے جواب طلب سوال پیچھے چھوڑ جاتی ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ قابل غور باتوں پر غور کرنے اور جواب طلب سوالوں کے جواب تلاش کرنا آزادی کے ہر متوالے اور ہر صاحب ضمیر کی ذمے داری ہے۔ یہ سوالات کیا ہیں اور ان کے ممکنہ جواب کیا ہو سکتے ہیں ، ان سوالوں پر غورسے قبل جی چاہتا ہے کہ قافلہ حریت و آزادی کے ہدی خوانوں میں اسمٰعیل ہنیہ کا مقام اور مرتبہ سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
قریبا ًسوا دو سو برس ہوتے ہیں، مسلم برصغیر میں جذبۂ حریت سے سرشار ایک شخص اٹھا تھا جس نے اپنے عظیم مشن کی راہ میں اپنی اولاد کو بھی حائل نہیں ہونے دیا جب ضرورت پیش آئی،اپنی قوم کو بچانے کے لیے دشمن کے پاس اپنے جگر گوشوں کو بہ طور یرغمال پیش کردیا۔ تاریخ اس عظیم انسان کو ٹیپو سلطان کے نام سے جانتی ہے۔ ایسی ہی ایک اور مثال تاریخ نے تبرک کے طور پر اپنے دامن میں چھپا رکھی ہے۔ یہ واقعہ ایک سفر کی داستان ہے۔
نو ہزار میل کے اس طویل سفر کے دوران میں میر قافلہ کو کبھی خبر ملتی کہ تمھارا فلاں پیارا جان سے گیا، تمھارا مال و متاع اور جمع پونجی نذر آتش ہوئی مگر اس قافلے کے کسی ایک مسافر نے بھی پلٹ کر پیچھے دیکھا اور نہ میر قافلہ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی۔ تاریخ نے اس سفر کی یادوں کو سینے سے لگایا اور اسے عظیم لانگ مارچ کا نام دیا۔ اس مارچ میں اپنے جگر گوشوں سے محروم ہونے والے شخص کا نام ماؤزے تنگ تھا جس کا نام نامی آتے ہی سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں۔ کیا اسمٰعیل ہنیہ کی قربانی ٹیپو سلطان جیسی ہے یا اس کا موازنہ ماؤزے تنگ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ نہیں۔ تاریخ کا سفر ہمیشہ آگے بڑھتا ہے۔ عزم، استحکام اور قربانی کی نئی نئی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ یہ مثالیں پہلے والوں کی قربانی اور جذبے کو دھندلاتی نہیں بلکہ پہلے والوں کے لیے عزت اور احترام میں اضافہ کرنے کے ساتھ آنے والوں کے لیے استقلال اور ثابت قدمی کی نئی مثالیں بھی قائم کرتی ہیں۔ تاریخ حریت میں نظریہ اور جذبہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور یہی چیز کام یابی کی راہ ہموار کرتی ہے لیکن جس طرح لڑائی چو مکھی ہوتی ہے، اسی طرح جدوجہد کے بھی مختلف زاویے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک زاویہ اعداد و شمار کا بھی ہے۔
ٹیپو سلطان نے اپنے دو کم سن بیٹے دشمن کے پاس یرغمال رکھے۔ ماؤزے تنگ کا معاملہ بھی اس سے کسی قدر ملتا جلتا ہے جب کہ اسمٰعیل ہنیہ کے براہ راست(Immediate) خاندان کے آٹھ افراد شہید کیے گئے۔ ان میں تین صاحبزادے، چار پوتے پوتیاں اور ایک بہن شامل ہیں۔ عزیز و اقاربExtended) (کی شہادتوں کی تفصیل اس میں شامل کر لی جائے تو مصدقہ معلومات کے مطابق یہ تعداد 60 تک جا پہنچتی ہے۔ اعداد و شمار کو پیش نظر رکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک کوئی ان کی قربانی کے قریب نہیں پہنچتا۔ اولاد اور عزیز و اقارب کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے۔
کانٹا تک چبھ جانے پر والدین بے قرار ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑے سورما اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ اسمٰعیل ہنیہ نے آزمائش کے موقع پر جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، فی زمانہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ موجودہ زمانے میں مقبوضہ کشمیر، افغانستان اور عراق سمیت دنیا کے کئی خطوں میں ظلم و ستم کی داستانیں رقم ہوتے ہوئے دیکھی گئی ہیں۔ ان خطوں میں فلسطین بھی امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ان تمام خطوں کے قائدین اور کارکنوں نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسمٰعیل ہنیہ نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، کوئی اس کے قریب تک نہیں پہنچتا۔ اپنی اس قربانی اور استقامت پر وہ آزادی اور حریت کی تمام تحریکوں کے لیے مینارہ ٔنور کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ان کے نقش قدم پر چل کر لوگ عزت پائیں گے اور ہمیشہ انھیں خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔
فلسطین کا حالیہ معرکہ تاریخ میں منفرد ہے۔ اس کے مضمرات اور اسباب و علل کو سمجھنا ضروری ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کا حملہ حالیہ تاریخ میں غیر معمولی ہے۔ اس حملے کے اثرات کو جانچنے کے کئی پیمانے ہو سکتے ہیں۔ ایک معروف اور معروضی پیمانہ ایک ماحول ہے جس کا خاتمہ ہوا یا وہ تحریک کمزور ہو گئی۔ ایک مکتبۂ فکر کی رائے یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں معاہدۂ ابراہیمی نہایت گہرے اثرات کا حامل تھا۔ اس معاہدے کی وجہ سے فلسطینی عوام نے محسوس کیا کہ دنیا نے طاقت کی اہمیت کو تسلیم کر کے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیا فلسطین اور اس کی آزادی کو بھول کر اپنی راہ سیدھی کرنے لگے گی۔ یوں کچھ عرصے میں اس مسئلے کا شمار بھی اسی طرح بھولے بسرے تناعات میں ہونے لگے گا جیسے آج جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن کے تنازعات کسی کو یاد بھی نہیں ۔اسی خطرے کے پیش نظر حماس نے کارروائی کا فیصلہ کیا۔ یوں مسئلۂ فلسطین کو پس پشت ڈالنے کی تمام تحریکیں ہمیشہ کے لیے یا وقتی طور پر دم توڑ گئیں۔ اس تنازعے کو قریب سے جاننے والے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطین کے معاملے میں یہ جو عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا ہے، اس کے لیے کوئی قیمت بھی دی جا سکتی ہے۔
7 اکتوبر کے بعد زور پکڑنے والے اس واقعے کا ایک اور پہلو بھی کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا۔ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے، جدید عالمی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع اور پورے فلسطین کے انفراسٹرکچر کی تباہی کوئی معمولی نقصان نہیں ہے۔ اس نقصان کے لیے انسانی المیے کا عنوان بھی ناکافی ہے۔
جانی نقصان اور اقتصادی و تعمیراتی ڈھانچے کی تباہی تو اپنی جگہ، اس وقت تو دکھائی یہ دیتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے پر ہی تلا ہوا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے یہ بھی مسلسل کہا گیا ہے کہ اس بار وہ حماس کا خاتمہ کر کے دم لے گا۔ اسرائیل کی طرف سے آنے والے اس قسم کے بیانات اس کے ناپاک عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسمٰعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اور اس سے پہلے بھی یہ بات بھی تسلسل کے ساتھ کہی گئی ہے کہ وہ حماس کی طاقت کا خاتمہ کرنے میں ابھی تک کام یاب نہیں ہو سکا ہے۔
ناجائز ریاست حماس کی طاقت کا خاتمہ کرنے میں کام یاب ہوئی ہے یا نہیں؟ سوال یہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں پر ابھی مزید آتش و آہن کی بارش کر کے تباہی پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں حماس کے حملوں نے اسرائیل کو چونکا کر رکھ دیا تھا ہزار بارہ سو افراد ہلاک بھی ہو گئے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ اطلاعات درست ہوں لیکن غزہ میں جو ظلم کیا گیا ہے اور تباہی مچائی گئی ہے، کیا وہ اس تباہی کا مقابلہ کرتی ہے جس کا سامنا فلسطینیوں کو کرنا پڑا ہے؟ ہرگز نہیں۔ جواب اگر واقعی نفی میں ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکتوبر کے حملے اور بعد کی حکمت عملی درست ہے؟
ہم برصغیر کے مسلمان بھی اس قسم کی صورت حال سے دوچار رہے ہیں۔ یہاں اسی قسم کی صورت حال تھی جس میں بنگال کے ہیرو نواب سراج الدولہ شہید ہوئے اور بنگال ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ میسور میں سلطان ٹیپو نے قربانیوں کی تاریخ رقم کی اور میسور ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ تحریک مجاہدین کے سرخیلوں شاہ اسمعیل شہید اور سید احمد شہید نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کی اور ناکام رہے۔ 1857 کی جنگ آزادی تو تاریخ میں منفرد ہے۔ اس جنگ کی ابتدا میں تو صاف دکھائی دیتا تھا کہ دشمن کو مات ہو گئی لیکن بعد کی داستان کہنے کا حوصلہ کسی میں نہیں۔ اس افتاد میں کچھ بزرگوں نے انگریز کے سامنے سپر ڈال دینے کا مشورہ دیا اور کچھ نے تعلیم کی طرف توجہ دی۔
اس فکری انتشار میں صرف اقبال تھے جنھوں نے اپنے ہم وطنوں کو اپنی فکری بنیاد پر جمے رہنے کا مشورہ دیا پھر ہدایت کی کہ دشمن کی فیلڈ میں جا کر لڑنے کا نتیجہ ہمیشہ وہی نکلے گا جو اب تک نکلتا آیا ہے، کام یابی کا راستہ غیر روایتی راستے میں ہے پھر وہ قائد اعظم کو برطانیہ سے واپس لائے اس کے بعد برصغیر کی کایا ہی نہیں تاریخ بھی بدل گئی۔ یہ تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ آج کے میدان جنگ میں وسائل اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں دشمن ہم سے اسی طرح آگے ہے جیسے مسلم برصغیر میں آگے تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہو اور آج فلسطین میں بھی ہمیں ایک اقبال اور قائد اعظم کی ضرورت ہو جو اپنے ذہن کی طاقت سے کم ظرف دشمن کو شکست سے دوچار کر دیں۔